مذاکرات…… آخر کس سے……

اس خونی جنگ کے نتیجے میں ہزروں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

ISLAMABAD:
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ آپ کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے زریں اصولوں کو جلد ہی پس پشت ڈال دیا گیا اور ان کے انتقال کے فوراً بعد ہی ایک مفاد پرست ٹولے نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔ اس ٹولے میں ملک پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لئے مذہب کا استعمال کیا۔

افغانستان جنگ نے 70 کی دہائی میں ملک کو آگ کے شعلوں میں دھکیل دیا۔ یہ آگ آج بھی شدت سے بھڑک رہی ہے اور پاکستان کے طول و عرض میں لوگ اس کا شکار ہورہے ہیں۔ ابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ ملک کب اس آگ سے باہر نکلے گا اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ انتہا پسندی کی آگ ایک طرف تو پاکستان بنانے کے حقیقی جذبے کا گلا گھونٹ رہی ہے اور دوسری طرف بانیانِ پاکستان کے خواب کرچی کرچی ہورہے ہیں۔

اس خونی جنگ کے نتیجے میں ہزروں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ دہشت گردوں نے ایک طرف تو فوجی افسران اور جوانوں کو شہید کیا اور دوسری طرف ہزاروں معصوم لوگوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں بے رحمی سے قتل کیا۔ ان سب کے باوجود حالیہ منعقد ہونے والی ایک آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کو انتہا پسندوں اور شدت پسندوں سے مذاکرات کا اختیار دے دیا اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ امن کی کوششوں کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جائے مگر شدت پسند ابھی تک متواتر حملے کررہے ہیں۔

طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کے فوراً بعد ہی ایک حاضر سروس میجر جنرل کو ایک دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ دہشت گردوں نے پشاور میں ایک گرجاگھر میں دو خودکش حملے کرکے مذاکرات کی دعوت کا مذاق اڑایا۔ اس بم دھماکے میں متعدد افراد بشمول خواتین اور معصوم بچے جاں بحق ہوگئے، انہوں نے مزید واضح کیا ہے کہ وہ اپنے حملے مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔


دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف ملک میں غم و غصے کی ایک شدید لہر پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ حلقے اس بات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی پیشکش کو فوری طور پر واپس لے لینا چاہئے، اس کے برعکس طالبان کی حمایت کرنے والی بعض جماعتیں اس بات کی مدعی ہیں کہ یہ حملے جن گروپوں نے کئے ہیں، ان کا طالبان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کے تقریباً 25 گروپس ہیں اور ان میں سے بعض ابھی تک مذاکرات کے حامی بھی نہیں ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ ان واقعات میں وہ گروپس شامل ہوں جو مذاکرات کے خلاف ہیں۔ اس دلیل سے مذاکرات کے سارے عمل پر ایک بڑا سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ساری صورتحال بہت گنجلک ہوجاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان ایک متحدہ قوت نہیں ہیں اور ان کا شدت پسندوں کے گروپس پر کوئی کنٹرول بھی نہیں ہے تو کیا مذاکرات کا عمل بامقصد ثابت ہوسکے گا؟؟؟ کیا ہم طالبان سے بات چیت کریں یا دیگر طاقتور گروپس سے یا ان دونوں سے۔

ملک میں کچھ ایسے سیاسی رہنماء بھی ہیں جو انتہا پسندوں سے مذاکرات کے خواہاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے، ان میں سے بعض رہنماء یہ بھی تجویز دے رہے ہیں کہ انتہا پسندوں کو ملک میں دفتر قائم کرنے کی اجازت دی جائے حالانکہ یہ عمل کسی حد تک ان کی قوت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اور ان کو ایک جائز فریق کی حیثیت دلوانے کے برابر ہوگا۔

یہ ایک خطرناک خیال ہے ہر ایک ملک میں مختلف ادارے بشمول اس کی افواج، پولیس، بیوروکریسی، ماہرِ اقتصادیات، ملک کے عوام اور اسٹیک ہولڈرز کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کے وظائف بہت واضح ہوتے ہیں۔ یہ سب قومی تعمیر میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ملک مضبوط ہوتا ہے اس کے برعکس کچھ عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ملک کو کمزور کرنے کیلئے مختلف قسم کی تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، یہ تخریبی عناصر عام طور پر ملک دشمن اور ریاست دشمن کہلائے جاتے ہیں۔

جو لوگ بزعم خود پاکستان کے سب سے بڑے محب وطن ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان ریاست کا لازم و ملزوم حصہ ہیں، وہ درحقیقت ایک ایک خالصتاً ناجائز چیز کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں۔ ہم سب ملک میں امن کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں اور ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک اقوامِ متحدہ میں ایک جدید جمہوری ملک کے طور پر ابھرے۔ ہم سب کو مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر میں سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔ مذاکرات آخر کس سے؟؟؟
Load Next Story