اپوزیشن کا جمہوری کردار
وزیر اعظم کا سخت گیر رویہ اور اپوزیشن سے دور رہنے کا عمل ملک میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
حقیقی جمہوریت میں اپوزیشن کو مستقبل کی حکومت قرار دیا جاتا ہے جس کی مثال پاکستانی جمہوریت میں بھی ملتی رہی ہے جہاں حقیقی جمہوریت تو نہیں رہی کنٹرولڈ جمہوریت ضرور رہی ہے جس کا واضح ثبوت 1971ء میں ملک کا دو لخت ہو جانا ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کے جمہوری حق کا احترام نہیں کیا گیا تھا۔
1970ء کے انتخابات میں اگر اکثریت کا جمہوری فیصلہ تسلیم کر لیا جاتا تو نہ ملک ٹوٹتا نہ 1977ء میں ملک میں دوسرا مارشل لا ء لگتا ، جسکی طوالت میں ملک کو 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اقتدار پر قبضہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ 1988ء کے پارٹی بنیاد پر 1997ء تک ہونے والے انتخابات میں دو دو بار منتخب کی جانے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں کرپٹ اور ملک کے لیے نقصان دہ تھیں۔ یہ دونوں پارٹیاں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی قیادت میں پہلے پی پی پھر مسلم لیگ (ن) اور پھر پی پی اور مسلم لیگ اقتدار میں آئی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے جہاز اغوا کا جعلی ڈرامہ رچا کر وزیر اعظم نواز شریف کو معزول کیا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں پارٹی بنیاد پر عام انتخابات کرا کر سرکاری طور پر بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے اقتدار دلانے کے لیے ایک کے بعد دوسری بار جیتنے والی دونوں پارٹیوں کو منصوبے کے تحت اقتدار سے باہر کرا دیا تھا، وگرنہ دونوں ہی میں سے کسی کو تیسری بار اقتدار میں آنا تھا۔
باری باری اقتدارکا کھیل کھیلنے میں کامیاب دونوں پارٹیوں کو بظاہر تو عوام ہی منتخب کرتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنے جبری اقتدار میں ایسا نہ ہونے دیا تھا اور ایک ووٹ زیادہ ملنے پر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوا کر پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ گروپ بنا کر (ق) لیگ کے اقتدار کی مدت تو پوری کرا دی تھی مگر 2008ء سے 2013ء کے عام انتخابات پھر دونوں پارٹیوں کو باری باری اقتدار ملا اور کبھی پی پی کبھی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آتی رہیں اور ثابت ہوتا رہا کہ آج کی اپوزیشن مستقبل کی حکومت ہے جسے اب وزیر اعظم عمران خان ماننے کو تیار نہیں کیونکہ پہلی بار ایک ہو کر اپوزیشن میں بیٹھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے وہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ آیندہ کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گی۔
کوئی لاکھ تردید کرے کہ ان کا پی ٹی آئی کو اقتدار دلانے میں ہاتھ نہیں مگر 2002ء میں بھی مسلم لیگ (ق) کو اسی طرح اقتدار دلایا گیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) کی پانچ سالہ حکومت میں موجودہ جیسی ہی اپوزیشن کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوا تھا جو آج عمران خان کی حکومت میں ہو رہا ہے، جس کا ایک واضح ثبوت وزیر اعظم عمران خان کا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو تسلیم نہ کرنا ہے، حالانکہ اسی قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنایا ہے جس نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا تھا۔
(ق) لیگ کی پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے کھلے عام کہا تھا کہ ہم نے شریفوں کے خلاف انتقام تو دور کی بات ان کی ٹریکٹر ٹرالی بھی چالان نہیں ہونے دی تھی۔ آج حکومتی وزراء کھلے عام اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی پیشگی خبریں دیتے ہیں اور بعد میں نیب انھیں ہی گرفتارکر کے حکومتی وزیروں کی پیشگوئیوں کی تصدیق کر دیتا ہے اور پنجاب اسمبلی کے موجود اسپیکر ان گرفتاریوں پر لب کشائی نہیں کرتے۔
