اصل چہرہ
حکومت اور طالبان دونوں سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کریں۔
لاہور:
پشاور میں مسیحی اقلیت کی عبادت گاہ چرچ میں ہونیوالے دو خودکش حملوں میں 80 سے زائد افراد کی ہلاکت نے نہ صرف پورے ملک کو افسردہ اور سوگوار کردیا بلکہ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملکی قیادت نے قومی جذبے کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکرات، دہشتگردی کے خاتمے اور ملک میں بحالی امن کے حوالے سے جس مثبت سوچ کے ساتھ قدم اٹھایا تھا اب اسے آگے بڑھانا مشکل ہوتا نظر آرہا ہے، جیساکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اے پی سی میں جو حکومت کی سوچ تھی اب اس پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور حکومتی کوششوں کے باوجود طالبان سے بات چیت کے عمل میں پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔
ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم وطن واپسی کے بعد اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے غور وفکر کیا جائے گا اور اس ضمن میں حکومت تمام سیاسی قائدین سے مشاورت کریگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بالخصوص میاں نوازشریف جو انتخابات سے قبل طالبان سے مذاکرات در مذاکرات کے ذریعے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے خاصے سرگرم اور نہایت سنجیدہ نظر آتے تھے اور انھیں کامل یقین تھا کہ طالبان کے ساتھ ایک عشرے پر محیط ''جنگ'' کے باوجود امن قائم نہیں ہوسکا لیکن وہ برسراقتدار آکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک سے دہشتگردی ختم اور امن بحال کرنے میں کامیاب ہوجائینگے اس حوالے سے وہ بلند بانگ دعوے بھی کرتے رہے ہیں لیکن اپر دیر میں پاکستان آرمی کے دو انتہائی سینئر افسران کی طالبان کے ہاتھوں شہادت اور اب پشاور میں چرچ پر ہونیوالے خودکش حملوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی سے خاصے مایوس، ناامید اور دلبرداشتہ نظر آرہے ہیں۔
انھوں نے چرچ پر حملوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بیگناہ افراد کو مار رہے ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ ایک ایسے موقعے پر جب وزیراعظم میاں نواز شریف امریکی دورے پر ہیں جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے انھیں خطاب بھی کرنا ہے جس میں امکانی طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور اس کے منفی اثرات اور امریکی ڈرون حملوں کے خلاف قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتے ہوئے بجا طور پر تشویش کا اظہار بھی کرینگے، تو چرچ پر حملوں کے باعث عالمی سطح پر ایک منفی پیغام جائے گا بلکہ حکومت کی پوزیشن بھی خاصی کمزور ہوجائے گی۔ جیساکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب نے کہا کہ حکومت کو کمزور پچ پر نہیں کھیلنا چاہیے۔ مذاکرات کرنے کی ایک حد ہوتی ہے، جو یقینا پاکستان کا نقصان ہے۔ اس حوالے سے چرچ پر حملہ بلاشبہ پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔
اگرچہ پشاور چرچ پر خودکش حملوں کی ذمے داری جندل الحفصہ نامی ایک طالبان تنظیم نے قبول کرلی ہے تاہم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چرچ پر حملہ جنداﷲ نامی تنظیم نے کیا ہے جس کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس وضاحت کے باوجود مایوس کن صورتحال میں کسی نمایاں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اپر دیر سانحے اور پشاور چرچ حملے نے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو نہ صرف سخت مایوس و ناامید کیا بلکہ اہل وطن میں بھی طالبان کی تسلسل کے ساتھ جاری پرتشدد کارروائیوں میں ہونیوالے جانی نقصان پر سخت اشتعال و اضطراب پایا جاتا ہے، جیساکہ چرچ حملے کے بعد مسیحی برادری نے پورے ملک میں سخت احتجاج کیا اور ملک کے سیاسی رہنماؤں، سماجی تنظیموں اور عوامی حلقوں نے بھی مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے ثابت کیا کہ پورا ملک شدت پسندوںکی جنونیت کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر دہشتگردی، بربریت، سفاکی اور آگ و خون کا جو کھیل انتہا پسند عناصر نے شروع کر رکھا ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں، اسکولوں، بازاروں اور حساس قومی تنصیبات کو جس طرح کھلے عام نشانہ بنا رہے ہیں وہ سراسر پاکستان دشمنی کے مترادف ہے اور کوئی محب وطن ایسے گھناؤنے اقدام کی حمایت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کے ایک دو نہیں بلکہ 50 سے زائد گروپ ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں جو ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے اور اپنی علاقائی حاکمیت و اہمیت منوانے کے لیے آپس میں بھی برسر پیکار رہتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں ہونیوالے خودکش حملوں و بم دھماکوں کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ، امن پسند اور پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کس کس گروپ سے مذاکرات کریگی اور کس کس گروپ کی بلیک میلنگ کا شکار ہوگی۔ مذاکرات کے مخالف اور حکومت سے ناراض جنونی و مہم جوئی پر آمادہ گروپ مذاکرات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ یہی وجہ ہے کہ اے پی سی کے طالبان سے مذاکرات سے متعلق فیصلے پر حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے بعض حلقوں نے شکوک و شبہات اور اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کیا تھا، جس پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں سخت برہم ہوئے اور فرمایا کہ ان کے علم میں ایسی باتیں آئی ہیں اور شواہد بھی ملے ہیں جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ بعض بااثر حلقے اور پس پردہ قوتیں اے پی سی کے فیصلوں کے تحت پاکستانی طالبان سے مذاکرات و بحالی امن کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت اور طالبان دونوں سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کریں۔ مذاکرات کے حوالے سے حکومتی کوششیں کس قدر آگے بڑھیں، اس کا تو ہمیں علم نہیں البتہ طالبان نے اپنی ''کوششوں'' کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اعلیٰ عسکری افسران اور اقلیتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جس سے تنقید نگاروں کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے تحفظات و خدشات درست ثابت ہورہے ہیں، نتیجتاً وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک اے پی سی کے فیصلوں پر ''یوٹرن'' لینے کا عندیہ دے رہے ہیں جو حکومت کی مایوسی، بددلی اور بے بسی کا واضح اظہار ہے۔ راقم نے بھی اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ وزیر داخلہ کی تشویش اپنی جگہ لیکن تنقید نگاروں کی رائے میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات و معاہدوں کا کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں نکلا۔ شدت پسند عناصر پاکستان کو کمزور کرنا اور عالمی سطح پر اس کا امیج بگاڑنا چاہتے ہیں، وہ مسلم و غیر مسلم ہر دو فریق کو نشانہ بناکر اسلامی تعلیمات کی روح کو زخمی کر رہے ہیں۔ چرچ پر حملے کے بعد ان کا ''اصل چہرہ'' سامنے آچکا ہے۔ ان حالات میں ارباب حکومت کو ہر قدم نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھانا چاہیے۔
پشاور میں مسیحی اقلیت کی عبادت گاہ چرچ میں ہونیوالے دو خودکش حملوں میں 80 سے زائد افراد کی ہلاکت نے نہ صرف پورے ملک کو افسردہ اور سوگوار کردیا بلکہ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملکی قیادت نے قومی جذبے کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکرات، دہشتگردی کے خاتمے اور ملک میں بحالی امن کے حوالے سے جس مثبت سوچ کے ساتھ قدم اٹھایا تھا اب اسے آگے بڑھانا مشکل ہوتا نظر آرہا ہے، جیساکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اے پی سی میں جو حکومت کی سوچ تھی اب اس پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور حکومتی کوششوں کے باوجود طالبان سے بات چیت کے عمل میں پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔
ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم وطن واپسی کے بعد اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے غور وفکر کیا جائے گا اور اس ضمن میں حکومت تمام سیاسی قائدین سے مشاورت کریگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بالخصوص میاں نوازشریف جو انتخابات سے قبل طالبان سے مذاکرات در مذاکرات کے ذریعے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے خاصے سرگرم اور نہایت سنجیدہ نظر آتے تھے اور انھیں کامل یقین تھا کہ طالبان کے ساتھ ایک عشرے پر محیط ''جنگ'' کے باوجود امن قائم نہیں ہوسکا لیکن وہ برسراقتدار آکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک سے دہشتگردی ختم اور امن بحال کرنے میں کامیاب ہوجائینگے اس حوالے سے وہ بلند بانگ دعوے بھی کرتے رہے ہیں لیکن اپر دیر میں پاکستان آرمی کے دو انتہائی سینئر افسران کی طالبان کے ہاتھوں شہادت اور اب پشاور میں چرچ پر ہونیوالے خودکش حملوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی سے خاصے مایوس، ناامید اور دلبرداشتہ نظر آرہے ہیں۔
انھوں نے چرچ پر حملوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بیگناہ افراد کو مار رہے ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ ایک ایسے موقعے پر جب وزیراعظم میاں نواز شریف امریکی دورے پر ہیں جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے انھیں خطاب بھی کرنا ہے جس میں امکانی طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور اس کے منفی اثرات اور امریکی ڈرون حملوں کے خلاف قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتے ہوئے بجا طور پر تشویش کا اظہار بھی کرینگے، تو چرچ پر حملوں کے باعث عالمی سطح پر ایک منفی پیغام جائے گا بلکہ حکومت کی پوزیشن بھی خاصی کمزور ہوجائے گی۔ جیساکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب نے کہا کہ حکومت کو کمزور پچ پر نہیں کھیلنا چاہیے۔ مذاکرات کرنے کی ایک حد ہوتی ہے، جو یقینا پاکستان کا نقصان ہے۔ اس حوالے سے چرچ پر حملہ بلاشبہ پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔
اگرچہ پشاور چرچ پر خودکش حملوں کی ذمے داری جندل الحفصہ نامی ایک طالبان تنظیم نے قبول کرلی ہے تاہم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چرچ پر حملہ جنداﷲ نامی تنظیم نے کیا ہے جس کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس وضاحت کے باوجود مایوس کن صورتحال میں کسی نمایاں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اپر دیر سانحے اور پشاور چرچ حملے نے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو نہ صرف سخت مایوس و ناامید کیا بلکہ اہل وطن میں بھی طالبان کی تسلسل کے ساتھ جاری پرتشدد کارروائیوں میں ہونیوالے جانی نقصان پر سخت اشتعال و اضطراب پایا جاتا ہے، جیساکہ چرچ حملے کے بعد مسیحی برادری نے پورے ملک میں سخت احتجاج کیا اور ملک کے سیاسی رہنماؤں، سماجی تنظیموں اور عوامی حلقوں نے بھی مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے ثابت کیا کہ پورا ملک شدت پسندوںکی جنونیت کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر دہشتگردی، بربریت، سفاکی اور آگ و خون کا جو کھیل انتہا پسند عناصر نے شروع کر رکھا ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں، اسکولوں، بازاروں اور حساس قومی تنصیبات کو جس طرح کھلے عام نشانہ بنا رہے ہیں وہ سراسر پاکستان دشمنی کے مترادف ہے اور کوئی محب وطن ایسے گھناؤنے اقدام کی حمایت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کے ایک دو نہیں بلکہ 50 سے زائد گروپ ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں جو ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے اور اپنی علاقائی حاکمیت و اہمیت منوانے کے لیے آپس میں بھی برسر پیکار رہتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں ہونیوالے خودکش حملوں و بم دھماکوں کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ، امن پسند اور پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کس کس گروپ سے مذاکرات کریگی اور کس کس گروپ کی بلیک میلنگ کا شکار ہوگی۔ مذاکرات کے مخالف اور حکومت سے ناراض جنونی و مہم جوئی پر آمادہ گروپ مذاکرات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ یہی وجہ ہے کہ اے پی سی کے طالبان سے مذاکرات سے متعلق فیصلے پر حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے بعض حلقوں نے شکوک و شبہات اور اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کیا تھا، جس پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں سخت برہم ہوئے اور فرمایا کہ ان کے علم میں ایسی باتیں آئی ہیں اور شواہد بھی ملے ہیں جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ بعض بااثر حلقے اور پس پردہ قوتیں اے پی سی کے فیصلوں کے تحت پاکستانی طالبان سے مذاکرات و بحالی امن کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت اور طالبان دونوں سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کریں۔ مذاکرات کے حوالے سے حکومتی کوششیں کس قدر آگے بڑھیں، اس کا تو ہمیں علم نہیں البتہ طالبان نے اپنی ''کوششوں'' کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اعلیٰ عسکری افسران اور اقلیتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جس سے تنقید نگاروں کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے تحفظات و خدشات درست ثابت ہورہے ہیں، نتیجتاً وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک اے پی سی کے فیصلوں پر ''یوٹرن'' لینے کا عندیہ دے رہے ہیں جو حکومت کی مایوسی، بددلی اور بے بسی کا واضح اظہار ہے۔ راقم نے بھی اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ وزیر داخلہ کی تشویش اپنی جگہ لیکن تنقید نگاروں کی رائے میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات و معاہدوں کا کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں نکلا۔ شدت پسند عناصر پاکستان کو کمزور کرنا اور عالمی سطح پر اس کا امیج بگاڑنا چاہتے ہیں، وہ مسلم و غیر مسلم ہر دو فریق کو نشانہ بناکر اسلامی تعلیمات کی روح کو زخمی کر رہے ہیں۔ چرچ پر حملے کے بعد ان کا ''اصل چہرہ'' سامنے آچکا ہے۔ ان حالات میں ارباب حکومت کو ہر قدم نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھانا چاہیے۔