مذاکرات کا شاندار استقبال
22 ستمبر کو اتوار کے اس متبرک دن پشاور کے ایک گرجا گھر میں 500 سے زیادہ عیسائی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے.
مسجد، مندر، گرجا وغیرہ ایسی عبادت گاہیں ہیں جن کا احترام ساری دنیا میں کیا جاتا ہے، ان عبادت گاہوں میں دنیا کے غریب انسان، غربت کے ڈھائے ہوئے مظالم کے خلاف فریاد لے کر جاتے ہیں، یہاں جانے سے ان کی کلفتیں تو دور نہیں ہوتیں کیونکہ یہ کلفتیں یہ مظالم ان پر خدا کی طرف سے مسلط کیے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ اس نامنصفانہ اقتصادی نظام کا عطیہ ہوتے ہیں جو آج ساری دنیا پر مسلط ہے لیکن یہاں آنے سے انھیں سکون اور امید کی چند گھڑیاں ضرور میسر آتی ہیں۔ مسلمان سکون کی ان چند گھڑیوں کی تلاش میں مسجد جاتے ہیں، ہندو مندر جاتے ہیں، عیسائی گرجا جاتے ہیں، سکھ گوردوارہ جاتے ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کے لیے جمعہ بڑا دن ہوتا ہے اسی طرح عیسائیوں کے لیے اتوار متبرک دن ہوتا ہے۔
22 ستمبر کو اتوار کے اس متبرک دن پشاور کے ایک گرجا گھر میں 500 سے زیادہ عیسائی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے، یہ ابھی عبادت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ گرجا میں دو شیطان گھس آئے، دونوں نے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو بارود سے اڑالیا۔ 6-6 کلو بارودی جیکٹ کے دھماکے اتنے شدید تھے کہ ان کی زد میں آکر 83 ہلاک اور 150 زخمی ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں 7 بچے اور 34 خواتین شامل تھیں، زخمی ہونے والوں میں 37 بچے بھی شامل تھے۔ ٹی وی اسکرین پر اس سفاکانہ قتل کے جو مناظر دکھائے جارہے تھے وہ اس قدر اندوہناک تھے، ایک قیامت کا منظر تھا یہ سارے وہ غریب تھے جو اپنے اپنے دکھ لے کر گرجا گھر آئے تھے ان دکھی لوگوں کو بارود سے اس طرح اڑایا گیا تھا کہ گرجا گھر ان کے کٹے پٹے اعضا سے اٹا پڑا تھا گرجا کی زمین مرنے والوں کے خون سے سرخ تھی۔
صدر مملکت، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اہل سیاست اور مذہبی قیادت کی طرف سے روایتی مذمتی بیانات آرہے تھے جن میں دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں وحشی درندے اور انسانیت کے دشمن قرار دیا جارہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرنے والے انسان ہو ہی نہیں سکتے۔ وزیر داخلہ بھی ان درندوں کو انسان جاننے سے انکاری تھے اور وزیراعظم بھی ان کی سفاکی کو غیر انسانی قرار دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ایک سانس میں ان وحشیوں کو انسان تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے یعنی انھیں حیوان کہہ رہے تھے اور دوسری سانس میں فرما رہے تھے کہ اس نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کا واحد حل مذاکرات ہیں۔
ٹی وی کے دانشور بھی مذاکرات کو دہشت گردی کے مسئلے کا واحد حل بتا رہے تھے اور یہ وارننگ بھی دے رہے تھے کہ اگر مذاکرات کا راستہ ترک کیا گیا تو دہشت گرد پورے ملک کو جہنم بنادیں گے۔ اینکروں اور مبصروں کی بڑی تعداد مذاکرات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ اور بے معنی خواہش قرار دے رہی تھی، اس حوالے سے عام آدمی کے جو تاثرات پیش کیے جارہے تھے اس میں مذاکرات کے ڈھونگ کی مذمت کی جارہی تھی اور اس حیرت کا اظہار کیا جارہا تھا کہ ان مٹھی بھر وحشیوں کو حکومتی پالیسیوں نے اس قدر دیدہ دلیر بنادیا ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو جوتوں تلے روند رہے تھے۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار اس قدر مثبت تھا کہ اس کی تعریف نہ کرنا بذات خود انتہا پسندی ہے۔
یہ دہشت ناک کھیل اس وقت کھیلا گیا جب ملک کا وزیراعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا جارہا تھا۔ مذاکرات کے شدت سے حامی وزیراعظم انتہائی مایوسی سے کہہ رہے تھے کہ ہماری امن کی نیک نیتی کی خواہش اور اے پی سی کے مذاکرات کی اجتماعی خواہش کو دہشت گردی کی لگاتار کارروائیوں نے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور اب ہمیں اے پی سی کی طرف سے مذاکرات کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ مذاکرات کے حامی عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ مذاکرات کس سے کریں گے اور مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی ہر کوشش کا جواب دہشت گردوں کی طرف سے سفاکانہ دہشت گردی سے دیا جاتا ہے۔ اے پی سی کے مذاکراتی فیصلے کا جواب دہشت گردوں نے فوج کے ایک میجر جنرل، لیفٹیننٹ کرنل، اور اہلکار کے سفاکانہ قتل سے دیا اور اب مذاکرات کی احمقانہ خواہش کا جواب 83 بے گناہ انسانوں کے قتل سے دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے فیصلے آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی ہوتے ہیں لیکن اول تو یہ کوئی ایسی جنگ نہیں جو دو فوجیوں کے درمیان لڑی جاتی ہے، یہ وحشی گروہوں اور نہتے بے گناہ انسانوں کے درمیان لڑی جانے والی ایسی جنگ ہے جس کا ایک فریق تاریخ انسانی کی منفرد سفاکی سے دوسرے فریق کو قتل کر رہا ہے اور دوسرا فریق سر جھکائے قتل ہورہا ہے۔ پہلا وحشی فریق کھلے عام ریاست پر قبضے سے کم کسی بات پر تیار نہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے، دوسرا فریق مذاکرات کی پیشکش کرکے اپنی امن پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اب بھی بعض غازی اور پراسرار بندے مذاکرات ہی کو اس بربریت کا واحد حل قرار دے رہے ہیں اور مذاکرات کی سیاست سے ہٹنے کو قوم و ملک کی تباہی قرار دے رہے ہیں۔
دنیا کی جنگی تاریخ میں چھوٹی چھوٹی فوجوں نے اپنے نظم و ضبط، اپنی منصوبہ بندی، اپنی موثر حکمت عملی کے ذریعے بڑی بڑی فوجوں کو شکست دی ہے۔ پاکستان کے مٹھی بھر دہشت گرد اس لیے اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہورہے ہیں کہ وہ واردات انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ کر رہے ہیں اور ہمارا ہر اقدام بے نظمی بلا منصوبہ بندی بغیر کسی جامع حکمت عملی کے افراتفری اور مایوسی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس ملک کی بقا و سلامتی کے سنگین مسئلے پر ہمارے سیاستدان شدید اختلاف رائے کا شکار ہیں۔ 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کے بعد بھی ہم انتہائی احمقانہ یا عیارانہ طریقے سے قوم کو مذاکرات کا سبق پڑھا رہے ہیں اور قوم ہماری بزدلی پر لعنت بھیج رہی ہے۔
جو لوگ مذاکرات کو دہشت گردی کا واحد حل کہہ رہے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم یہ جنگ ہار چکے ہیں۔ اس احمقانہ موقف کے نتیجے میں ایک طرف پوری قوم مایوسی کا شکار ہورہی ہے تو دوسری طرف دنیا کو یہ پیغام جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار چکا ہے، جو نہ صرف ایک بزدلانہ موقف ہے بلکہ قومی جرم اور قومی توہین ہے۔ پاکستان 57 مسلم ملکوں میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، اس کے پاس 5 لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ فوج اور اتنی ہی تعداد میں پیراملٹری فورسز ہے، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کیا اتنی بڑی ریاستی مشنری کے ساتھ کوئی ملک مٹھی بھر باغیوں سے شکست کھاسکتا ہے؟ہرگز نہیں! ان ناکامیوں کی ذمے داری ہماری حکومتوں کے سر آتی ہے جنھوں نے اس عفریت سے نمٹنے، اسے ختم کرنے کی کوئی ماہرانہ منصوبہ بندی کی، نہ موثر حکمت عملی بنائی، نہ عوام کو اس لڑائی میں شامل کیا۔ جنگلوں، پہاڑوں میں ان انسانیت کے باغیوں سے لڑنے کے لیے جس قسم کی گوریلا حکمت عملی یا بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے، وہ نہیں کیا گیا۔
ہماری فوج کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ جنگ سے نہیں بلکہ ''مارو اور بھاگ جاؤ'' کی حکمت عملی، خودکش حملوں وغیرہ سے پہنچ رہا ہے، اس کا مقابلہ ایک بھرپور فوجی آپریشن ہی سے کیا جاسکتا ہے جس میں ہوائی فوج کا بھرپور استعمال شامل ہو۔ شہری علاقوں میں محلہ کمیٹیاں بناکر انھیں مسلح کیا جائے اور محلہ کمیٹیاں اپنے علاقوں میں ان وحشیوں کی آمد اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں تو ان کی دہشت گردی اپنی موت آپ مرسکتی ہے۔ کراچی میں متحدہ، اے این پی اور پیپلزپارٹی اگر سیاسی مفادات کی لڑائی کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوجائیں تو ان کی علاقائی تنظیمیں ان وحشیوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے پشاور میں ہونے والی بربریت کے خلاف 3 روزہ سوگ کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپر دیر کے بعد پشاور کے گرجا گھر کے قتل عام کو کیا ہم مذاکرات کا شاندار استقبال کہنے میں حق بجانب ہوں گے؟
22 ستمبر کو اتوار کے اس متبرک دن پشاور کے ایک گرجا گھر میں 500 سے زیادہ عیسائی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے، یہ ابھی عبادت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ گرجا میں دو شیطان گھس آئے، دونوں نے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو بارود سے اڑالیا۔ 6-6 کلو بارودی جیکٹ کے دھماکے اتنے شدید تھے کہ ان کی زد میں آکر 83 ہلاک اور 150 زخمی ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں 7 بچے اور 34 خواتین شامل تھیں، زخمی ہونے والوں میں 37 بچے بھی شامل تھے۔ ٹی وی اسکرین پر اس سفاکانہ قتل کے جو مناظر دکھائے جارہے تھے وہ اس قدر اندوہناک تھے، ایک قیامت کا منظر تھا یہ سارے وہ غریب تھے جو اپنے اپنے دکھ لے کر گرجا گھر آئے تھے ان دکھی لوگوں کو بارود سے اس طرح اڑایا گیا تھا کہ گرجا گھر ان کے کٹے پٹے اعضا سے اٹا پڑا تھا گرجا کی زمین مرنے والوں کے خون سے سرخ تھی۔
صدر مملکت، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اہل سیاست اور مذہبی قیادت کی طرف سے روایتی مذمتی بیانات آرہے تھے جن میں دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں وحشی درندے اور انسانیت کے دشمن قرار دیا جارہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرنے والے انسان ہو ہی نہیں سکتے۔ وزیر داخلہ بھی ان درندوں کو انسان جاننے سے انکاری تھے اور وزیراعظم بھی ان کی سفاکی کو غیر انسانی قرار دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ایک سانس میں ان وحشیوں کو انسان تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے یعنی انھیں حیوان کہہ رہے تھے اور دوسری سانس میں فرما رہے تھے کہ اس نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کا واحد حل مذاکرات ہیں۔
ٹی وی کے دانشور بھی مذاکرات کو دہشت گردی کے مسئلے کا واحد حل بتا رہے تھے اور یہ وارننگ بھی دے رہے تھے کہ اگر مذاکرات کا راستہ ترک کیا گیا تو دہشت گرد پورے ملک کو جہنم بنادیں گے۔ اینکروں اور مبصروں کی بڑی تعداد مذاکرات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ اور بے معنی خواہش قرار دے رہی تھی، اس حوالے سے عام آدمی کے جو تاثرات پیش کیے جارہے تھے اس میں مذاکرات کے ڈھونگ کی مذمت کی جارہی تھی اور اس حیرت کا اظہار کیا جارہا تھا کہ ان مٹھی بھر وحشیوں کو حکومتی پالیسیوں نے اس قدر دیدہ دلیر بنادیا ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو جوتوں تلے روند رہے تھے۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار اس قدر مثبت تھا کہ اس کی تعریف نہ کرنا بذات خود انتہا پسندی ہے۔
یہ دہشت ناک کھیل اس وقت کھیلا گیا جب ملک کا وزیراعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا جارہا تھا۔ مذاکرات کے شدت سے حامی وزیراعظم انتہائی مایوسی سے کہہ رہے تھے کہ ہماری امن کی نیک نیتی کی خواہش اور اے پی سی کے مذاکرات کی اجتماعی خواہش کو دہشت گردی کی لگاتار کارروائیوں نے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور اب ہمیں اے پی سی کی طرف سے مذاکرات کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ مذاکرات کے حامی عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ مذاکرات کس سے کریں گے اور مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی ہر کوشش کا جواب دہشت گردوں کی طرف سے سفاکانہ دہشت گردی سے دیا جاتا ہے۔ اے پی سی کے مذاکراتی فیصلے کا جواب دہشت گردوں نے فوج کے ایک میجر جنرل، لیفٹیننٹ کرنل، اور اہلکار کے سفاکانہ قتل سے دیا اور اب مذاکرات کی احمقانہ خواہش کا جواب 83 بے گناہ انسانوں کے قتل سے دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے فیصلے آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی ہوتے ہیں لیکن اول تو یہ کوئی ایسی جنگ نہیں جو دو فوجیوں کے درمیان لڑی جاتی ہے، یہ وحشی گروہوں اور نہتے بے گناہ انسانوں کے درمیان لڑی جانے والی ایسی جنگ ہے جس کا ایک فریق تاریخ انسانی کی منفرد سفاکی سے دوسرے فریق کو قتل کر رہا ہے اور دوسرا فریق سر جھکائے قتل ہورہا ہے۔ پہلا وحشی فریق کھلے عام ریاست پر قبضے سے کم کسی بات پر تیار نہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے، دوسرا فریق مذاکرات کی پیشکش کرکے اپنی امن پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اب بھی بعض غازی اور پراسرار بندے مذاکرات ہی کو اس بربریت کا واحد حل قرار دے رہے ہیں اور مذاکرات کی سیاست سے ہٹنے کو قوم و ملک کی تباہی قرار دے رہے ہیں۔
دنیا کی جنگی تاریخ میں چھوٹی چھوٹی فوجوں نے اپنے نظم و ضبط، اپنی منصوبہ بندی، اپنی موثر حکمت عملی کے ذریعے بڑی بڑی فوجوں کو شکست دی ہے۔ پاکستان کے مٹھی بھر دہشت گرد اس لیے اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہورہے ہیں کہ وہ واردات انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ کر رہے ہیں اور ہمارا ہر اقدام بے نظمی بلا منصوبہ بندی بغیر کسی جامع حکمت عملی کے افراتفری اور مایوسی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس ملک کی بقا و سلامتی کے سنگین مسئلے پر ہمارے سیاستدان شدید اختلاف رائے کا شکار ہیں۔ 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کے بعد بھی ہم انتہائی احمقانہ یا عیارانہ طریقے سے قوم کو مذاکرات کا سبق پڑھا رہے ہیں اور قوم ہماری بزدلی پر لعنت بھیج رہی ہے۔
جو لوگ مذاکرات کو دہشت گردی کا واحد حل کہہ رہے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم یہ جنگ ہار چکے ہیں۔ اس احمقانہ موقف کے نتیجے میں ایک طرف پوری قوم مایوسی کا شکار ہورہی ہے تو دوسری طرف دنیا کو یہ پیغام جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار چکا ہے، جو نہ صرف ایک بزدلانہ موقف ہے بلکہ قومی جرم اور قومی توہین ہے۔ پاکستان 57 مسلم ملکوں میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، اس کے پاس 5 لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ فوج اور اتنی ہی تعداد میں پیراملٹری فورسز ہے، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کیا اتنی بڑی ریاستی مشنری کے ساتھ کوئی ملک مٹھی بھر باغیوں سے شکست کھاسکتا ہے؟ہرگز نہیں! ان ناکامیوں کی ذمے داری ہماری حکومتوں کے سر آتی ہے جنھوں نے اس عفریت سے نمٹنے، اسے ختم کرنے کی کوئی ماہرانہ منصوبہ بندی کی، نہ موثر حکمت عملی بنائی، نہ عوام کو اس لڑائی میں شامل کیا۔ جنگلوں، پہاڑوں میں ان انسانیت کے باغیوں سے لڑنے کے لیے جس قسم کی گوریلا حکمت عملی یا بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے، وہ نہیں کیا گیا۔
ہماری فوج کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ جنگ سے نہیں بلکہ ''مارو اور بھاگ جاؤ'' کی حکمت عملی، خودکش حملوں وغیرہ سے پہنچ رہا ہے، اس کا مقابلہ ایک بھرپور فوجی آپریشن ہی سے کیا جاسکتا ہے جس میں ہوائی فوج کا بھرپور استعمال شامل ہو۔ شہری علاقوں میں محلہ کمیٹیاں بناکر انھیں مسلح کیا جائے اور محلہ کمیٹیاں اپنے علاقوں میں ان وحشیوں کی آمد اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں تو ان کی دہشت گردی اپنی موت آپ مرسکتی ہے۔ کراچی میں متحدہ، اے این پی اور پیپلزپارٹی اگر سیاسی مفادات کی لڑائی کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوجائیں تو ان کی علاقائی تنظیمیں ان وحشیوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے پشاور میں ہونے والی بربریت کے خلاف 3 روزہ سوگ کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپر دیر کے بعد پشاور کے گرجا گھر کے قتل عام کو کیا ہم مذاکرات کا شاندار استقبال کہنے میں حق بجانب ہوں گے؟