لَٹ خانہ

تو یہ انقلابی کوئٹہ کی بلوچی اسٹریٹ میں ایک کمرے کے ہٹ نما مکان میں منتقل ہوتے ہیں۔


عابد میر September 27, 2013
[email protected]

یہ بات ہے سن اُنیس سو پچاس کی۔جی، محض محاورتاََ نہیں بلکہ حقیقتاََ دوچاربرس کی بات نہیں، نصف صدی کا قصہ ہے ۔کتابوں میں لکھا ہے کہ سائنسی ایجادات والی بیسویں کی وسط کی یہ دَہائی اپنے جلو میں انقلابات کی گہماگہمی لیے ہوئے تھی۔نیلا، پیلا ، زرد،سرد ہر قسم کا انقلاب،لیکن سرخ انقلاب کی سرخی ان سب پہ غالب تھی۔ اچھا،ذرا تصور کیجیے اُس زمانے کی نائب تحصیلداری کا رعب و دبدبہ کیسا ہو گا؟ایسے میں بلوچستان سے چند نوجوان نائب تحصیلدار کوئٹہ میں جمع ہوتے ہیں ، اپنے خطے کی محرومیوں اور محکومیوں کو دیکھتے ہوئے علمی اور فکری جدوجہد کے لیے کمرکس لیتے ہیں، اور پرتعیش سرکاری نوکریوں کو تج دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کوکیا کہیں گے آپ؟...دیوانہ، احمق، پاگل، سودائی؟...لیکن نہیں، ذرا رکیے! یہ تو نظریات کی بے توقیری والے ہمارے عہد تک آتے آتے جذبات اور الفاظ بھی بے توقیر ہوئے ،وگرنہ انقلاب کے زمانے میں یہ انقلابی کام کہلاتے تھا اور ایسے کام کرنے والے انقلابی!

تو یہ انقلابی کوئٹہ کی بلوچی اسٹریٹ میں ایک کمرے کے ہٹ نما مکان میں منتقل ہوتے ہیں۔ نوکریاں چھوڑ چکے، انقلاب کا محض آسرا ہے، مگر پاپی پیٹ کو تو پالناہے، سو کیا کیا جائے؟ یہ شہر میں کتابوں کی ایک دکان کھول لیتے ہیں۔ بحث ہوتی ہے کہ نام کیا رکھا جائے؟کسی نے کہا، ''فی الحال کوئی بھی نام رکھ دو۔'' تو طے ہوا کیوں نہ فی الحال اس کا نام 'فی الحال' ہی رکھا جائے۔ تو یوں نام طے پایا؛'فی الحال اسٹیشنری مارٹ'۔ماضی قریب کے بابوؤں اور حال کے فارغ البالوں کا یہ حال دیکھ کر اردگرد کے لوگوں کا حیران ہونا فطری تھا۔ یہ عجیب لوگ تھے، جی چاہتا تو کام پہ نکلتے، جی چاہتا تو کوئی کتاب لے کے کونے میں پڑے رہتے،پڑھتے رہتے، بحثیں کرتے، دلیلیں دیتے ، اپنی فکری راہیں سہل کرتے رہتے...ان کے انھی معمولات پہ کسی نے کہا ،''یہ تو لٹ لوگ ہیں''، پشتو کے اس لفظ (لٹ) کا مطلب ہے ؛فارغ البال،بے فکر آدمی۔ اور یوں ان کے ٹھکانے کا نام پڑا؛''لٹ خانہ!''

یہ 'لٹ خانہ' آگے چل کر بلوچستان میں روشن فکری ، ترقی پسندی ، علمی ،سیاسی اور فکری سرگرمیوں کا محور ثابت ہوا۔ اور ذرا سن لیجیے، جنھیں 'لٹ' (بے فکر) کہا گیا کیسے پُرفکر لوگ تھے۔ اس کے بانیوں میں سے تھے ؛سائیں کمال خان شیرانی، جو آگے چل کر بلوچستان کے پشتون علاقوں میں روشن فکری کا ایسا مینار ثابت ہوئے کہ جس سے اس خطے کا کونہ کونہ آج بھی جگمگا رہا ہے۔ ان کے یارِ غارعبداللہ جان جمالدینی ،بلوچی اور اردو کے مایہ ناز ادیب۔ بلوچی اکیڈمی کے بنیاد گزاروں میں سے رہے۔ بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ شعبہ بلوچی کی بنیاد رکھی۔ سیکڑوں روشن خیال شاگرد پیدا کیے۔ علم و دانش کے رسیا ڈاکٹر خدائے داد۔ میر بہادر خان بنگل زئی ، جو بعدازاں بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔

لٹ خانہ، بلوچستان کی سرکردہ علمی ،ادبی اور سیاسی شخصیات کا مرکز رہا۔ میر غوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، خیر بخش مری،گل خان نصیر، بابو شورش، انجم قزلباش،ماہرالقادری اور فیض و جالب سے لے کر ترقی پسند مصنفین والے سجاد ظہیرتک یہاں مہمان رہے۔ فی الحال اسٹیشنری مارٹ انقلابی ادب کا سرچشمہ بنی۔ یہاں سے سرخ پوش فکر کا وہ چشمہ پھوٹا ،جس نے بلوچستان کے بیابانوں اور میدانوں سے لے کر اس کے پہاڑوں تک کو سیراب کیا۔ محض دو ڈھائی برس قائم رہنے والے اس مورچے نے اس خطے پر دیرپا اثرات چھوڑے۔

لٹ خانہ کے قیام ،انتظام اور اس کے کام کی ساری کہانی اس کے بنیاد گزاروں میں سے ایک ،عبداللہ جان جمالدینی نے اپنی زبانی دہرائی ہے۔ یہ کہانی سن اُنیس سو پچانوے سے دو ہزار دو کے دوران ماہنامہ نوکیں دور اور پھر ماہتاک سنگت کوئٹہ میں قسط وار چھپتی رہی ۔ سن دو ہزارتین میں اس کی کتابی صورت میں اشاعت ہوئی۔ اب دس برس بعد حال ہی میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا ہے۔ اس ایڈیشن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے دانشورانہ تھنک ٹینک سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے ڈھائی سو کے قریب صفحات کی اس کتاب کو 'نہ نفع نہ نقصان' کی بنیاد پہ شایع کرتے ہوئے اس کی قیمت محض سو روپے رکھی ہے۔

کم از کم بلوچستان کی حد تک اشاعتی میدان میں یہ ایک نیا تجربہ ہے، جس کے نتائج بہرحال اہم ہوں گے۔

کتاب کے اس دوسرے ایڈیشن میں ڈاکٹر شاہ محمد مری دو صفحات کے پیش لفظ میں اس کا مختصر مگر جامع تعارف کروا دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں''یہ بلوچستان میں چند روشن فکر اذہان کے تجربات پر مشتمل کچھ برسوں کی کہانی ہے ۔ایسے اذہان جنہوںنے اچھی اچھی نوکریاں چھوڑدیں۔ اور سماجی خدمت، ادب، صحافت اور سیاست ہرجگہ جھپٹامارناشروع کردیا ہے ۔ نت نئے تجربات سے بھر پورجوانی کی ملاقات کے نتیجے میں ،رواں کارواں میں کئی نئی چیزوں کا اضافہ ہوا۔ تحریر،کتاب تحقیق کی نئی باتیں عمومی فضا کا حصہ بنیں۔یہ نوجوان لٹ خانہ کے نام کا ایک کمیون سا بنا کر اُس میں رہتے رہے ۔ نیم انقلابی رومانٹک نوجوان !لٹ خانہ بلوچستان میں ترقی پسندی اور بالخصوص ترقی پسند ادب کی تاریخ کے ایک ٹکڑے کو بیان کرتا ہے ۔ اس میںصرف ایک زبان یا ایک قبیلے کی نہیں بلکہ من جملہ بلوچستان کی کہانی موجود ہے ۔ نیز اس کتاب میں بلوچستان کی اُس زمانے کی بہت ساری شخصیات کا تذکرہ ہے جن کے قول و فعل نے خطے میں اچھا یا برا، اثر ضرور ڈالا۔لٹ خانہ ایک سچے آدمی نے لکھی ہے اور اُس وقت لکھی جب اُس کے سچ بولنے والے سارے کامریڈ زندہ تھے ۔''

'لٹ خانہ' کی لگ بھگ پوری نسل آج معدوم ہو چکی، سوائے سب کے 'ماما' کہلانے والے عبداللہ جان جمالدینی کے، جو تین برسوں سے نوے کا ہندسہ عبور کر چکے۔ اور فالج کے حملے کے باعث گزشتہ پندرہ ،بیس برس سے صاحب ِ فراش ہیں اور اتنے ہی عرصے سے ان کے چاہنے والے، بلوچستان کے سرکردہ اہلِ قلم بلا ناغہ ہر اتوار ایک، ڈیڑھ گھنٹے کے لیے ان کے ہاں جمع ہوتے ہیں۔ ان کی دل جوئی کے لیے ہلکی پھلکی گفت گو ہوتی ہے، جس میں دنیا بھر کے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ اس اکٹھ کو'بلوچستان سنڈے پارٹی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔پاکستان کے نامور اہلِ قلم اور اہلِ دل اس نشست میں شرکت سے سرفراز ہو چکے ہیں۔

پچھلی ایک دَہائی سے ، جب سے بلوچستان بم اور باردو کے حوالے ہوا ہے، علم ،عقل، منطق، بحث، مباحثہ، دلیل، سب ناپید ہو چکے ہیں۔گو کہ کچھ احباب نے میدانِ جنگ میں بھی علم کا عَلم اٹھایا ہوا ہے، لیکن بارود کے دھماکوں میں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی بازگشت بن کے رہ گئی ہے۔ بم ، بارود اور بندوق کی وہ حکومت قائم ہوئی ہے کہ لوگ منہ میں بھی زبان کی جگہ بارود لیے نظر آتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مباحثہ بھی جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔ جہاں ایک کی فتح اور ایک کی ہار لازمی ہوتی ہے، اور جہاں کوئی بھی فریق ہار ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔

علم ،عقل، منطق، بحث، مباحثہ، دلیل، جب ناپید ہوجائیں تو معاشرہ اس جوہڑ کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جہاں ایک ہی جگہ پانی جمع ہوتے ہوتے بالآخر بدبو کرنے لگتا ہے۔ یہ سبھی عناصر معاشرے کی اجتماعی صف بندی اور سمت بندی کے لیے معاون ہوتے ہیں۔ ان سے فرار اختیار کرنے والامعاشرہ مجموعی طور پربے سمت ہوجاتا ہے۔ درست فکری سمت کے تعین کے لیے ان سب عناصر کی بازیافت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے بلوچستان کو 'لٹوں' کی ضرورت ہے، 'لٹ خانے' کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |