سرمایہ داری کی ہیرا پھیری

آج کی سرمایہ داری کا بحران غذائی قلت کا بحران نہیں ہے بلکہ زائد پیداوارکا بحران ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

سرمایہ داری کی ہیرا پھیری، منافقت اور دوغلا پن ساری دنیا میں عیاں ہے۔عالمی سرمایہ داری کی متضاد موقف اور اندرون ملک آئے روز اسی قسم کی الٹ پھیر، تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔اس لیے بھی کہ اس نے جدید سائنسی آلات کے طلسماتی کارناموں کے جن کو بوتل سے نکال تولیا ہے لیکن اب یہ جن بوتل میں واپس جانے سے انکاری ہے۔

آج کی سرمایہ داری کا بحران غذائی قلت کا بحران نہیں ہے بلکہ زائد پیداوارکا بحران ہے۔ ساڑھے سات ارب لوگوں کی بجائے دس ارب لوگوں کی ضروریات زندگی کی اشیا موجود ہیں مگر عوام کے پاس قوت خرید نہیں ہے۔

ایک جانب دولت کا انبار اور دوسری جانب قحط ۔ اس صورتحال میں سامراجیوں کا آپس کا تضاد ، اندرون ملک مفادات کا تضاد اور پارٹیوں کے مابین نظریات اور مفادات کے تضادات اس حد تک بے نقاب ہوگئے ہیں کہ اب یہ باتیں میڈیا پر بھی بر ملا آنے لگی ہیں۔ اب تو سامراجیوں کے مراکز دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ، مگراس تقسیم نے عوام کی بھلائی کے بجائے مزید افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

ایک جانب چین کے سب سے بڑے تجارتی مراکز امریکا اور جاپان ہیں تو دوسری طرف تجارتی جھگڑے بھی انھیں کے مابین سب سے زیادہ عروج پہ ہیں۔ فرانس جوکہ امریکا کا اتحادی ہے اور اس کا صدر میکرون امریکی صدر ٹرمپ سے کم رجعتی نہیں۔اسی لیے اکتالیس ہفتے ہوگئے کہ بلاجماعت اور رہنما کے عوام نے سرمایہ داری کو للکارا ہوا ہے۔

اب تک محنت کشوں، شہریوں اور پیداواری قوتوں نے اپنے بارہ مطالبات منوائے بھی ہیں اور اب پیلی جیکٹ تحریک صدر میکرون کا استعفیٰ ، نیٹو سے علٰیحدگی اور غیرملکوں سے فرانسیسی فوج کی واپسی کے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ تحریک سیاسی اور معاشی طور پہ فرانس کو مفلوج کرتی جا رہی ہے۔اس کے اثرات صرف یورپ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پڑرہے ہیں۔اسی سے ملتی جلتی تحریک ہانگ کانگ میں پیلی چھتری تحریک آب وتاب سے جاری ہے، وہاں بھی کوئی جماعت اور لیڈر نظر نہیں آرہے ہیں۔

یہ لیڈران اور جماعتیں ہی تو انقلاب کو روکا کرتی ہیں۔کشمیرکے مسئلے پر دنیا کی تقریبا سبھی بڑی سامراجی طاقتیں لگ بھگ ایک ہی رائے کی نظر آتی ہیں مگرکچھ کرنا بھی نہیں چاہتی ہیں جب کہ وینزویلا کے معاملات میں تقسیم ہیں۔ ایران بظاہر امریکا کے خلاف ڈٹا ہوا نظر آتا ہے لیکن اندرون ملک دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی کارکنان کو یہیں پھانسی دی جاتی ہے۔گزشتہ برس 53 بائیں بازو، خاص کرکمیونسٹوں کو پھانسی دی گئی۔ حقیقی سامراج مخالف ، سوشلسٹ،کمیونسٹ یا انارکسٹ آزادی سے سیاسی سرگرمی نہیں کر سکتے اور اب بھی مسلسل پابندیاں ہیں۔


سخت گیر پالیسیوں نے ایرانی عوام کو بھوک ، افلاس، غربت ، مہنگائی ، قحط اور فاقہ کشی کے غار میں دھکیل دیا ہے۔اس وقت وہاں 300 روپے کی ایک روٹی دستیاب ہے۔ آج کل بظاہر امریکا مخالف ترکی کے حکمران کچھ اقدامات کرتے ہیں اس لیے بھی کہ ان کا ایندھن کے تیل کا انحصار روس پر ہے۔ پھر بھی ترکی نیٹوکا رکن ہے اور نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔

استنبول میں اس وقت جرمنی کا فوجی اڈہ موجود ہے۔اکثر بائیں بازوکی جماعتیں اس اڈے کے خاتمے کے لیے جرمن فوجی اڈے کی جانب مارچ کرتی ہیں ، لیکن ترکی کی فوج انھیں روکتی ہے۔اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی( 250سے زیادہ) ایک مسلم ملک کے قید خانے میں ہیں۔ وہاں استاد اور دانشور بھی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔گزشتہ دنوں دو شہروں کے میئروں کو ترکی کی حکومت نے برطرف کردیا جس کے خلاف عوام احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پہ نکل آئے، انھیں واٹرکینن سے منتشرکیا گیا۔

ایسی ہی صورتحال کیٹالونیہ، اسپین کی ہے۔عوام نے 80 فیصد ووٹ دے کر ریفرنڈم میں یہ ثابت کیاکہ وہ اسپین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، وہ انارکوکمیو نسٹ نظریات اور بے ریاستی سماج قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن میڈرڈ کی سپریم کورٹ اورحکومت اسپین نے ان کی شفاف ریفرنڈم کو غیر قانونی قراردیا، ان کمیونسٹوں کے خلاف قوم پرست اور علیحدگی پسند ہونے کا دنیا بھر میں پروپیگنڈا شروع کردیا ہے ، جب کہ انھوں نے کہیں بھی اپنے آپ کو قوم پرست کہا اور نہ علیحدگی پسند۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو خود مختار انارکوکمیونسٹ کہتے ہیں۔

ہماری حکومت کرپشن کے خاتمے اور بیرونی سرمایہ کاری کا نعرہ دیتی آ رہی ہے اور انھیں دو نکات پر ملک کی معیشت کو راہ راست پر لانا چاہتی ہے اور ان کا موقف ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل ان اقدامات سے حل ہو جائیں گے ، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک کی بہتری اور خوشحالی کے لیے، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے دو بنیادی اقدام کرنے ہونگے۔

اس سے کم ازکم 50 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اور وہ ہیں ملک بھر میں کارخانوں کا جال بچھانا اور ہر قسم کی سرکاری یا نجی جاگیروں،کچے، تحفے اور بنجر زمینوں کو بے زمین اورکم زمین رکھنے والے کسانوں میں تقسیم کرنا ہے۔اس سے مل کارخانوں میں جب لوگوں کو ملازمت ملے گی تو وہ دو نہیں تو ایک روٹی کھا ہی لے گا۔ جب پانچ دس ایکڑ زمین بھی کسانوں کو ملے گی تو اسے جینے کا آسرا تو مل جائے گا۔ یہ کام ہم 73برس میں نہیں کر پائے۔ اس کام کے لیے غیر ملکی درآمدات پر پانچ سو سے ایک ہزار فیصد ڈیوٹی لگانی ہوگی اور سو ایکڑ سے زائد زمین رکھنے والوں کی زمین ضبط کرنی ہوگی۔

ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر ریاستی انارکوکمیونسٹ یا امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے ، مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک تجویزکردہ مندرجہ بالا پروگرام پر اگر عمل کر لیا جائے تو پھر ایک حد تک عوام کے روزگارکے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story