بنیادی انسانی حقوق اور نیند
شاعر بیداری کا راگ مستقل گا رہے تھے اور نیند کے ماتوں کو خواب غفلت سے جگانے پر لگے ہوئے تھے
ہندوستان کے چیف جسٹس ایس ایچ کپاڈیا اپنے ساتھی ججوں سے بہت ناراض نظر آتے ہیں۔ انھوں نے آئینی معاملات پر ایک لیکچر دیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے سنگھی ساتھی ججوں کی روش پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ یہ جج حضرات کچھ زیادہ ہی پائوں پھیلا رہے ہیں۔ فیصلے دیتے وقت آئینی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ میرے عزیز ججو' چادر کو دیکھ کر پائوں پھیلائو۔ مگر تم چادر کو خاطر ہی میں نہیں لا رہے۔ پائوں پھیلاتے چلے جا رہے ہو۔
یہاں تک تو چیف جسٹس صاحب نے بہت جائز روک ٹوک کی۔ لیکن ایک جج صاحب کے جس فیصلہ یا جس محاکمہ پر انھوں نے تنقید کی ہم اس پر حق دق رہ گئے کہ جسٹس موصوف یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان ہی کے بیان سے ہمیں پتہ چلا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے کسی جج نے اپنا فیصلہ اس طرح سنایا کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق میں ان کے چادر تان کر سونے کا حق بھی شامل ہے۔ جج موصوف نے ایسی کونسی غلط بات کہی کہ جسٹس موصوف چراغ پا ہو گئے انھیں اعتراض ہے کہ جج موصوف نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ سونے جاگنے کے قصے کو درمیان میں لے آئے۔ بنیادی انسانی حقوق بر حق مگر انھیں اس حد تک کھینچنا کہ سونے کے عمل کو بھی بنیادی انسانی حقوق قرار دیدیا یہ حد سے تجاوز ہے۔
تعجب ہے کہ جسٹس صاحب نیند کی قدر و قیمت سے اس قدر نا آشنا ہیں۔ ارے صاحب یہ جو سلسلہ روز و شب ہے یہ تو ہے ہی سوتے جاگتے کا قصہ۔ خیر یہ تو ہم ذرا دور چلے گئے۔ اگر وہ اپنے سنگھی جج کے فیصلہ کو نہیں سمجھ پائے ہیں تو ہم سے میر کا ایک شعر سن لیں ؎
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
میر کے زمانے کا ذرا تصور میں لائیے۔راتیں کتنی خاموش ہوا کرتی تھی۔ رات ذرا گہری ہوئی اور الو بولنے لگتا تھا۔ رات کا سناٹا کھانے کو آتا تھا۔ لوگ جلدی ہی سو جاتے تھے۔ لیکن اگر اڑوس پڑوس میں کسی عاشق دلگیر کا ڈیرا ہے تو سمجھ لو کہ راتوں کا سکون غارت ہو گیا۔ یہ بدنصیب عاشق نہ خود سوئے گا نہ اڑوس پڑوس والوں کو سونے دے گا۔ اگر ایک بھی عاشق ہے تو وہ اپنے نالوں سے محلہ والوں کی نیندیں حرام کر دے گا۔ میر نے کیا غلط کہا کہ ہجر کا مارا عاشق اگر اسی درد سے آہ و زاری کرتا رہے گا تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا۔ اس کے نالوں سے بقول غالب بیشک آفتاب میں شگاف پڑ جائے پر محبوب کا پتھر دل موم نہیں ہو گا۔ نیندیں حرام ہوں گی ہمسایوں کی۔
یہ صحیح ہے کہ میر کے زمانے کا ستم رسیدہ عاشق اس زمانے کے ساتھ گزر گیا۔ وہ گیا اس کے ساتھ اس کے دل خراش نالے بھی گئے۔ مگر ان دل خراش نالوں کی جگہ سمع خراش نعرے آ گئے۔ ذرا تصور کیجیے کہ آپ کے گھر کے آس پاس کھلے میدان میں جلسہ برپا ہے۔ پہلے تو مقرر کی گلا پھاڑ آواز آپ کی سمع خراشی کرے گی۔ پھر نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اس شور بھری فضا میں تو آئی نیند رفو چکر ہو جائے گی۔
اگر پڑوس میں جلسے کا اہتمام نہیں ہے تو قطعی ممکن ہے کہ پڑوس کے کسی گھر میں فلمی گانوں سے شوق فرمایا جا رہا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ گئے زمانے میں خالی ایک عاشق دلگیر تھا۔ اس نئے زمانے میں سو طرح کے شور ہیں اس شور نے راتوں کے سناٹے کو اور گھروں کے سکون کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اب ہم آپ میر سے بڑھ کر انھی پر شور راتوں کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی حساس جج نے ازراہ انسان دوستی یہ فیصلہ سنایا کہ رات کو منہ لپیٹ کر چادر تان کر سونا ایک شریف شہری کا بنیادی حق ہے تو یہ اس نے خلقت پر احسان کیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب اس نیند اڑا دینے والے شور کے تجربے سے کب گزرے ہوں گے۔ پرانی دلی کی کسی گلی میں جا کر گھر بسائیں پھر انھیں پتہ چلے گا کہ نیند کتنی بڑی نعمت ہے اور اس میں خلل کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔
لیجیے اس پر ہمیں ایک حکایت یاد آ گئی۔ کسی عامل نے تسخیر جنات کا وظیفہ پڑھا اور ایک جن کو اس وظیفہ کے زور پر قبضہ میں کر لیا۔ یہ جن عجب نکلا۔ ہر وقت دست بستہ خدمت میں حاضر۔ ہر پھر کر ایک ہی سوال کہ کوئی کام بتائیے کہ میں اسے انجام دے کر اپنا فرض پورا کروں۔
عامل جو کام بتاتا اس کام کو فوراً انجام دیتا۔ پھر خدمت میں حاضر اور وہی التجا کہ اور کوئی کام بتائیے۔ عامل سخت پریشان کہ یہ اس کمبخت جن نے تو میری رات کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ خیر پھر یوں ہوا کہ کام انجام دے کر جن پھر خدمت میں حاضر ہوا تو اور وہی کلمہ دہرایا کہ اور کوئی کام بتائیے۔ اتفاق سے اس وقت گھر میں پلا کتا آس پاس منڈلا رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال دیکھ کر عامل کو عجب سوجھی۔ جن سے کہا کہ اس کتے کے بال سیدھے کرو۔ جن فوراً اس کام پر جت گیا۔ مگر کتے کے گھنگھریالے بال تو عجب جنجال نکلے۔ سیدھے ہو کر پھر بل کھا کر گھنگھریالے بن جاتے تھے۔
عامل نے دیکھا کہ جن اب اس کار فضول میں الجھا رہے گا۔ اب میں رات کو اطمینان سے سو سکتا ہوں۔ یہ گھنگریالے بال اسے فراغت سے بیٹھنے نہیں دیں گے تب اس نے سر سے پیر تک چادر تانی اور ایسے سویا جیسے گھوڑوں کا سوداگر گھوڑے بیچ کر سوتا ہے۔
لیجیے اس پر ہمیں ناصر کاظمی کی ایک غزل یاد آ گئی جس کی ردیف ہے سو رہو سو رہو؎
دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
یہ غزل تقسیم کے بعد کے ان برسوں میں لکھی گئی تھی جب ترقی پسند تحریک زوروں میں تھی۔ شاعر بیداری کا راگ مستقل گا رہے تھے اور نیند کے ماتوں کو خواب غفلت سے جگانے پر لگے ہوئے تھے۔ جاگو' جاگو جاگو۔ ناصر رتجگے کا بہت قائل تھا۔ رات رات بھر جاگتے رہنا' سنسان سڑکوں گلیوں میں گھومتے پھرنا۔ شاید انھیں راتوں میں اس پر یہ کھلا کہ نیند بھی ایک سچائی ہے ورنہ رات قدرت نے کیوں بنائی۔ تو کائناتی سچائی کچھ اس طرح ہے کہ: تو شب آفریدی' خواب آفریدم۔ خواب غفلت سے بیداری کا انقلاب آفریں نعرہ اپنی جگہ۔ مگر آدمی کو سونا بھی چاہیے۔ یہ آدمی کی ضرورت بھی ہے اور اس کا حق بھی ہے۔ مگر غالب اس سے بڑھ کر کچھ اور کہتا ہے ؎
