ریمزے کلارک کی آمد

عافیہ پر ہونے والے مظالم انسانیت کے نام پر دھبّا ہیں


Adnan Ashraf Advocate August 30, 2012
[email protected]

لاہور: پیر 27 جولائی کو سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے سندھ ہائی کورٹ بار کے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے پاکستانی لیڈر کو بچانے پاکستان آئے تھے، اب ایک پاکستانی بیٹی کو بچانے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکا میں عافیہ صدیقی کے لیے کچھ پیش رفت ہورہی ہے، لیکن ان کی رہائی کے لیے پاکستان کی جدوجہد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ان کی والدہ اور حکومتِ پاکستان کی مدد چاہیے۔ ان کا پاکستان آنے کا مقصد رہائی ہے۔ وہ عافیہ رہائی موومنٹ کے مہمان ہیں۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کے والد کے مقدمے کی کارروائی دیکھی تھی، اس کی پیروی بھی کرنا چاہتے تھے لیکن اجازت نہیں ملی تھی۔

انھوں نے کہا کہ امریکا میں جو کیس بنا غیر قانونی تھا، اس سے انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا پہنچا تھا۔ اس لیے عافیہ کو رہائی دِلانے کے لیے پاکستان کے عوام کے جذبات سننے آیا ہوں۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل کا یہ خطاب اور اعتراف خوش گوار حیرت کا باعث تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریمزے کے خیالات سن کر خوشی ہوئی ہے، وہ انصاف دِلانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور پاکستان آئے ہیں۔

اس سے قبل امریکی اٹارنی ٹینافوسٹر بھی کہہ چکی ہیں کہ ''ڈاکٹر عافیہ پر مقدمے کا امریکی قانون میں کوئی جواز نہیں بنتا۔ ان کے وکلا نے ڈاکٹر عافیہ کے حق میں موجود ثبوت استعمال نہیں کیے اور پاکستانی حکومت نے وکلا کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں کہ عافیہ کو مجرم قرار دلوایا جائے۔'' امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے بھی دورۂ پاکستان کے موقع پر انکشاف کیا تھا کہ حکومت پاکستان نے کبھی بھی عافیہ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ نو مسلم برطانوی صحافی مریم ایووان ریڈلے نے بھی اس بلاجواز مقدمے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے امریکی حکومت سے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

پاکستان حکام اپنے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جیل کا بھوت نامی قیدی نمبر 650 کا انکشاف بھی ریڈلے نے کیا تھا کہ وہ پاکستانی قیدی ڈاکٹر عافیہ ہے۔ اس نے پاکستان آکر پریس کانفرنس میں روتے ہوئے کہا تھا کہ خدارا اپنی مسلمان بہن اور اس کے معصوم بچوں کو قید سے رہائی دلائو، جنھیں اغوا کرکے FBI کے حوالے کردیا گیا تھا۔'' ایک سینئر صحافی نے بھی کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ''عافیہ کو 2003 میں گھر کے قریب سے اغوا کیا گیا، پھر بگرام جیل منتقل کردیا گیا۔'' سرکاری طر پر جیل میں عافیہ سے ملاقات کرنے والے وفد کے ممبر سینیٹر طلحہ محمود بھی واضح کرچکے ہیں کہ حکومت عافیہ کو واپس لانے میں مخلص نہیں ہے، وہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور عافیہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

برطانوی ہائوس آف لارڈ کے رکن لارڈ نذیر احمد نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ڈاکٹر عافیہ کے خلاف نام نہاد جیوری کے فیصلے سے امریکی عدالتی نظام کی خامی دنیا کے سامنے آگئی۔ اس پر مظالم سے دنیا بھر میں امریکا کی بدنامی ہوئی ۔ سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزماں صدیقی نے بھی قانونی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ پر مقدمے کا امریکی یا بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بنیاد یا جواز نہیں تھا۔ یہ امریکی حکومت کے دہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کو عافیہ کو سفارتی سطح پر واپس لانا چاہیے۔'' ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اقبال حیدر کا موقف ہے کہ ''ڈاکٹر عافیہ پر مظالم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والے امریکا کی جانب سے عافیہ پر ہونے والے مظالم انسانیت کے نام پر دھبّا ہیں۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ابوغریب جیل میں ہونے والے مظالم امریکا کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔

حالیہ دورے میں رمزے نے عافیہ کے وکیل کے ہمراہ گورنر عشرت العباد سے بھی ملاقات کی اور رہائی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا، جس پر گورنر نے وزیراعظم سے فون پر رابطہ کرکے رہائی کا معاملہ حکومتی سطح پر اٹھانے کی درخواست کی۔ انھوں نے کہا کہ ہر پاکستانی عافیہ کی رہائی چاہتا ہے، انھیں رہا کرکے امریکا پاکستانیوں کے دِلوں میں نرم گوشہ پیدا کرسکتا ہے۔ رمزے نے متحدہ کے کنوینر فاروق ستار اور لائر فورم کے انچارج احمد ضمیر ایڈووکیٹ سے ملاقات میں امریکی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا پر تشویش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود پاکستان اور امریکا میں رہائی کے لیے جدوجہد کریں گے۔

ہزار سے زاید صفحات پر مشتمل 86 سال قید تاریخ ساز ظالمانہ فیصلہ بغیر کسی ثابت شدہ جرم کے سنائے جانے کی وجوہات کیا تھیں، جب کہ گواہان کے بیانات میں تضاد تھا۔ اس کے زندان کی اینٹیں، پردے اور رائفل وغیرہ پیش کی جو خفیہ کوڈ نمبر سے ان لاک کیے بغیر چلائی بھی نہیں جاسکتی۔ کسی پر عافیہ کے فنگر پرنٹس نہیں ملے، نہ گولیوں کے خول ملے، البتہ یہ بات ضرور واضح ہوئی کہ امریکی فوجیوں نے اسے انتہائی قریب سے گولیاں ماریں، مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔ ایک گولی دل کے نزدیک لگی تھی۔ دوسری نے گردہ ناکارہ بنادیا تھا، تشدد سے ناک ٹوٹی ہوئی اور دانت ہل رہے تھے، جس کی شکایت عافیہ نے عدالت سے کی تھی، اپنے اوپر ہونے والے تشدد اور اپنے بچوں کے اغوا اور تشدد ، وکلاء پر عدم اعتماد اور ججز کے متعصب ہونے کی شکایت کی تھی۔ اس کا نہ کوئی ذکر ہے نہ تدارک کیا گیا جب کہ عافیہ کے اہل خانہ نے بھی حکومتِ پاکستان سے 20 لاکھ ڈالر کے عوض وکلا کے تقرر پر شدید اعتراض کیا تھا۔

حافظِ قرآن، ایم آئی ٹی کی فارغ التحصیل نیورو سائنسز میں پی ایچ ڈی اور 40 سے زاید عالمی ایوارڈ حاصل کرنے والی دینی و دنیاوی علوم، تقریر و تحریر پر دسترس رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ کے استاد اسے اپنی ذات میں ایک ادارہ قرار دیتے تھے۔ اس کے استاد پروفیسر نوم چومسکی نے کہا تھا کہ ''عافیہ جس جگہ جائے گی وہاں سسٹم کو تبدیل کردے گی۔'' شاید یہی اس کا جرم تھا۔ انسانیت سے پیار کرنے والی عافیہ زمانۂ طالب علمی میں کہا کرتی تھی کہ آج کی ماں نے کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے، پھر محمد بن قاسم کہاں سے پیدا ہوں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا کے لیے اتنی محنت کریں جتنا یہاں رہنا ہے۔ اس نے اپنے عمل سے اپنے قول کو سچّا کرکے دِکھایا اور اپنی سزا سننے کے بعد بھی کہا کہ جنھوں نے مجھ پر گولی چلائی اور میرے خلاف جھوٹے الزامات لگائے اور بیانات دیے، میں ان کو معاف کرکے اﷲ کی رضا پر شاکر ہوں۔

سزا سنائے جانے پر اس کے گھر والوں کا ردعمل بھی ٹی وی چینلز سے براہِ راست تمام دنیا نے دیکھا جو انتہائی قابل رشک، شاکرانہ اور قومی غیرت و حمیت سے بھرپور تھا۔ عافیہ کا مسئلہ کسی خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ملک اور ایک ملت کا مسئلہ ہے۔ اس بین الاقوامی انسانی مسئلے پر بعض غیر مسلموں نے بھی اپنا بھرپور حق ادا کیا ہے، لیکن بہ حیثیت مجموعی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں نے مجرمانہ حد تک غفلت برتی ہے جس کے لیے اﷲ فرماتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں قتال نہیں کرتے، ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنھیں کمزور پا کر مغلوب کرلیا گیا ہے، جو پکار رہے ہیں کہ اے اﷲ ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار بھیج۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں