اصفہان اور واپسی
نظریں اُوپر اٹھاکر دیکھا تو عمارت پر جلی حروف میں لکھا تھا’’ اصفہان سٹی سینٹر‘‘۔
چہل ستون کا مطلب ہے چالیس ستونوں والا محل،یہ بھی شاہ عباس دوم نے تعمیر کروایا تھا۔محل کے سامنے ایک طویل تالاب ہے اور چاروں طرف باغات ہیں،محل کی بڑی عمارت لکڑی کے بیس ستونوں پر کھڑی ہے۔ ستونوں کا عکس تالاب میں پڑتا ہے تو وہ چالیس نظر آتے ہیں اس لیے یہ چہل ستون محل کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ نقش جہاں کے علی قاپو محل کی طرح اِس محل کی دیواروں اور چھتوں پر بھی بڑی بڑی پینٹنگز اور میورل بنائے گئے ہیں۔
کسی تصویر میں 1696میں یہاں آنے والے اُزبک بادشاہ کا استقبال دکھا یا گیا ہے۔کسی میں 1661میں اسی محل میں تشریف لانے والے امیر آف بخارا کے اعزازمیں دی گئی دعوت کی منظر کشی کی گئی ہے، کسی میں عثمانی سلطان سلیم کے خلاف جنگ کا منظر نظر آتا ہے۔
ایک تصویر میں اُس واقعے کی منظر کشی کی گئی ہے جب 1544 میں مغل بادشاہ ہمایوں،شیرشاہ سوری سے شکست کھاکر بھاگا اور ایران میں پناہ لی۔ ایرانی جنگجو نادرشاہ کے ہندوستان پر حملے اور فتح کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چہل ستون محل سے نکل کر ہم آٹھویں صفوی بادشاہ سلیمان اول کا تعمیر کر دہ محل ہشت بہشت دیکھنے چلے گئے۔ ہر جگہ مقامی پڑھے لکھے لوگوں سے گپ شپ بھی ہوتی رہی۔دوپہر کو ہم ہوٹل آگئے اور پروگرام بنا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شام کو سیر کے لیے نکلیں گے۔شام کو تیار ہوکر لابی میں آئے تو رات کے کھانے کے بارے میںبحث چھڑی، سب کا بیانیہ ایک ہی تھا کہ ایران کی محبت میں اصفہانی کھانے بہت کھا لیے آ ج کہیں سے اپنی تندوری روٹی تلاش کی جائے۔
راہنمائی کے لیے پھر فاطمہ سے رجوع کیا۔ خانم سے پوچھا کہ رات کے کھانے کے لیے گرم گرم تندوری روٹی کہاں سے ملیگی'' تواس نے بلاتوقف جواب دیا ''سٹی سینٹر چلے جائیں''۔ ہم سمجھے کہ سٹی سینٹر عام شہروں کی طرح ڈاؤن ٹاؤن کا علاقہ ہوگا اور اصفہان شہر کا مرکز ی حصہ سٹی سینٹر کہلاتاہوگا۔ٹیکسی میں بیٹھے تو طویل سفر کے بعد بھی سٹی سینٹر کہیں نظر نہ آیا۔ہم زیادہ حیران اُس وقت ہوئے جب ڈرائیور ہمیں شہر سے باہر لے آیا اور اُس نے ٹیکسی قدرے ویران راستے پر ڈالدی۔
مجھے ذرا تشویش ہوئی پھر میں نے اُسکی جسامت اور ڈیل ڈول کا جائزہ لیا تو قدرے اطمینان ہوا کہ ڈرائیور کی نیت میں فتور بھی آگیا تو بھی ہم تینوں اس پر قابو پالیں گے لیکن یہ صرف وہم تھا۔ ایران کے عام لوگ، دکاندار اور ڈرائیور ہر جگہ ہم سے بڑی عزتّ اور محبت سے پیش آتے رہے۔ ہوٹل سے کم ازکم پچاس ساٹھ کلومیٹر چلنے کے بعد اُس نے ٹیکسی ایک عظیم الّشان عمارت کے سامنے لاکر کھڑی کردی۔
نظریں اُوپر اٹھاکر دیکھا تو عمارت پر جلی حروف میں لکھا تھا'' اصفہان سٹی سینٹر''۔ ایک تندوری روٹی کے لیے اِتنا طویل سفر شاید ایران کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہو۔ سَودا خاصا مہنگا پڑا۔ اصفہان سٹی سینٹر یہاں کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور ایران کا سب سے بڑا Shopping Mall ہے،اس میں ایک پانچ ستارہ ہوٹل 750 برینڈڈ اسٹور، تھیم پارک، رولر کوسٹر، انٹرنیشنل فنانشل سینٹر اورورلڈ ٹریڈ سینٹر بھی قائم کیے گئے ہیں، اس عمار ت میں 7سینماہال، ایک بہت بڑا ایکسپو سینٹر اور بیشمار ریستوران ہیں۔ ایک ریستوران سے تندوری روٹی تو مل گئی مگروہ پاکستان کی تندوری روٹی کے پاسکو بھی نہیں تھی۔
جلی ہوئی تندوری روٹی کھانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے ہم نے سٹی سینٹر کامکمل چکر لگایا اور پھر ساٹھ کلومیٹر کا سفر کرکے ہوٹل واپس پہنچے۔اصفہان میں ابھی دیکھنے والی کئی اور چیزیں رہ گئی تھیں۔ اصفہان کا چڑیا گھر اور پرندوں کا باغ بھی یہاں کے بڑے سیاحتی مرکز ہیںمگر وقت کی قلّت تھی اس لیے کئی جگہوں کو باہر سے دیکھنے اور صدر دروازے سے ہی سلام ِ محبت پہنچانے پر اکتفا کرنا پڑا۔ اصفہان بلا شبہ دُنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ہے جسے دیکھ کر یہ افسوس ہوتا رہا کہ ہم یہاں پہلے کیوں نہ آئے۔جو پاکستانی گھرانے ہر سال سیر و سیاحت کے لیے یورپ چلے جاتے ہیں انھیں چائیے کہ وہ ہمسایہ ملکوں مثلاًایران،ترکی اور سینٹرل ایشیاکے ممالک میں جائیں، وہاں جاکر انھیں اندازہ ہوگا کہ اسلامی ملکوں میں کتنے خوبصورت شہر اور حسن وجمال کے کتنے قابل دید نقش موجود ہیں۔
اصفہان سے فضائی سفر کے ذریعے ہم پہلے تہران اور وہاں سے اُسی شام وطن عزیز کے لیے روانہ ہو گئے۔ ماہان ائرلائینز کے جہاز میں کچھ نیم خواندہ قسم کے زائرین نے دورانِ پرواز ہی فرقہ واریت پر مبنی نعرے بازی شروع کردی جس سے باقی مسافروں کی طبیعت خاصی مکدر ہوئی۔ نامناسب نعروں کے دوران میں نے ساتھ بیٹھے ایک پڑھے لکھے شخص کی جانب دیکھا تو اُس نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا it's disgusting'۔ ایئر لائنز کے اسٹاف کو چاہیے کہ جہاز میں کسی بھی قسم کی نعرے بازی پر پابندی لگائیں اور اس پر سختی سے عمل کرائیں۔
چند تجاویز:
جدید ٹیکنالوجی نے فاصلے مٹا کر کرۂ ارض کو ایک عالمی قصبے میں تبدیل کر دیا ہے اس سے یہ فائدہ ہو ا ہے کہ مختلف ملک اور قومیں ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں اور بہتر اور کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ایک اسلامی اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ہمیں ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات استوار کرنے چائیں ۔ ایک دوسرے کے بارے میں جو بھی تحفظا ت ہیں کھل کر ان کا اظہار ہوا ور پھر نیک نیتی سے ان کا ازالہ ہو نا چائیے۔
٭ ایران کے سپریم لیڈرسیّد علی خامینائی صاحب کی پاکستان سے محبت ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ بھارت کے جارحانہ عزائم اور کشمیر پر اُسکا غاصبانہ قبضہ اور کشمیری مسلمانوں پر اس کے ظلم و ستم ہیں اس پر عرب ملکوں کے رویے نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں ایران کے سپریم لیڈر جناب سیّدعلی خامینائی صاحب نے کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے جوقابلِ تحسین ہے۔ اس سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نا چائیے۔ حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چائیے کہ اپنے تحفظات کو سپریم لیڈر کی سطح پر اٹھائے تاکہ اُنکے واضح احکامات کے تحت ان کا ازالہ ہوسکے۔
٭ ایران کا لوکل گورنمنٹ سسٹم بڑا موثر اور توانا ہے، تہران میں تمام میگا پراجیکٹس کیplanning اور execution کا ذمے دار صرف اور صرف منتخب میئر ہو تا ہے اور منصوبوں کی تکمیل کے بعد وہی ان کا افتتاح کرتا ہے، مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی بنیاد اور پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے، ہمارے ہاں بھی جمہوریت کے علمبرداروں کو فراخدلی سے کام لیتے ہوئے اس بنیاد کو مضبوط بنانا ہوگا ورنہ کمزور بنیاد پر کھڑی عمارت ہمیشہ ڈگمگا تی رہیگی۔
٭ ایران میں ٹرانسپورٹ سسٹم بہت اعلیٰ ہے، بسوں کے اڈے اپنی وسعت،صفائی اور خوبصورتی میں قابلِ رشک ہیں۔ شہروں کے اندر بھی جدید اور اعلیٰ معیار کا ٹرانسپورٹ سسٹم کام کر رہا ہے جس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ ہم کسی صوبے یا شہر میں ٹرانسپورٹ کا معیاری نظام رائج نہیں کر سکے۔شہباز شریف نے پنجاب میں بہت اچھے initiativesلیے تھے مگر اُسے سراہنے کے بجائے اس کی ٹانگیں ہی کھینچی جاتی رہیں۔
٭ پورے ایران میں صفائی کا بہت اعلیٰ اِنتظام ہے، تہران کراچی کی طرح ایک میگا سٹی ہے مگر آپ کو تہران، اصفہان،مشہد یاشیراز میں کہیں کوڑے یا کچرے کے ڈھیر نظر نہیں آئینگے، میونسپلٹی کا عملہ رات کے دوبجے کے بعد پورے شہر کی سڑکوں کی صفائی کرتا ہے جو صبح چمک رہی ہو تی ہیں ۔ہمیں بڑے شہروں کی صفائی کے سلسلے میں ایران اور ترکی کے تجر بات سامنے رکھنے چائیں۔
٭ ہمارے ہاں موحولیا تی آلودگی اور global warming کی بات تو ہوتی ہے مگر عملی طور پر وزیروں اور افسروں کے بیرونی دوروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ایران میں باغات کے کلچر کو بہت پروان چڑھایا گیا ہے۔ ہمارے ہاںمغلیہ دور کے بعد کسی شہر میں باغات نہیں لگائے گئے۔ شہروں میں کچھ پارک بنائے گئے ہیں مگر باغات لگانے اور دورویہ سڑکوں کے درمیان سایہ دار درخت لگانے کا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اصفہان میں دورویہ سڑکوں کے درمیان اتنے خوبصورت درخت لگائے گئے ہیں جن کا سایہ فٹ پاتھوں کو بھی ٹھنڈا رکھتا ہے۔ہمیں بھی باغات لگانے کا سلسلہ شروع کرنا چائیے۔
٭ ایرانی قوم کو اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان سے بڑا جذباتی لگاؤ ہے۔ایرانی قوم کو اپنی اَقدار اور اپنی زبان پر فخر ہے۔انھوں نے فارسی زبان کے فروغ کے لیے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں،ہمارے ہاں اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چائیں ۔ اس سلسلے میں کتب بینی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن بڑی محنت سے سال میں ایک بار اسلام آباد میں کتاب میلے کا انعقاد کرتی ہے مگراسٹال اس قدر گراں نرخوں پر ملتے ہیں کہ پبلشرز حوصلہ چھوڑ ر ہے ہیں۔ حکومت کو چایئے اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوںمیں کتا ب میلے منعقد کرائے اور اس کا سارا خرچہ خود اٹھائے تاکہ پبلشرز کو مفت اسٹال ملیں اور وہ رعایتی نرخوں پر کتابیں فروخت کریں ۔
٭ایرانی شہروں میں پاکستانی ریستوران قائم کیے جائیں، اور تجارت کا حجم بڑھایا جائے۔
٭ ایرنی حکومت نے عوام کو سستی خوراک مہیا کرنے کے لیے بے پناہ subsidies دی ہیں اس لیے خوراک اور روزمرہّ استعمال کی اشیاء سستی اور عام آدمی کی پہنچ میں رہتی ہیں ۔اسی طرح ایران میں شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی (drinkable water) مہیا کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی یہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحِ اوّ ل ہونی چایئے۔