نیب (ق) لیگ کی حکومت میں بھی تھا، جس نے پیٹریاٹ بنوایا تھا اور (ق) لیگ کی اکثریت بھی بڑھوائی تھی مگر اس وقت کا نیب اپوزیشن کے لیے اتنا سخت رویہ نہیں رکھتا تھا حالانکہ جنرل پرویز فوجی صدر تھے اور آج عمران خان سویلین وزیر اعظم ہیں۔اپوزیشن کی آئین میں اہمیت واضح ہے اور آئینی طور پر چیئرمین نیب، چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے ارکان، نگران وزیر اعظم کی تقرری سمیت آئین کے تحت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈرکے درمیان میں مشاورت ضروری ہے اور یہ مشاورت دونوں کی ملاقات سے ہی ممکن ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت تو دورکی بات ہاتھ ملانے پر بھی تیار نہیں ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں بھی حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ان کے زیادہ ممبران ہونے کے باوجود نہیں دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا سربراہ تسلیم کر لیا تھا جن کے قومی اسمبلی میں ممبران کم تھے مگر ان کی پارٹی ایم ایم اے کی صوبہ سرحد میں حکومت تھی۔ اس وقت کی اپوزیشن جنرل پرویز مشرف کی سخت مخالف تھی جس کی وجہ سے انھوں نے بحیثیت صدر مملکت صرف ایک بار ہی پارلیمنٹ سے خطاب کر کے آئینی تقاضا پورا کیا تھا اور اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو غیر مہذب قرار دیا تھا۔
(ق) لیگ کی حکومت میں نگران وزیر اعظم کے تقرر پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق نہیں ہوا تھا تو انھوں نے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومروکو نگران وزیر اعظم مقرر کیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) پھر بھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکی تھی اور پرویز مشرف کی مکمل حمایت اور اپنا نگران وزیر اعظم بھی کام نہیں آ سکا تھا۔
2013ء میں بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگران وزیر اعظم پر اتفاق نہیں ہوا تھا مگر آئین کے مطابق مشاورت ضرور ہوتی تھی مگر عمران خان کا یہ حال ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر پر مشاورت اور آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے سات ماہ میں بھی رضامند نہیں ہوئے اور انھوں نے بغیر مشاورت دو وکلا کا تقرر غیر آئینی طور پر کر دیا جن سے حلف لینے سے چیف الیکشن کمشنر نے انکارکر دیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کی مدت بھی جلد ختم ہو رہی ہے تو مشاورت نہ ہونے سے بڑا آئینی خلا پیدا ہو جائے گا اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر نہ ہونے سے الیکشن کمیشن ہی غیر فعال ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کا سخت گیر رویہ اور اپوزیشن سے دور رہنے کا عمل ملک میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے جو سیاسی اختلافات سے بڑھ کر ذاتی دشمنی جیسا رنگ اختیار کر رہا ہے جو قطعی غیر جمہوری رویہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اپوزیشن کو مزید مشتعل کیا جا رہا ہے۔
1970ء کے انتخابات میں اگر اکثریت کا جمہوری فیصلہ تسلیم کر لیا جاتا تو نہ ملک ٹوٹتا نہ 1977ء میں ملک میں دوسرا مارشل لا ء لگتا ، جسکی طوالت میں ملک کو 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اقتدار پر قبضہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ 1988ء کے پارٹی بنیاد پر 1997ء تک ہونے والے انتخابات میں دو دو بار منتخب کی جانے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں کرپٹ اور ملک کے لیے نقصان دہ تھیں۔ یہ دونوں پارٹیاں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی قیادت میں پہلے پی پی پھر مسلم لیگ (ن) اور پھر پی پی اور مسلم لیگ اقتدار میں آئی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف نے جہاز اغوا کا جعلی ڈرامہ رچا کر وزیر اعظم نواز شریف کو معزول کیا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں پارٹی بنیاد پر عام انتخابات کرا کر سرکاری طور پر بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے اقتدار دلانے کے لیے ایک کے بعد دوسری بار جیتنے والی دونوں پارٹیوں کو منصوبے کے تحت اقتدار سے باہر کرا دیا تھا، وگرنہ دونوں ہی میں سے کسی کو تیسری بار اقتدار میں آنا تھا۔
باری باری اقتدارکا کھیل کھیلنے میں کامیاب دونوں پارٹیوں کو بظاہر تو عوام ہی منتخب کرتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنے جبری اقتدار میں ایسا نہ ہونے دیا تھا اور ایک ووٹ زیادہ ملنے پر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوا کر پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ گروپ بنا کر (ق) لیگ کے اقتدار کی مدت تو پوری کرا دی تھی مگر 2008ء سے 2013ء کے عام انتخابات پھر دونوں پارٹیوں کو باری باری اقتدار ملا اور کبھی پی پی کبھی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آتی رہیں اور ثابت ہوتا رہا کہ آج کی اپوزیشن مستقبل کی حکومت ہے جسے اب وزیر اعظم عمران خان ماننے کو تیار نہیں کیونکہ پہلی بار ایک ہو کر اپوزیشن میں بیٹھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے وہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ آیندہ کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گی۔