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
ہم سب خواب میں ہیں۔ یہ جو ہم اپنے آپ کو بیدار سمجھ رہے ہیں سمجھ لو کہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ کل عالم نیند میں ہے۔
یہاں تک تو چیف جسٹس صاحب نے بہت جائز روک ٹوک کی۔ لیکن ایک جج صاحب کے جس فیصلہ یا جس محاکمہ پر انھوں نے تنقید کی ہم اس پر حق دق رہ گئے کہ جسٹس موصوف یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان ہی کے بیان سے ہمیں پتہ چلا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے کسی جج نے اپنا فیصلہ اس طرح سنایا کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق میں ان کے چادر تان کر سونے کا حق بھی شامل ہے۔ جج موصوف نے ایسی کونسی غلط بات کہی کہ جسٹس موصوف چراغ پا ہو گئے انھیں اعتراض ہے کہ جج موصوف نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ سونے جاگنے کے قصے کو درمیان میں لے آئے۔ بنیادی انسانی حقوق بر حق مگر انھیں اس حد تک کھینچنا کہ سونے کے عمل کو بھی بنیادی انسانی حقوق قرار دیدیا یہ حد سے تجاوز ہے۔
تعجب ہے کہ جسٹس صاحب نیند کی قدر و قیمت سے اس قدر نا آشنا ہیں۔ ارے صاحب یہ جو سلسلہ روز و شب ہے یہ تو ہے ہی سوتے جاگتے کا قصہ۔ خیر یہ تو ہم ذرا دور چلے گئے۔ اگر وہ اپنے سنگھی جج کے فیصلہ کو نہیں سمجھ پائے ہیں تو ہم سے میر کا ایک شعر سن لیں ؎
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
میر کے زمانے کا ذرا تصور میں لائیے۔راتیں کتنی خاموش ہوا کرتی تھی۔ رات ذرا گہری ہوئی اور الو بولنے لگتا تھا۔ رات کا سناٹا کھانے کو آتا تھا۔ لوگ جلدی ہی سو جاتے تھے۔ لیکن اگر اڑوس پڑوس میں کسی عاشق دلگیر کا ڈیرا ہے تو سمجھ لو کہ راتوں کا سکون غارت ہو گیا۔ یہ بدنصیب عاشق نہ خود سوئے گا نہ اڑوس پڑوس والوں کو سونے دے گا۔ اگر ایک بھی عاشق ہے تو وہ اپنے نالوں سے محلہ والوں کی نیندیں حرام کر دے گا۔ میر نے کیا غلط کہا کہ ہجر کا مارا عاشق اگر اسی درد سے آہ و زاری کرتا رہے گا تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا۔ اس کے نالوں سے بقول غالب بیشک آفتاب میں شگاف پڑ جائے پر محبوب کا پتھر دل موم نہیں ہو گا۔ نیندیں حرام ہوں گی ہمسایوں کی۔
یہ صحیح ہے کہ میر کے زمانے کا ستم رسیدہ عاشق اس زمانے کے ساتھ گزر گیا۔ وہ گیا اس کے ساتھ اس کے دل خراش نالے بھی گئے۔ مگر ان دل خراش نالوں کی جگہ سمع خراش نعرے آ گئے۔ ذرا تصور کیجیے کہ آپ کے گھر کے آس پاس کھلے میدان میں جلسہ برپا ہے۔ پہلے تو مقرر کی گلا پھاڑ آواز آپ کی سمع خراشی کرے گی۔ پھر نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اس شور بھری فضا میں تو آئی نیند رفو چکر ہو جائے گی۔