٭ حکومتِ پاکستان اردو میں ایم اے یا پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند ایرانی طلباء کو وظائف دینے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرے۔
کسی تصویر میں 1696میں یہاں آنے والے اُزبک بادشاہ کا استقبال دکھا یا گیا ہے۔کسی میں 1661میں اسی محل میں تشریف لانے والے امیر آف بخارا کے اعزازمیں دی گئی دعوت کی منظر کشی کی گئی ہے، کسی میں عثمانی سلطان سلیم کے خلاف جنگ کا منظر نظر آتا ہے۔
ایک تصویر میں اُس واقعے کی منظر کشی کی گئی ہے جب 1544 میں مغل بادشاہ ہمایوں،شیرشاہ سوری سے شکست کھاکر بھاگا اور ایران میں پناہ لی۔ ایرانی جنگجو نادرشاہ کے ہندوستان پر حملے اور فتح کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چہل ستون محل سے نکل کر ہم آٹھویں صفوی بادشاہ سلیمان اول کا تعمیر کر دہ محل ہشت بہشت دیکھنے چلے گئے۔ ہر جگہ مقامی پڑھے لکھے لوگوں سے گپ شپ بھی ہوتی رہی۔دوپہر کو ہم ہوٹل آگئے اور پروگرام بنا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شام کو سیر کے لیے نکلیں گے۔شام کو تیار ہوکر لابی میں آئے تو رات کے کھانے کے بارے میںبحث چھڑی، سب کا بیانیہ ایک ہی تھا کہ ایران کی محبت میں اصفہانی کھانے بہت کھا لیے آ ج کہیں سے اپنی تندوری روٹی تلاش کی جائے۔
راہنمائی کے لیے پھر فاطمہ سے رجوع کیا۔ خانم سے پوچھا کہ رات کے کھانے کے لیے گرم گرم تندوری روٹی کہاں سے ملیگی'' تواس نے بلاتوقف جواب دیا ''سٹی سینٹر چلے جائیں''۔ ہم سمجھے کہ سٹی سینٹر عام شہروں کی طرح ڈاؤن ٹاؤن کا علاقہ ہوگا اور اصفہان شہر کا مرکز ی حصہ سٹی سینٹر کہلاتاہوگا۔ٹیکسی میں بیٹھے تو طویل سفر کے بعد بھی سٹی سینٹر کہیں نظر نہ آیا۔ہم زیادہ حیران اُس وقت ہوئے جب ڈرائیور ہمیں شہر سے باہر لے آیا اور اُس نے ٹیکسی قدرے ویران راستے پر ڈالدی۔
مجھے ذرا تشویش ہوئی پھر میں نے اُسکی جسامت اور ڈیل ڈول کا جائزہ لیا تو قدرے اطمینان ہوا کہ ڈرائیور کی نیت میں فتور بھی آگیا تو بھی ہم تینوں اس پر قابو پالیں گے لیکن یہ صرف وہم تھا۔ ایران کے عام لوگ، دکاندار اور ڈرائیور ہر جگہ ہم سے بڑی عزتّ اور محبت سے پیش آتے رہے۔ ہوٹل سے کم ازکم پچاس ساٹھ کلومیٹر چلنے کے بعد اُس نے ٹیکسی ایک عظیم الّشان عمارت کے سامنے لاکر کھڑی کردی۔
نظریں اُوپر اٹھاکر دیکھا تو عمارت پر جلی حروف میں لکھا تھا'' اصفہان سٹی سینٹر''۔ ایک تندوری روٹی کے لیے اِتنا طویل سفر شاید ایران کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہو۔ سَودا خاصا مہنگا پڑا۔ اصفہان سٹی سینٹر یہاں کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور ایران کا سب سے بڑا Shopping Mall ہے،اس میں ایک پانچ ستارہ ہوٹل 750 برینڈڈ اسٹور، تھیم پارک، رولر کوسٹر، انٹرنیشنل فنانشل سینٹر اورورلڈ ٹریڈ سینٹر بھی قائم کیے گئے ہیں، اس عمار ت میں 7سینماہال، ایک بہت بڑا ایکسپو سینٹر اور بیشمار ریستوران ہیں۔ ایک ریستوران سے تندوری روٹی تو مل گئی مگروہ پاکستان کی تندوری روٹی کے پاسکو بھی نہیں تھی۔
جلی ہوئی تندوری روٹی کھانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے ہم نے سٹی سینٹر کامکمل چکر لگایا اور پھر ساٹھ کلومیٹر کا سفر کرکے ہوٹل واپس پہنچے۔اصفہان میں ابھی دیکھنے والی کئی اور چیزیں رہ گئی تھیں۔ اصفہان کا چڑیا گھر اور پرندوں کا باغ بھی یہاں کے بڑے سیاحتی مرکز ہیںمگر وقت کی قلّت تھی اس لیے کئی جگہوں کو باہر سے دیکھنے اور صدر دروازے سے ہی سلام ِ محبت پہنچانے پر اکتفا کرنا پڑا۔ اصفہان بلا شبہ دُنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ہے جسے دیکھ کر یہ افسوس ہوتا رہا کہ ہم یہاں پہلے کیوں نہ آئے۔جو پاکستانی گھرانے ہر سال سیر و سیاحت کے لیے یورپ چلے جاتے ہیں انھیں چائیے کہ وہ ہمسایہ ملکوں مثلاًایران،ترکی اور سینٹرل ایشیاکے ممالک میں جائیں، وہاں جاکر انھیں اندازہ ہوگا کہ اسلامی ملکوں میں کتنے خوبصورت شہر اور حسن وجمال کے کتنے قابل دید نقش موجود ہیں۔
اصفہان سے فضائی سفر کے ذریعے ہم پہلے تہران اور وہاں سے اُسی شام وطن عزیز کے لیے روانہ ہو گئے۔ ماہان ائرلائینز کے جہاز میں کچھ نیم خواندہ قسم کے زائرین نے دورانِ پرواز ہی فرقہ واریت پر مبنی نعرے بازی شروع کردی جس سے باقی مسافروں کی طبیعت خاصی مکدر ہوئی۔ نامناسب نعروں کے دوران میں نے ساتھ بیٹھے ایک پڑھے لکھے شخص کی جانب دیکھا تو اُس نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا it's disgusting'۔ ایئر لائنز کے اسٹاف کو چاہیے کہ جہاز میں کسی بھی قسم کی نعرے بازی پر پابندی لگائیں اور اس پر سختی سے عمل کرائیں۔
چند تجاویز:
جدید ٹیکنالوجی نے فاصلے مٹا کر کرۂ ارض کو ایک عالمی قصبے میں تبدیل کر دیا ہے اس سے یہ فائدہ ہو ا ہے کہ مختلف ملک اور قومیں ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں اور بہتر اور کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ایک اسلامی اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ہمیں ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات استوار کرنے چائیں ۔ ایک دوسرے کے بارے میں جو بھی تحفظا ت ہیں کھل کر ان کا اظہار ہوا ور پھر نیک نیتی سے ان کا ازالہ ہو نا چائیے۔
٭ ایران کے سپریم لیڈرسیّد علی خامینائی صاحب کی پاکستان سے محبت ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ بھارت کے جارحانہ عزائم اور کشمیر پر اُسکا غاصبانہ قبضہ اور کشمیری مسلمانوں پر اس کے ظلم و ستم ہیں اس پر عرب ملکوں کے رویے نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں ایران کے سپریم لیڈر جناب سیّدعلی خامینائی صاحب نے کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے جوقابلِ تحسین ہے۔ اس سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نا چائیے۔ حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چائیے کہ اپنے تحفظات کو سپریم لیڈر کی سطح پر اٹھائے تاکہ اُنکے واضح احکامات کے تحت ان کا ازالہ ہوسکے۔
٭ ایران کا لوکل گورنمنٹ سسٹم بڑا موثر اور توانا ہے، تہران میں تمام میگا پراجیکٹس کیplanning اور execution کا ذمے دار صرف اور صرف منتخب میئر ہو تا ہے اور منصوبوں کی تکمیل کے بعد وہی ان کا افتتاح کرتا ہے، مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی بنیاد اور پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے، ہمارے ہاں بھی جمہوریت کے علمبرداروں کو فراخدلی سے کام لیتے ہوئے اس بنیاد کو مضبوط بنانا ہوگا ورنہ کمزور بنیاد پر کھڑی عمارت ہمیشہ ڈگمگا تی رہیگی۔
٭ ایران میں ٹرانسپورٹ سسٹم بہت اعلیٰ ہے، بسوں کے اڈے اپنی وسعت،صفائی اور خوبصورتی میں قابلِ رشک ہیں۔ شہروں کے اندر بھی جدید اور اعلیٰ معیار کا ٹرانسپورٹ سسٹم کام کر رہا ہے جس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ ہم کسی صوبے یا شہر میں ٹرانسپورٹ کا معیاری نظام رائج نہیں کر سکے۔شہباز شریف نے پنجاب میں بہت اچھے initiativesلیے تھے مگر اُسے سراہنے کے بجائے اس کی ٹانگیں ہی کھینچی جاتی رہیں۔
٭ پورے ایران میں صفائی کا بہت اعلیٰ اِنتظام ہے، تہران کراچی کی طرح ایک میگا سٹی ہے مگر آپ کو تہران، اصفہان،مشہد یاشیراز میں کہیں کوڑے یا کچرے کے ڈھیر نظر نہیں آئینگے، میونسپلٹی کا عملہ رات کے دوبجے کے بعد پورے شہر کی سڑکوں کی صفائی کرتا ہے جو صبح چمک رہی ہو تی ہیں ۔ہمیں بڑے شہروں کی صفائی کے سلسلے میں ایران اور ترکی کے تجر بات سامنے رکھنے چائیں۔
٭ ہمارے ہاں موحولیا تی آلودگی اور global warming کی بات تو ہوتی ہے مگر عملی طور پر وزیروں اور افسروں کے بیرونی دوروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ایران میں باغات کے کلچر کو بہت پروان چڑھایا گیا ہے۔ ہمارے ہاںمغلیہ دور کے بعد کسی شہر میں باغات نہیں لگائے گئے۔ شہروں میں کچھ پارک بنائے گئے ہیں مگر باغات لگانے اور دورویہ سڑکوں کے درمیان سایہ دار درخت لگانے کا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اصفہان میں دورویہ سڑکوں کے درمیان اتنے خوبصورت درخت لگائے گئے ہیں جن کا سایہ فٹ پاتھوں کو بھی ٹھنڈا رکھتا ہے۔ہمیں بھی باغات لگانے کا سلسلہ شروع کرنا چائیے۔
٭ ایرانی قوم کو اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان سے بڑا جذباتی لگاؤ ہے۔ایرانی قوم کو اپنی اَقدار اور اپنی زبان پر فخر ہے۔انھوں نے فارسی زبان کے فروغ کے لیے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں،ہمارے ہاں اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چائیں ۔ اس سلسلے میں کتب بینی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن بڑی محنت سے سال میں ایک بار اسلام آباد میں کتاب میلے کا انعقاد کرتی ہے مگراسٹال اس قدر گراں نرخوں پر ملتے ہیں کہ پبلشرز حوصلہ چھوڑ ر ہے ہیں۔ حکومت کو چایئے اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوںمیں کتا ب میلے منعقد کرائے اور اس کا سارا خرچہ خود اٹھائے تاکہ پبلشرز کو مفت اسٹال ملیں اور وہ رعایتی نرخوں پر کتابیں فروخت کریں ۔
٭ایرانی شہروں میں پاکستانی ریستوران قائم کیے جائیں، اور تجارت کا حجم بڑھایا جائے۔
٭ ایرنی حکومت نے عوام کو سستی خوراک مہیا کرنے کے لیے بے پناہ subsidies دی ہیں اس لیے خوراک اور روزمرہّ استعمال کی اشیاء سستی اور عام آدمی کی پہنچ میں رہتی ہیں ۔اسی طرح ایران میں شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی (drinkable water) مہیا کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی یہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحِ اوّ ل ہونی چایئے۔
٭ حکومتِ پاکستان اردو میں ایم اے یا پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند ایرانی طلباء کو وظائف دینے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرے۔