نواز شریف اور عمران خان …بہتر سیاسی کھلاڑی کون

پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے دور اقتدار میں سیاسی سطح پر انتہا پسندوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔


Latif Chaudhry September 27, 2013
[email protected]

QUETTA: پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ چند برس پہلے تک دائیں بازو کے سیاستدان اور قلم کار کھل کر کالعدم تحریک طالبان کی حمایت نہیں کرتے تھے ۔

وہ پہلے امریکا کو برا بھلا کہتے اور پھر یہ جواز پیش کرتے کہ ملک میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے ، وہ امریکی جنگ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ یہ لوگ طالبان سے مذاکرات کی بات بھی اگر مگر کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ دائیں بازو کے دباؤ کی وجہ سے ہی دہشت گردوںکو ظالمان، جنگجو یا عسکریت پسند جیسے قدرے نرم لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ طالبان یا عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ نیک محمد کے ساتھ مذاکرات اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین نے کیے تھے۔ اس عمل میںقومی سیاستدان شریک تھے اور نہ ہی وفاقی حکومت براہ راست ان کی مدد کر رہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں علاقائی صورت حال کے مطابق فوج کا ایک اعلیٰ افسر مذاکرات کر رہا تھا جو ناکامی سے دوچار ہوئے اوربعد میں نیک محمد ایک امریکی میزائل حملے میں مارا گیا۔

پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے دور اقتدار میں سیاسی سطح پر انتہا پسندوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ یہ مذاکرات سوات میں سرگرم عمل تحریک شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد اور خیبر پختونخوا میں برسراقتدار اے این پی کی حکومت کے درمیان ہوئے جسے وفاقی حکومت اور ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تائید حاصل تھی لیکن مالاکنڈ ڈویژن میں اصل طاقت مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کی تھی جو کالعدم تحریک طالبان کا سوات ونگ تھا۔بیت اﷲ محسود اس وقت کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ تھے اور صوفی محمد محض ایک کٹھ پتلی تھے۔ ان کے ساتھ جو امن معاہدہ ہوا' اس کے بعد طالبان منظر عام پر آگئے اور انھوں نے ان علاقوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا جن پر معاہدے سے پہلے بھی ان کا کنٹرول نہیں تھا۔ اس صورت حال کا نتیجہ فوجی آپریشن کی صورت میں نکلا۔ ہماری سیاسی قیادت یوں بے توقیر ہوئی کہ سوات امن معاہدے کی منظوری بھی پارلیمنٹ نے دی اور پھر اسی پارلیمنٹ نے یوں ٹرن لیتے ہوئے فوجی آپریشن کے فیصلے پر اپنی مہر لگائی۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد مذاکرات کی کہانی ایک نئے رنگ سے شروع ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نظریاتی طور پر طالبان سے مذاکرات کی حامی رہی ہے۔ جے یو آئی فضل الرحمٰن گروپ' جے یو آئی سمیع الحق گروپ اور جماعت اسلامی تو طالبان کی نظریاتی حلیف سمجھی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کو عموماً ماڈرن سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے تاہم وہ بھی طالبان سے مذاکرات کی حامی ہے۔ اس سیاسی پس منظر میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں طالبان یا انتہا پسندوں سے مذاکرات کی بات کر دی۔ اس کے بعد اگست میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی' جس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے متفقہ طور پر طالبان یا عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی حمایت کر دی۔ یوں پہلی بار وفاقی حکومت براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو گئی۔ یہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا نیا موڑ ہے۔ اب کالعدم تحریک طالبان محض ایک دہشت گرد گروپ نہیں بلکہ باقاعدہ ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آئی۔

مذاکرات کے اس کھیل میں وفاقی حکومت نے عوام یا پارلیمنٹ کے سامنے کوئی لائحہ عمل نہیں رکھا۔ قوم کو باضابطہ طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کس ایجنڈے کے تحت کرے گی۔ قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کالعدم تحریک طالبان کی کس حیثیت کو سامنے رکھ کر مذاکرات کرنا چاہتی ہے؟ کیا اسے ایک ایسا نظریاتی سیاسی گروپ تسلیم کر لیا گیا ہے جس کے تحفظات جائز ہیں؟ کیا اسے ملک میں سیاست کرنے کی اجازت ہو گی یا اسے ایک ناقابل شکست ہتھیار بند لشکر سمجھ کر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات ہوں گے؟ اگرہتھیار بند لشکر کے خوف سے مذاکرات ہوں گے تو پھر ریاست کے اقتدار اعلیٰ کی حیثیت کیا ہو گی؟ وفاقی حکومت نے ان میں کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ انتہا پسندوں یا عسکریت پسندوں سے مذاکرات ہوں گے۔

