اسکول لنچ کے سخت قواعد بچوں کے لیے مفید ہیں
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بہت سے اسکولوں میں اس قسم کی سختی...
ایک نئی اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ جن اسکولوں میں خوراک کے حوالے سے قواعد وضوابط سخت ہوتے ہیں، ان میں بچوں میں موٹاپا ہونے کا خدشہ کم ہوجاتا ہے۔یہ بات یونیورسٹی آف الی نوائس کی ایک اسٹڈی میں کہی گئی اور قرار دیا گیا کہ اسکول میں کھانے پینے کے قواعد وضوابط سخت ہونے کی صورت میں ان اسکولوں کے بچوں میں موٹاپا ہونے کا خدشہ ایسے اسکولوں کے بچوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے جہاں اس قسم کی سختی نہیں ہوتی۔
مذکورہ اسٹڈی کے مصنف ڈینیل آر ٹیبر کے مطابق ہماری اسٹڈی سے ظاہرہوتا ہے کہ قوانین کے اچھے اثرات ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بہت سے اسکولوں میں اس قسم کی سختی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بچے قوانین کے اچھے اثرات سے محروم رہتے ہیں۔
اسٹڈی کے حوالے سے ذیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں بچوں میں موٹاپے میں اضافہ دیکھا جارہا ہے بالخصوص امریکا ، یورپ اور دیگر خطوں کے خوشحال ملکوں میں یہ مسئلہ خاصا شدید ہوچکا ہے۔رپورٹ کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے ان بچوں کو آئندہ زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اسٹڈی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسکولوں میں فروخت ہونے والی ہائی کیلوریز والی خوراکوں کی وجہ سے بچوں میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ ان خوراکوں میں سافٹ ڈرنکس ، آلو کی مصنوعات اور چکنائی سے بھرپور دیگر غذائیں شامل ہیں جنہیں اسکولوں کے بچوں کی جانب سے زوق وشوق سے کھایا جاتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کی جاتی۔یاد رہے کہ دنیا کے بہت سے اسکولوں میں یہ قوانین ہیں کہ بچے صرف گھر سے کھانا لاسکتے ہیں اور انھیں اسکول اوقات کے دوران اسکول کے اندر یا باہر سے کھانا خرید کر کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ بچوں کو ایسی غذائیں اسکولوں میں نہ لانے کا پابند کیا جاتا ہے جو زیادہ چکنائی اور کیلوریز والی ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کو سبزیاں اور پھل کھانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ایسے اسکولوں میں اس حوالے سے سخت قواعد ہوتے ہیں۔
تاہم تمام اسکولوں میں اس قسم کے قوانین موجود نہیں اور بچے ہر قسم کی خوراکیں کھاتے ہیں جن میں غیر صحت بخش سافٹ ڈرنکس ، آلو کے چپس ،فرائیڈ چکن اور تلی ہوئی دیگر غذائیں شامل ہیں۔
اسٹڈی کے سلسلے میں دنیا کے چالیس ممالک کے ساڑھے چھ ہزار بچوں کو شامل کیا گیا ۔ ان بچوں کا باڈی ماس انڈیکس یا بی ایم آئی اور ان کی خوراک کو دیکھا گیا جو کہ وہ اسکول میں کھاتے ہیں۔ اسٹڈی کے نتیجے میں پتہ چلا کہ جن ممالک کے اسکولوں میں کھانے پینے کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ قوانین موجود تھے ، وہاں بچوں میں بی ایم آئی ان ممالک کے اسکولوں کے بچوں کے مقابلے میں 0.44 پوائنٹس تک کم رہا، جن ملکوں میں اس حوالے سے قوانین موجود نہیں تھے۔
اسٹڈی میں اسکولوں میں خوراک کے حوالے سے قواعدو ضوابط کو موثر اور سخت بنانے کے حوالے سے زور دیا گیا کہ اسکولوں کی انتظامیہ کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں اور ان پر موثر طریقے سے عمل درآمد کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ بچوں میں موٹاپے کی بنیاد عام طور پر گھروں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں بھی پڑنا شروع ہوجاتی ہے، والدین اپنے بچوں کو صحت مند بنانے کے جنون میں انھیں موٹاپا اور چربی بڑھانے والی خوراکیں دیتے ہیں جو ان میں موٹاپے کے ساتھ ساتھ دل کی صحت کے حوالے سے بھی خدشات پیدا کرتی ہیں۔ایسے بچوں میں آئندہ زندگی میں دل کے امراض ، شوگر ، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
مذکورہ اسٹڈی کے مصنف ڈینیل آر ٹیبر کے مطابق ہماری اسٹڈی سے ظاہرہوتا ہے کہ قوانین کے اچھے اثرات ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بہت سے اسکولوں میں اس قسم کی سختی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بچے قوانین کے اچھے اثرات سے محروم رہتے ہیں۔
اسٹڈی کے حوالے سے ذیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں بچوں میں موٹاپے میں اضافہ دیکھا جارہا ہے بالخصوص امریکا ، یورپ اور دیگر خطوں کے خوشحال ملکوں میں یہ مسئلہ خاصا شدید ہوچکا ہے۔رپورٹ کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے ان بچوں کو آئندہ زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اسٹڈی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسکولوں میں فروخت ہونے والی ہائی کیلوریز والی خوراکوں کی وجہ سے بچوں میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ ان خوراکوں میں سافٹ ڈرنکس ، آلو کی مصنوعات اور چکنائی سے بھرپور دیگر غذائیں شامل ہیں جنہیں اسکولوں کے بچوں کی جانب سے زوق وشوق سے کھایا جاتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کی جاتی۔یاد رہے کہ دنیا کے بہت سے اسکولوں میں یہ قوانین ہیں کہ بچے صرف گھر سے کھانا لاسکتے ہیں اور انھیں اسکول اوقات کے دوران اسکول کے اندر یا باہر سے کھانا خرید کر کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ بچوں کو ایسی غذائیں اسکولوں میں نہ لانے کا پابند کیا جاتا ہے جو زیادہ چکنائی اور کیلوریز والی ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کو سبزیاں اور پھل کھانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ایسے اسکولوں میں اس حوالے سے سخت قواعد ہوتے ہیں۔
تاہم تمام اسکولوں میں اس قسم کے قوانین موجود نہیں اور بچے ہر قسم کی خوراکیں کھاتے ہیں جن میں غیر صحت بخش سافٹ ڈرنکس ، آلو کے چپس ،فرائیڈ چکن اور تلی ہوئی دیگر غذائیں شامل ہیں۔
اسٹڈی کے سلسلے میں دنیا کے چالیس ممالک کے ساڑھے چھ ہزار بچوں کو شامل کیا گیا ۔ ان بچوں کا باڈی ماس انڈیکس یا بی ایم آئی اور ان کی خوراک کو دیکھا گیا جو کہ وہ اسکول میں کھاتے ہیں۔ اسٹڈی کے نتیجے میں پتہ چلا کہ جن ممالک کے اسکولوں میں کھانے پینے کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ قوانین موجود تھے ، وہاں بچوں میں بی ایم آئی ان ممالک کے اسکولوں کے بچوں کے مقابلے میں 0.44 پوائنٹس تک کم رہا، جن ملکوں میں اس حوالے سے قوانین موجود نہیں تھے۔
اسٹڈی میں اسکولوں میں خوراک کے حوالے سے قواعدو ضوابط کو موثر اور سخت بنانے کے حوالے سے زور دیا گیا کہ اسکولوں کی انتظامیہ کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں اور ان پر موثر طریقے سے عمل درآمد کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ بچوں میں موٹاپے کی بنیاد عام طور پر گھروں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں بھی پڑنا شروع ہوجاتی ہے، والدین اپنے بچوں کو صحت مند بنانے کے جنون میں انھیں موٹاپا اور چربی بڑھانے والی خوراکیں دیتے ہیں جو ان میں موٹاپے کے ساتھ ساتھ دل کی صحت کے حوالے سے بھی خدشات پیدا کرتی ہیں۔ایسے بچوں میں آئندہ زندگی میں دل کے امراض ، شوگر ، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