پاک بھارت مذاکرات سبوتاژ کرنے کی ایک اور کوشش

یہ شرپسند عناصر خاصے طاقتور ہیں اور انھیں مقامی لوگوں میں ایک خاص طبقے کی حمایت بھی حاصل ہے۔

بھارتی میڈیا بھی آگ برسانے میں کسی سے پیچھے نہیں اور وہ وزیراعظم من موہن سنگھ پر دبائو ڈال رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کیے جائیں۔ فوٹو: اے ایف پی

لاہور:
جب بھی پاک بھارت مذاکرات شروع کرنے کی بات کی جاتی ہے تب کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تو کنٹرول لائن پر حالات کشیدہ ہو گئے اور بھارتی فوجیوں کی جانب سے مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کی جانے لگی جس سے مذاکرات کی کوششیں پس منظر میں چلی گئیں اور سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔

اب نیو یارک میں وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے درمیان ملاقات سے 72 گھنٹے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے بھارتی فوجی اڈے اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے لیفٹیننٹ کرنل سمیت 13 افراد کو ہلاک کر کے بات چیت کے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا یہ بیان خوش آیند ہے کہ ایسے حملے پاک بھارت مذاکرات پر کسی صورت بھی اثر انداز نہیں ہوں گے۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں پولیس ہیڈ کوارٹر اور فوجی کیمپ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کھلی بربریت ہے' شرپسند عناصر پاک بھارت مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت شرپسندوں کی سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ من موہن سنگھ نے یقین دلایا کہ پاکستانی ہم منصب میاں محمد نواز شریف سے شیڈول کے مطابق ملاقات ہو گی۔

اس وقت جب پاک بھارت تعلقات دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی متوقع ملاقات کے بعد بہتری کی جانب اہم رخ اختیار کرنے والے ہیں دہشت گرد پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق بھارتی فوج نے مقابلے میں تینوں حملہ آور ہلاک کر دیے ہیں۔ حملے کی ذمے داری شہداء بریگیڈ نے قبول کر لی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ حملہ آور سرحد پار سے داخل ہوئے تھے۔ حکمران جماعت کانگریس کے ترجمان نے معاملات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی امریکا میں ہونے والی بات چیت کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک میں موجود ایک طبقہ خطے میں امن مذاکرات کا حامی نہیں اور وہ امن عمل کو ڈی ریل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پہ کو اس حملے سے ایک اور موقع مل گیا ہے اور وہ بھارتی حکومت سے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔


بھارتی میڈیا بھی آگ برسانے میں کسی سے پیچھے نہیں اور وہ وزیراعظم من موہن سنگھ پر دبائو ڈال رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کیے جائیں۔ بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر نے ان حملوں میں پاکستانی ایجنسی کے ملوث ہونے کے بھارتی الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے ان سے آئی ایس آئی کا کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی حکومتی طبقے کو اس امر کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور پاکستانی حکومت دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے لہٰذا وہ امن مذاکرات کے لیے پاکستان کی دعوت کو مسترد کرنے کے بجائے مثبت ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے واضح کر دیا ہے کہ اس قسم کے حملے بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں' انھیں ادراک ہے کہ جنگ سے مسائل ختم نہیں بلکہ مزید بڑھیں گے لہٰذا دونوں اپنے دیرینہ مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں موجود ایک خاص طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بقا دونوں ممالک کی دشمنی اور نفرت میں ہے۔

دوستی اسے نقصان پہنچائے گی' وہ کسی بھی صورت مذاکرات نہیں چاہتا ،دشمنی اور نفرت کی فضا کو نہ صرف قائم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اسے کسی نہ کسی صورت بڑھاوا دینے کا خواہاں ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ طبقہ کوئی نہ کوئی ایسی شر انگیز کارروائی کر دیتا ہے جس سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی سبوتاژ ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن اس بار دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ مذاکرات کا عمل ہر صورت شروع کیا جائے گا شر پسندوں کی کوئی بھی کارروائی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ اس امر کا خدشہ بدستور موجود ہے کہ جیسے ہی دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان بات چیت کے عمل سے دوستانہ تعلقات کی راہ ہموار ہو گی' شر پسند عناصر ایک بار پھر کوئی نا کوئی کارروائی کر کے امن عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

یہ شرپسند عناصر خاصے طاقتور ہیں اور انھیں مقامی لوگوں میں ایک خاص طبقے کی حمایت بھی حاصل ہے لہٰذا دونوں ممالک کی حکومتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی شر پسند واقعہ کے بعد امن عمل کو سبوتاژ نہ ہونے دیں، اسی طرح شر پسند عناصر کے عزائم کو ناکام بنا کر خطے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔نیو یارک میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور وزیراعظم من موہن کی سنگھ ملاقات دراصل اس خطے کے انتہا پسندوں کی شکست ہے۔انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کرکے جس مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کی تھی ، وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔پاکستان اور بھارت کی عوام دوست قیادت اگر امن مخالفوں قوتوں کے عزائم کو ناکام بناتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب جنوبی ایشیا میں تعمیر وترقی کے نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔
Load Next Story