دہشت گردی اور 11 اگست کی تقریر
سندھ مذہبی اعتبار سے انتہائی پرامن صوبہ ہے مگر اس صوبے میں بھی ہندوئوں کے مندر محفوظ نہیں رہ سکے۔
پشاور میں اتوار کو چرچ میں خصوصی عبادت کے موقعے پر خودکش حملہ ملک کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ اگرچہ اس دہشت گردی کی پورے ملک میںمذمت ہوئی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے لندن میں اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے پی سی میں موجودہ حکومت کی جو سوچ تھی اب اس پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ چرچ پر حملے عالم اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ عمران خان کا فرمان تھا کہ طالبان سے 9 سال تک بھی لڑتے رہے تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ طالبان سے بات چیت کرنے اور نہ کرنے کے معاملے تک محدود ہوا مگر اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کے اسباب انتہائی گہرے اور معاشرے کی ساخت میں پیوست ہیں۔ پاکستان میں ریاست مذہبی بنیادوں پر اپنے شہریوں پر امتیاز کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دور سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک یہ امتیاز ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر کیا جاتا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ امتیازی سلوک نچلی سطح تک پہنچ گیا اور نہ صرف دوسرے مذاہب کے پیروکار بلکہ مسلمانوں کے اقلیتی فرقے ایک مشکل صورتحال کا شکار ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور کے خاتمے کے بعد سے آج تک اقلیتی فرقے اور دوسرے مذاہب کے پیروکار مشکلات کا شکار ہیں۔ جب افغانستان میں نور محمد ترکئی کی پہلی عوامی حکومت قائم ہوئی تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک جامع پروجیکٹ شروع کیا، اس پروجیکٹ میں پاکستان کا بنیادی کردار تھا۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کا پہلے مشترکہ آپریشن شروع ہوا، اس آپریشن میں سلفی فرقے کو بالادستی حاصل تھی، سعودی عرب اس آپریشن کا سب سے بڑا حامی تھا، خلیجی ممالک اور کویت نے اس آپریشن کے لیے اپنے خزانے کے دروازے کھول دیے۔ یورپ، امریکا کی پشت پناہی کرنے لگا۔ امریکی سی آئی اے کے اس پروجیکٹ میں ایک مخصوص فرقے کی بالادستی نمایاں تھی یوں اس افغان جنگ میں پوری دنیا سے سلفی فرقے سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں کو جمع کیا گیا، جب افغان جنگ عروج پر تھی تو مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے افغانستان سے ایک اقلیتی شیعہ فرقے کے جید علماء کی پشاور میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب مجاہدین نے اقتدار سنبھالا تو افغانستان میں اقلیتی فرقے شدید مشکلات کا شکارہوئے۔
یہ ہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں ایک بڑے اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ڈاکٹروں، اساتذہ، سرکاری افسروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوچکی تھی۔ طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں کابل کے تخت پر قبضہ کیا تو پھر اقلیتیں اور خواتین دوسرے درجے کی شہری قرار پائیں۔ ایران سے متصل شہر ہرات میں طالبان کے قبضے کے بعد شیعہ مسلک کے افراد کے لوگوں کو قتل کیا گیا اور بامیان میں بدھ کے مجسموں کو نشانہ بنایا گیا، جب اتحادی فوجوں نے کابل پر ملا عمر کی حکومت ختم کی، افغانستان سے عرب، ازبک اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں کو شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں میسر آئیں، پاکستان میں خودکش حملوں کا دور شروع ہوا، ان حملوں کا پہلا نشانہ بننے والوں میں مری کا ایک چرچ اور کوئٹہ میں امام بارگاہ تھی، بعد ازاں بری، بحری اور فضائیہ کی تنصیبات پر حملے ہوئے۔ جی ایچ کیو پر قبضے کی کوشش ہوئی تو دوسری طرف امام بارگاہوں، محرم کے جلوسوں، قادیانیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔
سندھ مذہبی اعتبار سے انتہائی پرامن صوبہ ہے مگر اس صوبے میں بھی ہندوئوں کے مندر محفوظ نہیں رہ سکے۔ اس مجموعی صورتحال میں مخصوص مفادات کے حامل گروہ نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی کوشش کی، اس طرح گوجرہ اور لاہورمیں پرتشدد ہجوم نے عیسائیوں کی بستیوں کو تباہ کیا۔ معاملہ صرف ہجوم کی تشدد آمیز کارروائیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دوسری ایجنسیوں نے بھی اقلیتوں کو بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے، اپنی پسندکی شادیوں کے واقعات میں تیزی آئی۔ ہندو برادری کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ صرف ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے اور مسلمان لڑکوں سے شادی کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں مگر ہندو لڑکوں کے مسلمان ہونے اور کسی مسلمان لڑکی سے شادی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ان قائدین کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہندو لڑکی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی سے انکار کردے تو وہ اپنی برادری کے پاس اس خوف سے نہیں جاسکتی کہ انتہاپسند اس سے اور اس کے لواحقین سے زندگی کا حق چھین لیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک تو 50 کی دہائی میں قرارداد مقاصد کی منظوری سے شروع ہوا۔ قرارداد مقاصد کی روشنی میں صرف مسلمان ہی ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیتوں کے لیے اعلیٰ سطح پر فائز ہونے کے تمام راستے بند ہوگئے۔ جب جنرل ضیا ء الحق نے متنازعہ اسلامی قوانین نافذ کیے تو معاشرے کی ساخت میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ اب اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح پر تیار ہونے والے نصاب میں فرقہ وارانہ امتیازی مواد شامل کیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ اسلامیات کے شعبے میں جاکر مسلمانوں نے مختلف فرقوں میں بٹنے کا احساس پیدا ہوا۔ اس طرح بچوں میں فرقہ وارانہ جذبات پیدا ہونے لگے جس کا لازمی نتیجہ نفرت کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ نفرت اتنی گہری ہوئی کہ میڈیا کے ذمے داروں نے اس نفرت کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ لاہور کے اعلیٰ معیار کے ایک اسکول میں مختلف مذاہب کے مطالبے کے لیے ایک نیا کورس شروع ہوا تو اس کورس کے خلاف نفرت آمیز مہم چلائی گئی اور پنجاب کی حکومت نے اس کورس کی تدریس پر پابندی لگادی اور سارا مواد ضبط کرلیا، طلبا کو مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ختم کردیا گیا۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پشاور میں اب تک 200 سے زیادہ افراد خودکش حملے کا شکار ہوچکے ہیں مگر یہ معاملہ محض طالبان سے مذاکرات یا آپریشن سے حل نہیں ہوگا بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے انتہاپسندی کو تقویت دینے کے لیے جو پالیسی اختیار کی گئی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو سنجیدہ ہونا ہوگا اور محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ریاستی اداروں کی اس تقریر کی بنیاد پر تنظیم نو کرنی ہوگی، ملک کے آئین میں تمام شہریوں سے یکساں سلوک کے لیے ترمیم ضروری ہوگی پھر ہر شہری دہشت گردی سے محفوظ ہوگا اور پاکستان حقیقی معنوں میں جمہوری ریاست بن سکے گا۔