عمران خان کی سیاسی عمرانیات…
ہر انسان کو سیاست میں حصّہ لے کر قومی خدمت انجام دینے کا حق ہے
لاہور:
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان ہمارے قومی ہیرو ہیں ان کی کپتانی میں ہماری کرکٹ ٹیم نے ورلڈکپ جیت کر وطن کا نام روشن کیا۔ اس کے بعد ان کو انسانی فلاحی کاموں کا شوق پیدا ہوگیا اور انھوں نے اپنی ماں کی لازوال محبت کی یاد میں پاکستانی عوام کے تعاون سے لاہور میں شوکت خانم کینسراسپتال بنایا، جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ اب انھوں نے میانوالی میں اعلیٰ درجہ کی نمل یونیورسٹی قائم کرکے ایک اور شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس طرح انھوں نے سماجی فلاحی کاموں میں کامیابی حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا ہے۔ بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پیدا ہی انسانی فلاحی کاموں کے لیے ہوئے ہیں۔ اس شعبے میں انھوں نے اپنا حق ادا کردیا ہے پوری قوم کی طرف سے وہ لائقِ مبارک باد ہیں۔
اب عمران خان نے پاکستانی سیاست میں حصّہ لینا شروع کردیا ہے۔ ہر انسان کو سیاست میں حصّہ لے کر قومی خدمت انجام دینے کا حق ہے۔ اس لیے انھیں بھی یہ حق ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن سیاست کے لوازمات اور ضروریات کچھ اور ہیں اور وہ سیاسی تقاضوں کے خلاف چل پڑے ہیں، اس لیے مجھ جیسے ان کے لاکھوں حامیوں کو دکھ پہنچا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے کسی سیاسی جماعت میں تجربہ حاصل کیے بغیر ہی اپنی ایک سیاسی جماعت بنالی ہے، جس کے وہ پہلے دن سے ہی چیئرمین بھی بن گئے ہیں۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوگیا۔ 15 سال ہوئے تحریکِ انصاف کو بنے ہوئے۔ خان صاحب نے ناتجربہ کاری کی وجہ سے کئی غلطیاں کی ہیں۔
ان کی سیاست کو دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کہ وہ موجودہ برسر اقتدار اتحاد کو آیندہ انتخابات میں جتوا کر ان پارٹیوں کو بکھری ہوئی مظلوم اور معصوم قوم کے سر پر دوبارہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مقاصد مندرجہ ذیل مثالوں سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
انھوں نے اپنی پارٹی تحریکِ انصاف آج سے 15 سال پہلے بنائی تھی۔ اس میں جو بھی شخصیت شامل ہوتی تھی وہ چیئرمین کی آمریت اور ون مین شو کو دیکھ کر الٹے پائوں واپس چلی جاتی تھی۔ مشہور سیاسی لیڈر اور نظریاتی شخصیت معراج محمد خان اس میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ عمران خان کے صاف کردار سے متاثر ہو کر شامل ہوئے، لیکن چند ہی دنوں بعد یہ دونوں شخصیات مایوس ہو کر تشنہ لب اور دل گرفتہ ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں۔
ایک دفعہ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا بیان اخبار میں پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی جب انھوں نے کہا کہ موجودہ کرپٹ برسر اقتدار اتحاد کو ہٹانے کے لیے مسلم لیگ، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کا الائنس بننا چاہیے لیکن اس کے بعد تحریک انصاف کے کسی رہنما یا کارکن کی طرف سے ایسا کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں آیا۔
تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نان ایشو کی سیاست کررہے ہیں جب کہ انھیں چاہیے کہ ایشوز کی سیاست کریں۔ ایشوز کی سیاست حزب اختلاف کی پارٹی کی حیثیت سے موجودہ حکومتی اتحاد کے پیدا کردہ مسائل جن سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، پر غور وخوض کرکے ان کا حل پیش کرنا ہے۔ ان مسائل پر توجہ دینے اور حکومتی اتحاد سے ملک و قوم کی جان چھڑانے کے بجائے تحریکِ انصاف والے مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر نواز شریف کی ٹانگ کھینچنے لگ جاتے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کے لاہور کے جلسے کو کس نے کامیاب کرایا؟ اتنے زیادہ بندے کون لایا۔ جس سے ان کے سونامی کے غبارے میں ہوا بھر گئی اور وہ ابھی تک آسمان میں اڑ رہا ہے۔ اس کا راز حکومتِ پاکستان کے موجودہ ایک وزیر سے پوچھیے۔ بعد میں راولپنڈی میں جو جلسہ ہوا، اخبارات اور میڈیا چیخ چیخ کر بتارہا تھا کہ اس جلسے کے اخراجات کو ایک ایسا شخص اسپانسر کررہا ہے، جس کا اس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے اور اس کی ناک کا بال بنا ہوا ہے اور اس نے پراپرٹی کے بزنس میں اربوں روپے کمائے ہیں۔ بھلا آپ دیکھیں کہ کوئی دوسرا غیر متعلق شخص کس کے اشارے پر اپنے خفیہ عزائم کے لیے پارٹی پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نہایت ایمان دار اور دیانت دار آدمی ہیں لیکن یہ بات ان کے ذہن میں آنی چاہیے کہ اس ملک میں وہ واحد دیانت دار اور ایمان دار آدمی نہیں بلکہ ایسی ایسی شخصیات پڑی ہیں، جن کے دامن کو نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی ایسی جماعتیں ہیں جن کے قائدین اور ہزاروں کارکن ان خوبیوں میں باکمال ہیں اور وہ سونے میں تولے جانے کے قابل ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنا اور اپنی پارٹی کا قبلہ درست کریں اور حزب اختلاف کی پارٹیوں میں اپنا اعتبار جمائیں اور پاکستان قومی اتحاد جیسا الائنس بنا کر ہونے والے انتخابات میں ایک جھنڈے تلے الیکشن لڑیں، جس میں انشاء اﷲ جیت ہوگی، تب جا کر موجودہ حکمران اتحاد سے اس مصیبت کی ماری قوم کی جان چھوٹ سکتی ہے۔
دوسری صورت میں اگر عمران خان نے دوسروں کے اشاروں پر چلنے والی منفی سیاست نہ چھوڑی اور حزب اختلاف میں یوں ہی انتشار پیدا کرتے رہے تو حزب اختلاف کے حامیوں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور موجودہ برسر اقتدار گروہ دوبارہ مسلط ہوجائے گا جس کا سارا الزام عمران خان کے سر ہوگا۔