کوئی لاکھ تردید کرے کہ ان کا پی ٹی آئی کو اقتدار دلانے میں ہاتھ نہیں مگر 2002ء میں بھی مسلم لیگ (ق) کو اسی طرح اقتدار دلایا گیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) کی پانچ سالہ حکومت میں موجودہ جیسی ہی اپوزیشن کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوا تھا جو آج عمران خان کی حکومت میں ہو رہا ہے، جس کا ایک واضح ثبوت وزیر اعظم عمران خان کا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو تسلیم نہ کرنا ہے، حالانکہ اسی قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنایا ہے جس نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا تھا۔
(ق) لیگ کی پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے کھلے عام کہا تھا کہ ہم نے شریفوں کے خلاف انتقام تو دور کی بات ان کی ٹریکٹر ٹرالی بھی چالان نہیں ہونے دی تھی۔ آج حکومتی وزراء کھلے عام اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی پیشگی خبریں دیتے ہیں اور بعد میں نیب انھیں ہی گرفتارکر کے حکومتی وزیروں کی پیشگوئیوں کی تصدیق کر دیتا ہے اور پنجاب اسمبلی کے موجود اسپیکر ان گرفتاریوں پر لب کشائی نہیں کرتے۔
نیب (ق) لیگ کی حکومت میں بھی تھا، جس نے پیٹریاٹ بنوایا تھا اور (ق) لیگ کی اکثریت بھی بڑھوائی تھی مگر اس وقت کا نیب اپوزیشن کے لیے اتنا سخت رویہ نہیں رکھتا تھا حالانکہ جنرل پرویز فوجی صدر تھے اور آج عمران خان سویلین وزیر اعظم ہیں۔اپوزیشن کی آئین میں اہمیت واضح ہے اور آئینی طور پر چیئرمین نیب، چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے ارکان، نگران وزیر اعظم کی تقرری سمیت آئین کے تحت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈرکے درمیان میں مشاورت ضروری ہے اور یہ مشاورت دونوں کی ملاقات سے ہی ممکن ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت تو دورکی بات ہاتھ ملانے پر بھی تیار نہیں ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں بھی حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ان کے زیادہ ممبران ہونے کے باوجود نہیں دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا سربراہ تسلیم کر لیا تھا جن کے قومی اسمبلی میں ممبران کم تھے مگر ان کی پارٹی ایم ایم اے کی صوبہ سرحد میں حکومت تھی۔ اس وقت کی اپوزیشن جنرل پرویز مشرف کی سخت مخالف تھی جس کی وجہ سے انھوں نے بحیثیت صدر مملکت صرف ایک بار ہی پارلیمنٹ سے خطاب کر کے آئینی تقاضا پورا کیا تھا اور اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو غیر مہذب قرار دیا تھا۔
(ق) لیگ کی حکومت میں نگران وزیر اعظم کے تقرر پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق نہیں ہوا تھا تو انھوں نے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومروکو نگران وزیر اعظم مقرر کیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) پھر بھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکی تھی اور پرویز مشرف کی مکمل حمایت اور اپنا نگران وزیر اعظم بھی کام نہیں آ سکا تھا۔
2013ء میں بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگران وزیر اعظم پر اتفاق نہیں ہوا تھا مگر آئین کے مطابق مشاورت ضرور ہوتی تھی مگر عمران خان کا یہ حال ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر پر مشاورت اور آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے سات ماہ میں بھی رضامند نہیں ہوئے اور انھوں نے بغیر مشاورت دو وکلا کا تقرر غیر آئینی طور پر کر دیا جن سے حلف لینے سے چیف الیکشن کمشنر نے انکارکر دیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کی مدت بھی جلد ختم ہو رہی ہے تو مشاورت نہ ہونے سے بڑا آئینی خلا پیدا ہو جائے گا اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر نہ ہونے سے الیکشن کمیشن ہی غیر فعال ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کا سخت گیر رویہ اور اپوزیشن سے دور رہنے کا عمل ملک میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے جو سیاسی اختلافات سے بڑھ کر ذاتی دشمنی جیسا رنگ اختیار کر رہا ہے جو قطعی غیر جمہوری رویہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اپوزیشن کو مزید مشتعل کیا جا رہا ہے۔