اگر پڑوس میں جلسے کا اہتمام نہیں ہے تو قطعی ممکن ہے کہ پڑوس کے کسی گھر میں فلمی گانوں سے شوق فرمایا جا رہا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ گئے زمانے میں خالی ایک عاشق دلگیر تھا۔ اس نئے زمانے میں سو طرح کے شور ہیں اس شور نے راتوں کے سناٹے کو اور گھروں کے سکون کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اب ہم آپ میر سے بڑھ کر انھی پر شور راتوں کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی حساس جج نے ازراہ انسان دوستی یہ فیصلہ سنایا کہ رات کو منہ لپیٹ کر چادر تان کر سونا ایک شریف شہری کا بنیادی حق ہے تو یہ اس نے خلقت پر احسان کیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب اس نیند اڑا دینے والے شور کے تجربے سے کب گزرے ہوں گے۔ پرانی دلی کی کسی گلی میں جا کر گھر بسائیں پھر انھیں پتہ چلے گا کہ نیند کتنی بڑی نعمت ہے اور اس میں خلل کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔
لیجیے اس پر ہمیں ایک حکایت یاد آ گئی۔ کسی عامل نے تسخیر جنات کا وظیفہ پڑھا اور ایک جن کو اس وظیفہ کے زور پر قبضہ میں کر لیا۔ یہ جن عجب نکلا۔ ہر وقت دست بستہ خدمت میں حاضر۔ ہر پھر کر ایک ہی سوال کہ کوئی کام بتائیے کہ میں اسے انجام دے کر اپنا فرض پورا کروں۔
عامل جو کام بتاتا اس کام کو فوراً انجام دیتا۔ پھر خدمت میں حاضر اور وہی التجا کہ اور کوئی کام بتائیے۔ عامل سخت پریشان کہ یہ اس کمبخت جن نے تو میری رات کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ خیر پھر یوں ہوا کہ کام انجام دے کر جن پھر خدمت میں حاضر ہوا تو اور وہی کلمہ دہرایا کہ اور کوئی کام بتائیے۔ اتفاق سے اس وقت گھر میں پلا کتا آس پاس منڈلا رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال دیکھ کر عامل کو عجب سوجھی۔ جن سے کہا کہ اس کتے کے بال سیدھے کرو۔ جن فوراً اس کام پر جت گیا۔ مگر کتے کے گھنگھریالے بال تو عجب جنجال نکلے۔ سیدھے ہو کر پھر بل کھا کر گھنگھریالے بن جاتے تھے۔
عامل نے دیکھا کہ جن اب اس کار فضول میں الجھا رہے گا۔ اب میں رات کو اطمینان سے سو سکتا ہوں۔ یہ گھنگریالے بال اسے فراغت سے بیٹھنے نہیں دیں گے تب اس نے سر سے پیر تک چادر تانی اور ایسے سویا جیسے گھوڑوں کا سوداگر گھوڑے بیچ کر سوتا ہے۔
لیجیے اس پر ہمیں ناصر کاظمی کی ایک غزل یاد آ گئی جس کی ردیف ہے سو رہو سو رہو؎
دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
یہ غزل تقسیم کے بعد کے ان برسوں میں لکھی گئی تھی جب ترقی پسند تحریک زوروں میں تھی۔ شاعر بیداری کا راگ مستقل گا رہے تھے اور نیند کے ماتوں کو خواب غفلت سے جگانے پر لگے ہوئے تھے۔ جاگو' جاگو جاگو۔ ناصر رتجگے کا بہت قائل تھا۔ رات رات بھر جاگتے رہنا' سنسان سڑکوں گلیوں میں گھومتے پھرنا۔ شاید انھیں راتوں میں اس پر یہ کھلا کہ نیند بھی ایک سچائی ہے ورنہ رات قدرت نے کیوں بنائی۔ تو کائناتی سچائی کچھ اس طرح ہے کہ: تو شب آفریدی' خواب آفریدم۔ خواب غفلت سے بیداری کا انقلاب آفریں نعرہ اپنی جگہ۔ مگر آدمی کو سونا بھی چاہیے۔ یہ آدمی کی ضرورت بھی ہے اور اس کا حق بھی ہے۔ مگر غالب اس سے بڑھ کر کچھ اور کہتا ہے ؎
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
ہم سب خواب میں ہیں۔ یہ جو ہم اپنے آپ کو بیدار سمجھ رہے ہیں سمجھ لو کہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ کل عالم نیند میں ہے۔