ہمارا طرزِ کہن

نئے لوگ ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے انتظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

آزادی کے بعد سے پاکستان اور بھارت کا ساتھ چلا آ رہا ہے اور ہم اس بے رحم اور قاتل پڑوسی کے ساتھ زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں ایسے ہی جیسے کشمیری مسلمان بھارت کے قبضے میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے ہی مسئلہ کشمیر چلا آ رہا ہے اور ہم اس کے ساتھ زندہ ہیں لیکن ہمارے ملک میں گزشتہ ستر برسوں سے جو حکمران طبقہ اور بیوروکریسی چلی آ رہی ہے اس کے ساتھ ہم اب زندہ نہیں رہ سکیں گے۔

انگریزوں نے تاج برطانیہ سے وفاداری اور برطانوی حکومت کے استحکام کی خاطر جو بیوروکریسی تیار کی تھی اس کی ضرورت آزادی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی کیونکہ انگریز چلے گئے تھے، برطانوی حکومت ختم ہو گئی تھی اور جنوبی ایشیاء پر سے تاج برطانیہ کا سایہ ختم ہو گیا لہذا ایک آزاد ملک کے لیے یہ بیوروکریسی بالکل بے کار تھی۔

آزاد قوم کو ایک نئی انتظامیہ اور نئے افسروں کی ضرورت تھی جو ایک آزاد ملک کی ضروریات سمجھ سکتے اور آزاد ملک کے لوگوں کو کسی حکومت کی رعایا نہ سمجھتے لیکن آزادی کے بعد نہ تو افسروں میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی اور نہ ہمارے حکمرانوں نے ان میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان حکمرانوں نے بھی اپنے آپ کو ایک آزاد ملک کا حکمران نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو تاج برطانیہ کا جانشین سمجھتے رہے۔

ان کی حکمرانی کے استحکام کے لیے بھی ایسی ہی بیوروکریسی درکار تھی جس کی انگریزوں کو ضرورت تھی۔ پاکستان کی سرحدوں سے باہر پاکستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کیا گیا جو اقوام متحدہ کا ایک رکن بن گیا اور اس کے سفیر دنیا کے ملکوں میں آزاد پاکستان کی نمایندگی کے لیے پہنچ گئے لیکن ان سرحدوں کے اندر جو پاکستان تھا وہ ایک غیرآزاد ملک تھا۔ اس کے طور اطوار اور معمولات ایک آزاد ملک کے نہیں، ایک غلام ملک کے تھے۔

یہاں انگریزوں کے پروردہ طبقات کے لوگ حکمران تھے اور انھی انگریزوں کی تربیت یافتہ بیوروکریسی حکومت چلا رہی تھی۔ ان افسروں کے عملاً پاکستانی ہونے کی ایک دلچسپ مثال اس پرانے آئی سی ایس افسر کی وہ اپیل ہے جو اس نے ایوب خان کے زمانے میں ملازمت سے برطرف کیے جانے کے خلاف کی تھی اور کہا تھا کہ اس کی تقرری تو برطانوی حکومت نے کی ہے اور اسے صرف وہی حکومت ملازمت سے برطرف کر سکتی ہے چنانچہ اس نے اپنی برطرفی کے خلاف برطانیہ کی پریوی کونسل سے بھی رجوع کیا تھا۔


اس افسر کا رویہ اس بات کا اعلان تھا کہ وہ ایک آزاد ملک کا کارندہ نہیں تھا اور آزاد پاکستان کو اس پر کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ وہ آزادی کے بعد بھی برطانوی سامراج کے ایک تنخواہ دار کارندے کی حیثیت سے پاکستان میں متعین تھا۔ یہ تو آزادی کے بعد ایک آئی سی ایس افسر کا رویہ تھا۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ مثال قیام پاکستان کے چالیس برس بعد ہمیں اپنے حکمران طبقے میں اس وقت ملی جب ملکہ برطانیہ پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تو ہماری اس وقت کی اسمبلی کے اسپیکر نے ملکہ سے ملاقات میں اپنے آپ کو ان کی رعایا قرار دیا۔ پرانی باتیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان رسماً تو آزاد ہو گیا مگر اس کو چلانے والے غلام ہی رہے، خواہ وہ حکمران ہوں یا ان کے کارندے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آزاد مگر غلام ملک اس لیے نصف صورت میں قائم ہے کہ اس کے آقا اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں اور بوقت ضرورت اس کواستعمال کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

میں نے جو کچھ عرض کیا ہے یہ کوئی انکشاف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی چونکا دینے والی انوکھی بات ہے بلکہ ہمارے سامنے کی ایک حقیقت ہے جسے ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ میں یہ باتیں اس لیے تازہ کر رہا ہوں کہ اس وقت ملک میں ایک نئی حکومت ہے اور اس حکومت کے جو حکمران ہیں وہ نہ ہمارے روایتی حکمران ہیں اور نہ اس حکمران طبقہ کی پیداوار ہیں جس کی تربیت انگریزوں نے کی تھی بلکہ جس کی تخلیق انگریزوں نے اپنی ضرورت کے لیے کی تھی۔

نئے لوگ ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے انتظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ان کے اندر خوداعتمادی کی جھلک بھی ملتی ہے اور کبھی کبھار ان کی باتوں میں آزاد سوچ کی چمک بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے اختیار میں بھی کوئی کلام نہیں ہے اور انھوں نے پہلی بار بیوروکریسی کی براہ راست نگرانی شروع کی ہے جس سے افسر شاہی ناراض ہے اور تعاون سے گریزاں ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری یہ اردوکی تحریر اصل مقتدر لوگوں تک نہیں پہنچ سکے گی لیکن میں اس ملک کے باشندوں تک اپنی معروضات پہنچا سکتا ہوں اور وہی میرے مخاطب ہیں۔ میں انھی میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ہمار ملک کن بنیادی خرابیوں کا شکار چلا آرہا ہے اور عین ممکن ہے ان کے توسط سے حکمران بھی ایسی باتیں سن لیں، جب تک ہماری بیوروکریسی کو یکسر بدلا نہیںجاتا اور جب تک روایتی حکمران طبقے کو اس ملک کے اقتدار سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دینے کا بندو بست نہیں ہوتا، ہمارا وطن عزیز حقیقی آزادی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گا اور یہ دونوں کام ہو سکتے ہیں۔

ہماری بیوروکریسی ہو یا روایتی حکمران طبقہ، ان میں سے کوئی ایک فرد بھی اس ملک کے لیے ناگزیر نہیں ہے بلکہ ان سے نجات اس ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ جب تک ہم حکمرانی کے طرز کہن کو ختم کر کے اپنا جہان نو پیدا نہیں کرتے تب تک ہمارا اندرونی یا بیرونی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا اور ہم ایک دلدل سے نکل کر دوسری میں پھنس جائیں گے۔ اسی طرز کہن کی وجہ سے ہم آدھے ملک سے محروم ہو چکے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ بھٹو صاحب والے نہیں اور نہ ہی عمران خان والے ایک لفظاً و معناً نئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ قوم نہ صرف اس کے لیے تیار بلکہ بے تاب ہے۔
Load Next Story