جب شہید میجر کی روح نے خود اپنی لاش کی نشاندہی کی

سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد میجراعجازشہید کی نعش نہ ملنے پر اسکے گھر والے سخت پریشان تھے۔


September 28, 2013
کرنل اکرم نے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے میجنر اعجاز کی لاش کا پتہ چلایا۔ فوٹو: فائل

سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد تمام لاپتا افراد کی نعشیں ابھی نہیں مل سکی تھیں۔

ہمارے آپریشن اور ٹریننگ سیکشن میں سے صرف میجر اعجاز علی شاہ کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا۔ وہ میرے دوست اور ہمسائے تھے۔ ہم دفتر اکٹھے آیا کرتے تھے۔ وہ زندہ دل، خوب رو اور ہمارے دفتر کی رونق تھے۔ رات ڈھلنے تک ہم انہیں ڈھونڈتے رہے لیکن ان کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ اس رات کرنل امام نے مجھے اور کیپٹن قادر کو کہا کہ ہم خود جاکر اسلام آباد کے تمام ہسپتالوں اور ان کے مردہ خانوں کا چکر لگائیں تاکہ میجر اعجاز کا کچھ پتا لگایا جاسکے۔ اس بدقسمت رات ہم نے بہت سی نعشیں دیکھیں لیکن میجر اعجاز کا کہیں پتا نہ چل سکا۔ اس رات اکیلے گھر جانا بہت تکلیف دہ محسوس ہورہا تھا۔

میں جانتا تھا کہ میجر اعجاز کی بیوی اور بچے بہت پریشانی کے عالم میں کسی خبر کے منتظر ہیں، لیکن اس حالت میں ان کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے میں نے گھر جانے کا راستہ بدل لیا۔ اگلی صبح 11) اپریل( چھ بجے ہم سب اس جگہ موجود تھے جہاں دھماکہ ہوا تھا۔ لاپتا افراد کی تلاش دوبارہ شروع کی گئی، ٹریننگ انسٹرکٹر نائک غلام سرور جوکہ مجاہدین کی ٹریننگ پر مامور تھے، ان کو بھی زندہ حالت میں ملبے سے باہر نکال لیا گیا۔ تقریباً بیس گھنٹے تک ملبے میں دبے رہنے کی وجہ سے ان کی حالت بہت بری تھی۔ اس سے اگلے دن) 12 اپریل( کو بھی تلاش جاری رہی لیکن میجر اعجاز کا کوئی سراغ نہ ملا۔

میجر اعجاز کے اہلخانہ امید و مایوسی کے درمیان جی رہے تھے۔ ہم نے آرمی سکول آف فزیکل ٹریننگ کاکول اور راولپنڈی کے ایک سنٹر سے درخواست کی کہ وہ تلاش کے کام میں مدد کرنے والے اپنے تربیت یافتہ کتے بھجوائیں۔ کاکول سے کرنل اکرم تربیت یافتہ کتوں کو ساتھ لے کر دو تین گھنٹوں میں پہنچے اور تلاش میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے جلد ہی ایک اور مجاہد کی نعش کا سراغ لگا لیا، جسے پشاور بھجوا دیا گیا۔ کرنل اکرم رات گئے تک ہمارے ساتھ تلاش میں مصروف رہے، لیکن میجر اعجاز کا پتا نہ چلا۔

13 اپریل کو آرمی نے کیمپ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے کر علاقے کو چاروں طرف سے بند کردیا۔ 14 اپریل کو کور کمانڈر نے علاقے کا دورہ کیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کرنل اظہر علی شاہ اور لیفٹیننٹ کرنل سجاد نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں تلاش کا کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

انہوںنے کور کمانڈر پر ساری صورتحال واضح کی اور بتایا کہ ان کی میجر اعجاز سے کتنی جذباتی وابستگی تھی اور وہ اپنے دوست کو تلاش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کور کمانڈر کے اس بارے میں خدشات تھے، کیونکہ زمین پر ہزاروں کی تعداد میں دھاکہ خیز اسلحہ بکھرا پڑا تھا اور زمین کی سطح بہت گرم تھی۔ وقتاً فوقتاً کوئی راکٹ یا بم پھٹ پڑتا تھا۔ ایک کمانڈر کی حیثیت سے وہ مزید جانوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ تاہم انہوں نے اس شرط پر اجازت دی کہ ایک افسر اور پانچ سپاہیوں پر مشتمل ٹیم ایک وقت میں تلاش کرے گی۔



کرنل اکرم کو دوبارہ بلایا گیا اور وہ اگلی صبح چھ بجے اپنے تربیت یافتہ کتوں کے ہمراہ تلاش میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے دو مزید نعشوں کا سراغ لگایا جو گہرے ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھیں لیکن میجر اعجاز ابھی تک لاپتا تھے۔ میں کرنل امام کو ان کے دفتر میں اس سارے معاملے سے آگاہ کر رہا تھا کہ اچانک انہوں نے مجھے کہا، ''صرف ایک منٹ، مجھے دیکھنے دو۔'' انہوں نے کچھ دیر منگلا گریژن میں موجود ایک شخص سے ٹیلی فون پر بات کی اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا میجر اعجاز کے دو بچے ہیں۔

ہم نے حیرت سے یہ سنا اور اس کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا انہوں نے سیاہ چپل پہنی ہوئی تھی؟ ہم نے دوبارہ اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے کچھ دیر فون پر دوسرے شخص کی بات سنی اور پھر فون رکھ کر ہمیں عمارت کی اس خاص جگہ کا بتایا جہاں ہمیں تلاش کرنا چاہیے۔ ہماری ٹیم میجر نیازی کی سربراہی میں پہلے ہی اس عمارت کے قریب پہنچی ہوئی تھی۔

کرنل اکرم کو بھی تربیت یافتہ کتوں کے ہمراہ اس جگہ پہنچے کا کہا گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب میجر نیازی نے واکی ٹاکی پر بتایا کہ انہیں ملبے تلے دبی نعش نظر آئی ہے تو ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ میجر اعجاز کی ہی نعش ہوگی۔ اس وقت کرنل امام نے ہمیں بتایا کہ منگلا گریژن کے ایک افسر میں کشف (نظر نہ آنے والی چیزوں کو دیکھنا) کی صلاحیت ہے اور اس نے میجر اعجاز کی روح سے خود بات کی ہے، جس نے اسے صحیح جگہ کا بتایا ہے۔ لیکن جب نعش کو پوری طرح باہر نکالا گیا تو پتا چلا کہ یہ اس آخری افغان مجاہد کی نعش ہے، جو لاپتا تھا۔

اب دوپہر کا وقت ہوچکا تھا۔ زمین اتنی گرم تھی کہ اسے ہاتھوں سے چھوا نہیں جاسکتا تھا، ہم مایوس ہوکر ہمت ہارنے لگے۔ کرنل امام کو جب اس کا پتا چلا تو انہوں نے دوبارہ اس افسر سے فون پر بات کی۔ اس دفعہ اس نے کرنل امام کو کہا کہ اعجاز (کی روح) نے بتایا ہے کہ اس کی نعش بھی اسی مقام پر پڑی ہے، جہاں سے مجاہد کی نعش ملی ہے۔ لیکن اس کی نعش کو دیکھنا اس لیے مشکل ہے کہ تلاش کرنے والی ٹیم صحیح زاویے سے تلاش نہیں کررہی۔ اس نے مزید یہ بھی بتایا کہ میجر اعجاز نے مجھے کہا ہے کہ تلاش کرنے والوں کو کہیں کہ وہ جلدی اس کی نعش کو تلاش کریں کیونکہ اس کے اہلخانہ سخت صدمے کی حالت میں ہیں۔

چنانچہ ہم نے نئے سرے سے کوشش کی۔ اس دفعہ ٹیم کے افراد تمام ضروری سامان سے لیس ہوکر پہنچے۔ کرنل اکرم نے ملبے کے نیچے رینگتے ہوئے اپنی تلاش شروع کی اور کچھ دیر بعد بتایا کہ اس کے کتے نے ایک دوسرے آدمی کا سراغ لگایا ہے۔ کوئی اندر جاکر دیکھ آئے۔ میجر نیازی نے اندر جاکے دیکھا کہ کتا ایک چھوٹے دہانے کے سامنے بیٹھا تھا۔ جب میجر نیازی نے اندر جھانک کر ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو سیارہ رنگ کی چپلوں کا جوڑا نظر آیا۔ اسے یقین تھا کہ یہ میجر اعجاز ہی کی نعش ہے۔ چنانچہ بے چینی سے اردگرد کی رکاوٹوں کو کھود کر امدادی ٹیم نے اتنی جگہ بنالی کہ میجر اعجاز کی نعش کو باہر نکالا جاسکے۔

ان کی نعش قابل شناخت تھی۔ اسی شام کرنل اظہر علی شاہ اور میں نے میجر اعجاز کی نعش ان کے اہلخانہ کو سوپنے کا ناخوشگوار فریضہ سرانجام دیا۔ رات کو پشاور میں فوجیوں کے قبرستان میں انہیں پورے فوجی اعزاز و احترام سے سپرد خاک کردیا گیا۔

واضح رہے کہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمود احمد غازی افغان جہاد کے عرصے میں آئی ایس آئی کے اس گروپ کا حصہ تھے جو افغان جنگ مزاحمت کو منظم کررہا تھا۔ حال ہی میں اس جنگ کے بارے میں ان کی انگریزی کتاب ''Afghan war & the Stinger saga'' منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب کے ایک حصے میں انہوں نے اوجڑی کیمپ میں تخریب کاری کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں