پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش
پاکستان میںمسیحی برادری کی آبادی 28 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے جو ملکی معیشت و سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے
گزشتہ اتوار کو پشاور کے چرچ میں ہونے والے ہولناک دھماکوں نے 86 افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے، 100 کے قریب زخمی ہوئے۔ مساجد، مدارس، امام بارگاہوں، مذہبی اجتماعات اور اسکولوں میں ہونے والے دھماکوں اور دہشت گردی کے سلسلے کی یہ تازہ واردات دعائیہ عبادت میں شریک مسیحی برادری کے ساتھ پیش آئی، اس سے قبل بھی عیسائی برادری کے اسکولوں، اسپتالوں چرچ اور این جی اوز کے دفاتر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، ان کے ایک قومی رہنما شہباز بھٹی کا قتل بھی ہوچکا ہے۔ لیکن حالیہ سانحے میں ہلاکتوں کی تعداد ان تمام واقعات کی مجموعی ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان تمام واقعات کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس میں مرنے والوں کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھی، ایک اور المناک پہلو یہ بھی ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مرنے والے عبادت، تعلیم یا تیمارداری میں مشغول تھے، جس وقت انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں مسیحی برادری کی آبادی 28 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے جو ملکی معیشت و سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے اور سرکاری، عوامی اور مذہبی سطح پر کہیں بھی استحصال اور امتیاز کا شکار نہیں ہے، اس کی حب الوطنی بھی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ مسلم اور مسیحی برادری میں ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف قومی و بین الاقوامی معاملات کی طرح مسیحی برادری نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکی حکومت کی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی اور سزا پر عملی احتجاج بھی کیا، اس طرح جب پشاور کا سانحہ پیش آیا تو ڈاکٹر عافیہ رہائی موومنٹ، پاسبان اور مجلس وحدت المسلمین نے اس بربریت کے خلاف احتجاج میں خودشرکت کی، اس سے خطاب کیا اور اس کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور حکومت کو مذمتی بیانات اور رونے دھونے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ سانحے پر عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کا رویہ بھی بڑا دانشمندانہ رہا۔ بشپ نے جذبات سے مغلوب مسیحی برادری سے پرامن رہ کر دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کی اپیل کی۔
چرچز آف پاکستان نے 27 ستمبر کو ملک بھر کے گرجا گھروں میں دعائیہ تقاریب منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان کے تمام مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں، شخصیات اور تنظیموں نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے۔ مساجد سے مسیحیوں کی امداد کے لیے اعلانات کیے گئے، ملک کے کونے کونے میں احتجاج کیا گیا جس میں مسلمانوں نے بھی شرکت کی یا ان کی بھرپور تائید کی۔ اظہار یکجہتی کے لیے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ جذبات سے مغلوب دہشتگردی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین نے لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، آتش زنی کے واقعات شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں ٹریفک جام اور معمولات زندگی متاثر ہوئے۔ کئی گاڑیاں، دکانیں، مکانات اور پتھارے نذرآتش کردیے گئے اور کراچی میں ایک مسجد پر پتھراؤ اور فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں ایک شخص کی ہلاکت ہوئی، کئی افراد زخمی اور نصف صد کے قریب گرفتار کیے گئے، جس سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور کسی مزید ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو تعینات کرنا پڑا۔
یہ واقعہ مسلم، عیسائی اور محب وطن قوتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس قسم کے واقعات کی سازش کسی بڑی ناگہانی صورتحال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت نے جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کے لیے بھی امداد کا اعلان کیا ہے۔ جس طرح کسی ناگہانی آفت یا ٹرین وغیرہ کے حادثے کی صورت میں جہاں خلق خدا جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کی لاشیں اٹھانے، زخمیوں کو اسپتال پہنچانے، ان کو خون دینے، ان کے کھانے پینے اور رہائش کے بندوبست میں مصروف ہوجاتی ہے وہیں کچھ بدبخت اور عاقبت نااندیش عناصر زخمیوں کے زیورات، قیمتی اشیاء اور ان کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرنے میں جت جاتے ہیں۔ زیورات کی خاطر خواتین کی کلائیاں اور ناک، کان تک کاٹ لیتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو اغواء تک کرلیا جاتا ہے۔
انھیں کارروائیوں میں مصروف دیکھ کر نظیر اکبر آبادی کا آدمی نامہ یاد آجاتا ہے، بالکل اسی طرح کسی بھی قومی سانحے پر پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعض سیاسی، مذہبی، لسانی اور سماجی تنظیمیں تجزیہ اور تبصرہ نگار اپنے اپنے اہداف اور عزائم کے حصول کے لیے ملک، قوم، مذہب اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر مخالفت، حمایت یا مبالغہ آرائی میں زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد بھی جذبات، کلمات اور مطالبات اور مکالمات کے آئینے میں انھیں صاف طور پر پہچانا جاسکتا ہے جو مسلمانوں یا عیسائیوں میں کسی سے مخلص نہیں ہیں، انھیں ان کا ایجنڈا سب سے زیادہ عزیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام اس وقت دوستوں اور دشمنوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے، جہاں اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ پہلے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہوتا تھا کہ ''اب کیا ہوگا؟'' لیکن اب لوگوں کی زبان پر یہ کلمہ عام ہے کہ ''کچھ نہیں ہوسکتا'' عوام کی یہ سوچ، بددلی اور لاتعلقی کسی قومی المیے سے کم نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اس لحاظ سے بدقسمت رہے ہیں کہ عنان اقتدار میں اکثر و بیشتر بڑے بڑے بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ کا سامنا رہا ہے، کبھی بھارتی ایٹمی دھماکے، اس دوران انھیں سیاستدانوں، عسکری قوتوں، عدلیہ اور ایوان صدر تک سے نبرد آزما ہونا پڑا، بقول خود ان کے کہ ایوان صدر جہاں سے انھیں مشاورت و معاونت اور تعاون ملنا چاہیے تھا ان کے خلاف سازشوں کا گڑھ بنا ہوا تھا، ہر وزارت عظمیٰ کا متمنی اسلام آباد میں اپنی کابینہ تشکیل دے رہا تھا۔ موجودہ دور اقتدار میں بھی انھیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب چین کے دورے پر گئے تو نانگا پربت پر کوہ پیماؤں کا واقعہ پیش آگیا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکا پہنچے تو پشاور کا سانحہ پیش آگیا۔
اس کے نتیجے میں وزیراعظم کو اپنا موقف اور پالیسی واضح کرنے، ڈرونز پر بات کرنے کے بجائے اپنی صفائیاں اور وضاحتیں پیش کرنا پڑیں گی اور میڈیا اور نمایندوں کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب دینا ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم سے ملاقات اس خوشگوار ماحول میں نہیں ہوپائے گی جس طرح ہونا چاہیے تھی۔ ملک میں فوجی آپریشن کے مطالبے میں مزید جان پڑ جائے گی، اے پی سی کی قرارداد اور فوجی آپریشن کے مخالفین کی تمنائیں ماند پڑجائیں گی۔ وزیر اعظم نے کہہ دیا ہے کہ اس صورت حال میں وہ اے پی سی کے فیصلے پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ طالبان نے حملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن اس کے ایک گروپ نے ذمے داری قبول کرلی ہے لیکن طالبان اتنے کم عقل بھی نہیں ہیں کہ یہ بھی نہ سوچ سکیں اس قسم کی کارروائی کا نقصان صرف ان کو اور پاکستان کو پہنچ سکتا ہے جب کہ فائدہ ملک دشمن قوتوں کو پہنچے گا۔