پنچ مکھی مندر سے نوادرات کی دریافت
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دریافت شدہ نوادرات ڈھائی سے 300 سال سے زیادہ قدیم نہیں
چند ماہ قبل ایکسپریس بلاگ میں میرا لکھا گیا سولجر بازار میں 1500 سال قدیم پنچ مکھی ہنومان مندر سے متعلق بلاگ شائع ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ مندر اس قدر قدیم ہوسکتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کی رائے بھی پڑھنے والوں سے مختلف نہیں تھی۔ ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ یہ مندر 1500 سال قدیم تو نہیں لیکن ڈھائی سے 300 سال پرانا ہے۔ لیکن کچھ ماہرین کا ماننا تھا کہ جس طرح سندھ کے صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ کی تعمیر کو 1290 برس گزر چکے ہیں، اسی طرح یہ مندر بھی 1500 سال پرانا ہے، جس کا ذکر بعض انگریز ماہرین آثار قدیمہ کرچکے ہیں۔
گزشتہ بلاگ یہاں سے پڑھئے: سولجر بازار کا پندرہ سو سال پرانا مندر
اس حوالے سے مندر کے گدی نشین کا بھی دعویٰ یہی ہے کہ یہ مندر 15 سو سال قدیم ہے اور یہ دنیا کا وہ واحد مندر ہے جہاں ایک سادھو کی عبادت پر ہنومان زمین کی ساتویں تہہ سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے اور انہوں نے اس سادھو کو خواب میں آکر کہا کہ وہ مندر کی موجودہ جگہ سے 7 مٹھی مٹی نکالے۔ جیسے ہی اس سادھو نے مٹی نکالی تو ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق پنچ مکھی ہنومان کا ظہور ہوا اور اس وقت سے ان کی مورتی مندر میں اسی مقام پر موجود ہے۔ جس کی نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دنیا بھر سے آنے والے ہندو پوجا کرتے ہیں۔
پنچ مکھی مندر ایک قدیم تاریخ رکھتا ہے، جہاں ہنومان کے علاوہ شیراںوالی ماتا، مری ماتا سمیت دیگر بھگوانوں اور اوتاروں کی مورتیاں موجود ہیں۔ ان میں رادھے کرشن کی مورتی، جو چندن کی لکڑی سے تیار کی گئی تھی، آج بھی صدیاں گزر جانے کے باوجود اسی حالت میں موجود ہے۔
یہ مندر اندر سے بہت زیادہ وسیع نہیں ہے۔ اس مندر کے تنگ ہونے کے بارے میں ہندو برادری کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جس جگہ مندر موجود ہے یہ جگہ ماضی میں بہت وسیع تھی، مگر قیام پاکستان سے قبل اس پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا، جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر تھا۔ سپریم کورٹ نے ہندو برادری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قبضہ کی ہوئی جگہ، جس پر کئی خاندان آباد تھے، وا گزار کراکر مندر کی انتظامیہ کے حوالے کردی۔ جس کے بعد انتظامیہ نے فوری طور پر بنائے ہوئے گھر مسمار کرکے خالی ہونے والی جگہ کو استعمال کے قابل بنانے کےلیے کھدائی شروع کی۔ ابھی اس جگہ کی کھدائی چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی کہ زیر زمین صدیوں سے دبی مورتیاں دریافت ہونا شروع ہوگئیں اور صرف 3 روز کی کھدائی پر زمین کے اندر سے زینے، پختہ فرش دریافت ہونے کے ساتھ ہنومان، درگا سمیت مختلف بھگوانوں کی مورتیوں کے ساتھ شیولنگ، کڑاہی، سکے، سندور، گئو ماتا، ٹھیکریاں، ہڈیاں و دیگر قدیم نوادرات دریافت ہوئے۔
مندر کے احاطے کی کھدائی کے دوران ملنے والے قدیم نوادرات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس کے بعد نجی چینلز جس میں ایکسپریس نیوز بھی شامل ہے، نے بھرپور کوریج دی۔ محکمہ نوادرات کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو نے بھی محکمے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شاہ بخاری کی سربراہی میں 2 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے بعد ملنے والے نوادرات پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد اس مندر کی قدامت کے حوالے سے انکشافات سامنے آنے کے امکانات ہیں۔
مگر اب بھی بعض ماہرین آثار قدیمہ اس بات کو ماننے پر تیار نہیں کہ اس مندر کی قدامت 1500 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مندر زیاہ سے زیادہ ڈھائی سے 300 سال پرانا ہے۔ جبکہ دریافت ہونے والے نوادرات، جن میں گنیش، درگا، شیو لنگ، مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے مہاراج کی استھیاں، جو کہ یادگار کے طور پر چھوٹی چھوٹی مٹکیوں میں زمین کے اندر دفن تھیں، کے بارے میں بھی ان کے خیالات اسی قسم کے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: ''ہنومان مندر کی کھدائی میں ملی مورتیاں 300سال پرانی ہیں''
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے بہترین مورتیاں گندھارا تہذیب سے ملی ہیں، جو کہ کچھ اس طرح بنی ہوئی ہیں کہ ان میں انسانی رگیں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ جبکہ مندر سے دریافت ہونے والے ان نوادرات کو مورتیاں نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ انہیں پتھر کی پلیٹوں پر ابھار کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے۔ جس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ دریافت شدہ نوادرات ڈھائی سے 300 سال سے زیادہ قدیم نہیں۔ بہرحال محکمہ نوادرات کی تحقیق ثابت کرے گی کہ ملنے والے نوادرات 1500 سال پرانے ہیں یا پھر اس کی قدامت کم ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ بلاگ یہاں سے پڑھئے: سولجر بازار کا پندرہ سو سال پرانا مندر
اس حوالے سے مندر کے گدی نشین کا بھی دعویٰ یہی ہے کہ یہ مندر 15 سو سال قدیم ہے اور یہ دنیا کا وہ واحد مندر ہے جہاں ایک سادھو کی عبادت پر ہنومان زمین کی ساتویں تہہ سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے اور انہوں نے اس سادھو کو خواب میں آکر کہا کہ وہ مندر کی موجودہ جگہ سے 7 مٹھی مٹی نکالے۔ جیسے ہی اس سادھو نے مٹی نکالی تو ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق پنچ مکھی ہنومان کا ظہور ہوا اور اس وقت سے ان کی مورتی مندر میں اسی مقام پر موجود ہے۔ جس کی نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دنیا بھر سے آنے والے ہندو پوجا کرتے ہیں۔
پنچ مکھی مندر ایک قدیم تاریخ رکھتا ہے، جہاں ہنومان کے علاوہ شیراںوالی ماتا، مری ماتا سمیت دیگر بھگوانوں اور اوتاروں کی مورتیاں موجود ہیں۔ ان میں رادھے کرشن کی مورتی، جو چندن کی لکڑی سے تیار کی گئی تھی، آج بھی صدیاں گزر جانے کے باوجود اسی حالت میں موجود ہے۔
یہ مندر اندر سے بہت زیادہ وسیع نہیں ہے۔ اس مندر کے تنگ ہونے کے بارے میں ہندو برادری کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جس جگہ مندر موجود ہے یہ جگہ ماضی میں بہت وسیع تھی، مگر قیام پاکستان سے قبل اس پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا، جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر تھا۔ سپریم کورٹ نے ہندو برادری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قبضہ کی ہوئی جگہ، جس پر کئی خاندان آباد تھے، وا گزار کراکر مندر کی انتظامیہ کے حوالے کردی۔ جس کے بعد انتظامیہ نے فوری طور پر بنائے ہوئے گھر مسمار کرکے خالی ہونے والی جگہ کو استعمال کے قابل بنانے کےلیے کھدائی شروع کی۔ ابھی اس جگہ کی کھدائی چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی کہ زیر زمین صدیوں سے دبی مورتیاں دریافت ہونا شروع ہوگئیں اور صرف 3 روز کی کھدائی پر زمین کے اندر سے زینے، پختہ فرش دریافت ہونے کے ساتھ ہنومان، درگا سمیت مختلف بھگوانوں کی مورتیوں کے ساتھ شیولنگ، کڑاہی، سکے، سندور، گئو ماتا، ٹھیکریاں، ہڈیاں و دیگر قدیم نوادرات دریافت ہوئے۔
مندر کے احاطے کی کھدائی کے دوران ملنے والے قدیم نوادرات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس کے بعد نجی چینلز جس میں ایکسپریس نیوز بھی شامل ہے، نے بھرپور کوریج دی۔ محکمہ نوادرات کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو نے بھی محکمے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شاہ بخاری کی سربراہی میں 2 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے بعد ملنے والے نوادرات پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد اس مندر کی قدامت کے حوالے سے انکشافات سامنے آنے کے امکانات ہیں۔
مگر اب بھی بعض ماہرین آثار قدیمہ اس بات کو ماننے پر تیار نہیں کہ اس مندر کی قدامت 1500 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مندر زیاہ سے زیادہ ڈھائی سے 300 سال پرانا ہے۔ جبکہ دریافت ہونے والے نوادرات، جن میں گنیش، درگا، شیو لنگ، مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے مہاراج کی استھیاں، جو کہ یادگار کے طور پر چھوٹی چھوٹی مٹکیوں میں زمین کے اندر دفن تھیں، کے بارے میں بھی ان کے خیالات اسی قسم کے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: ''ہنومان مندر کی کھدائی میں ملی مورتیاں 300سال پرانی ہیں''
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے بہترین مورتیاں گندھارا تہذیب سے ملی ہیں، جو کہ کچھ اس طرح بنی ہوئی ہیں کہ ان میں انسانی رگیں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ جبکہ مندر سے دریافت ہونے والے ان نوادرات کو مورتیاں نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ انہیں پتھر کی پلیٹوں پر ابھار کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے۔ جس سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ دریافت شدہ نوادرات ڈھائی سے 300 سال سے زیادہ قدیم نہیں۔ بہرحال محکمہ نوادرات کی تحقیق ثابت کرے گی کہ ملنے والے نوادرات 1500 سال پرانے ہیں یا پھر اس کی قدامت کم ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