کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 1948 سے ہوا تھا جو کہ تاحال جاری و ساری ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے شام جانے والے کیمیائی ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والی ٹیم کو مشورہ ہے کہ وہ شام کے بجائے مقبوضہ فلسطین کی طرف جائے اور مشاہدہ کرے کہ اسرائیل جو کہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے لیے خطرہ ہے بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، کے پاس کس قدر کیمیائی ہتھیاروں اور WMD کا ذخیرہ ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو ایسے درجنوں شواہد مل جائیں گے کہ جس سے ثابت ہوگا کہ اسرائیل نے کس طرح اور کب کب فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف کیمیائی، نیوکلیئر اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 1948 سے ہوا تھا جو کہ تاحال جاری و ساری ہے۔ صہیونی درندگی کا آغاز صہیونی ریاست کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو کھلی آزادی دینے اور فوج میں تشدد اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے اصولوں کو مرتب کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو صہیونیوں نے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا اور آج تک فلسطینی عوام انھی دہشت گردانہ رویوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر استعمال کیا جانے والا پہلا مہلک ہتھیار بیالوجیکل ہتھیار تھا، جسے بعد میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے بھی ثابت کردیا تھا۔
1948 میں صہیونی گینگ نے فلسطینی شہر کو محاصرے میں لے لیا اور یہ محاصرہ طویل مدت تک جاری رہا، اس شہر کی طرف آنیوالی پانی سپلائی کی لائن نزدیک ہی ایک گائوں کابری سے آتی تھی، صہیونی دہشت گردوں نے اس پانی کی لائن میں ٹائیفائڈ کو شامل کردیا جس کے نتیجے میں اس گائوں کے 55 افراد جن میں برطانوی فوجی بھی شامل تھے بری طرح متاثر ہوئے۔ صہیونیوں کے اس جرم کو صہیونی افواج نے "Shlach Lachmecha" آپریشن کا نام دیا اور اسے اپنی کامیابی بتایا۔ ریڈ کراس نامی ادارے کی ایک بین الاقوامی کمیٹی کے رکن ڈی میورون نے 6 مئی سے19مئی 1948 تک ریفرنس نمبر G59/1/GC, G3/82 کے تحت متعدد رپورٹس بھیجیں جس میں اپیل کی گئی کہ صہیونیوں کی جانب سے اس شہر میں ٹائیفائڈ پھیلایا گیا ہے جو کہ انسانی حیات کو بری طرح متاثر کررہا ہے تاہم عالمی برادری اس حوالے سے ممکنہ اقدامات کرے اور فلسطینیوں کی زندگی کو لاحق خطرات سے بچایا جاسکے۔ ایک برطانوی ادارے کے اہلکار کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں ڈی میورون نے بتایا کہ فلسطینی گائوں میں پھیلنے والا خطرناک وائرس ٹائیفائڈ پانی کے ذریعے پھیلایا گیا ہے، جس پر برطانوی ادارے کے اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کی۔
صہیونیوں نے جو تجربہ 1948 میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا تھا وہی ایک مرتبہ پھر غزہ اور مصر کے ساتھ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ صہیونیوں نے دو افراد کو بھیجا کہ وہ اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور کسی طرح مصر سے غزہ آنے والی پانی کی بڑی لائن میں زہر آلود کیمیائی مواد ملا دیں تاکہ غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتیں ہوں البتہ اس مرتبہ وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور دونوں صہیونی دہشت گردوں کو مصری افواج نے گرفتار کرلیا۔ ''وار ڈائری'' نامی کتاب میں بن گوریون کے اس جملے سے اعتراف کا ثبوت ملتا ہے کہ ''چیف آف اسٹاف، Yigal Yadin غزہ سے اپنے فوجیوں کو ہٹا لو کیونکہ مصر ی فوج نے دو یہودیوں کو کیمیائی مواد کے ساتھ گرفتار کرلیا ہے'' بن گوریون نے اسے پانی نہ پینے کی ہدایت بھی کی۔ یہ خط بن گوریون نے 27 مئی کو اپنے چیف آف اسٹاف کو لکھا تھا۔ ایک اسرائیلی کتاب نویس Yeruham Cohen نے اپنی کتاب "In Daylight and Night Darkness" میں لکھتا ہے کہ دو صہیونیوں کو زہریلے موادکے ساتھ گرفتار کرلیا گیا تھا جن کو بعد میں موت کی سزا دے دی گئی۔
یہاں صہیونی جرائم کا سلسلہ نہ رکا اور صہیونیوں نے مصر اور شام پر دوبارہ اسی طرح کا حملہ کردیا۔ بائیس جولائی کو فلسطینیوں کی ایک اعلیٰ سطح عرب کمیٹی نے اقوام متحدہ میں تیرہ صفحات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں لکھا گیا تھا کہ اسرائیل کے پاس ایسے مہلک ہتھیار موجود ہیں جو انسانی حیات کے لیے شدید خطرہ ہیں، عالمی برادری اسرائیل سے ان مہلک ہتھیاروںکو ضبط کرے ورنہ اسرائیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ رپورٹ اسرائیل کی جانب سے مصر اور شام میں کلوریا نامی کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے بعد سامنے آئی تھی اور اس پوری داستان کو نیویارک کے ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی Thomas J. Hamilton نے 24 جولائی 1948 کو من و عن شایع کیا تھا۔ اسرائیلی فوج کے ایک جنرل موشے دایان کا بیٹا اپنی ڈائری میں لکھتا ہے اور اس ڈائری کو اسرائیلی روزنامے یدعوت نے شایع کیا ہے، موشے کا بیٹا Assi اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ میرے والد جنرل موشے اکثر گھر میں کچھ ٹیوبز لے کر آیا کرتے تھے جن میں typhus موجود ہوتا تھا اور موشے نے یہ مواد اردن کے علاقے میں استعمال کیا اور متعدد پانی کی لائن سپلائی میں ملایا گیا،ASSIکہتا ہے ایک دن ایک ٹیوب گھر میں گر کر پھٹ گئی اور اس کی وجہ سے میں شدید متاثر ہوا جس کے بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ یہ ایک خطر ناک اور مہلک زہریلا مواد ہوا کرتا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر کیمیائی حملوں کی ایک طویل فہرست ہے جس پر پوری کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔ فلسطینی جوانوں کی جانب سے شروع ہونیوالے انتفادہ کو دبانے کے لیے اسرائیل نے toxins نامی کیمیائی مواد کا استعمال کیا تھا، یہ ایسا کیمیائی مادہ ہے کہ جس کے استعمال کے بعد سانس بند ہونے لگتی ہے اور انسان قے کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح Gaza Strip نامی ایک ویڈیو ڈاکومنٹری جو کہ ایک امریکی کیمرہ مین James Longley نے بنائی ہے، میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے کس طرح مغربی کنارے اور غزہ سمیت نابلس اور دیگر شہروں میں مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
رملہ میں کینسر کے ایک تحقیقی سینٹر کے ذمے دار ڈاکٹر خمیس النجار کا کہنا ہے کہ 2003 سے فلسطینی شہروں میں کینسر کے مرض کی شکایات بڑھ گئی ہیں اور یہ سب اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر مسلسل کیمیائی ہتھیاروں کے حملوںکے مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر خمیس النجار کی رپورٹ کے مطابق 1995 سے 2000 تک 3646 افراد، جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے کینسر کے مرض میںمبتلا ہوئی ہیں۔ مختلف اداروں کی رپورٹس میںآیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر 2001 سے 2003 اور 2004 میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے جب کہ موساد نے متعدد مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جب کہ حماس کے ایک رہنما محمود المبوح کو قتل کرنے سمیت یاسر عرفات کو قتل کرنے میں بھی موساد نے کیمیائی ہتھیاروں کی مختلف مقداروں کا استعمال کیا ہے۔
آج پوری دنیا یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں کیمیائی ہتھیاروںکی سب سے زیادہ پیداوار بھی کر رہا ہے اور اسٹاک بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی ٹی وی 2003 میں اسرائیل کے خفیہ ہتھیاروں کے عنوان سے ڈاکومنٹری بھی نشر کرچکا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا موقع ہے کہ جب شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی بات چھیڑی گئی ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی نگرانی میں دے دیا جائے اور خصوصاً اسرائیل کو WMD سے پاک کیا جانا انتہائی اہم ہے۔ کیا امریکی صدر اوباما یہ بتاسکتے ہیںکہ وہ اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو بین الاقوامی تحویل میں کب دینگے؟ کیا امریکی صدر جو اپنی تقریروں میں خود کو اور امریکا کو دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمے دار بتاتے ہیں اسرائیل جیسے خطرناک ملک سے انسانیت کی حیات کے لیے مضر کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار رکوانے اور ذخیروں کو منجمد کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرینگے؟