کالعدم تحریک طالبان نے اپنا ردعمل ظاہر کر کے قوم پر واضح کیا کہ وفاقی حکومت جن انتہا پسندوں یا عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہ رہی ہے' وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ یوں یہ ابہام ختم ہو گیا اور حکومت اور کالعدم تحریک طالبان آمنے سامنے آ گئے۔ کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات پر مثبت ردعمل ضرور دیا لیکن اس نے واضح کر دیا کہ وہ ہتھیار ڈالے گی نہ اپنے نظریات و خیالات سے پیچھے ہٹے گی۔ اس نے جنگ بند کرنے کا اشارہ بھی نہیں دیا بلکہ حکومت سے کہا کہ وہ جنگ بند کرے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کے بعد طالبان نے مہلک حملے کیے' ان میں سب سے بڑا حملہ اپر دیر میں کیا گیا جس میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی' لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور ایک لانس نائیک شہید ہوئے۔

اس سانحے کے بعد پشاور میں مسیحی برادری کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس حملے سے کالعدم تحریک طالبان نے برأ ت کا اظہار کیا ہے لیکن جس گروپ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے' وہ کہیں نہ کہیں تحریک طالبان سے ضرور منسلک ہے۔ تحریک طالبان نے اس واقعے سے لاتعلقی کے اعلان میں خاصی تاخیر کی ہے۔ ممکن ہے کہ طالبان کے ہمدردوں نے بیک چینل اپنا کردار ادا کیا ہو اور اسے اس پر تیار کیا ہو۔ اس سانحہ کے بعد اب پشاور میں ہی دہشت گردی کا ایک اور سانحہ رونما ہوا جس میں سرکاری ملازموں کی بس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس المناک اور غمزدہ صورتحال میں بھی پاکستان کی سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ حیران کن طور پر ان میں سب سے آگے عمران خان نکلے ہیں۔

عمران خان اور ان کی جماعت کو عوامی حلقوںمیں جدیدیت کا حامی تصور کیا جاتا ہے لیکن خان صاحب نے طالبان کی وکالت میں مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے طالبان کا باقاعدہ دفتر کھولنے کا بیان جاری کر کے اپنی جماعت کو مشکل میں ڈال دیا۔ تحریک انصاف کے اسد عمر نے وضاحت کی ہے کہ یہ بیان عمران خان کا ذاتی ہے، پارٹی کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ میرے خیال میں خاں صاحب پاکستان کی سیاست میں سرگرم طالبان کی ہمدرد قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو گئے ہیں۔ طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کو اس وقت عمران خان یا میاں نواز شریف جیسی سیاسی شخصیات کی اشدضرورت ہے۔ جے یو آئی یا جماعت اسلامی ان کے مقاصد پورے نہیں کر سکتیں کیونکہ ان جماعتوں کو عوام میں وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل نہیں ہے۔انھیں ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام میں اتنے مقبول ہوں کہ برسراقتدار آسکیں۔ پیپلز پارٹی طالبان کو دشمن ڈیکلیر کرچکی ہے لہذا انھیں مسلم لیگ ن سے خاصی توقعات وابستہ ہیں۔

عمران خان بھی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کریں تو صورت حال ان کے حق میں ہو سکتی ہے۔ عمران خان طالبان کے ایشو پر بھی غلط شاٹ کھیل گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ یہ شاٹ ان کی سیاسی اننگز کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ پہلے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں کھیلے اور اب دائیں بازو کی پرو طالبان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انھیں شاید احساس نہیں ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہو گئے اور کوئی کامیابی بھی مل گئی تو اس کا کریڈٹ انھیں نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو ملے گا، بالکل ایسے ہی جیسے ججز بحالی تحریک کا سارا کریڈٹ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کو ملا حالانکہ ججز کو بحال کرانے میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔وزیراعظم نواز شریف زیادہ بہتر سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں، انھوں نے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرکے دائیں بازو کو راضی کیا۔طالبان نے اپنے سخت رویے میں تبدیلی نہیں کی اور اب انھوں نے وال سڑیٹ جرنل کو انٹرویو میں واضح کردیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات اسی وقت ہوں گے جب وہ ہتھیار ڈالیں گے اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے۔اس طرح انھوں نے نہلے پر دھلا مار لبرل طبقے کو بھی خوش کردیا لیکن عمران خان وقتی طور پر سیاسی خسارے میں چلے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں