کپاس کی امدادی قیمت پر حکومت اور اسٹیک ہولڈرز میں اختلافات

 جہانگیرترین کی سربراہی میں اسٹیک ہولڈرز کی مشیرخزانہ سے ملاقات بے نتیجہ رہی

 جہانگیرترین کی سربراہی میں اسٹیک ہولڈرز کی مشیرخزانہ سے ملاقات بے نتیجہ رہی فوٹو : فائل

کپاس کی امدادی قیمت کے تعین اور زرعی شعبے کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے معاملے پر وزارتوں اور مختلف اسٹیک ہولڈز کے درمیان اختلافات بدستور برقرار ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی قیادت میں اسٹیک ہولڈرز نے جمعرات کو مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی جس میں کپاس کے کاشتکاروں کے لیے آئندہ سیزن میں کپاس کی مسابقتی قیمت کو یقینی بنانے کے مختلف طریقوں پر تبادلۂ خیال ہوا۔

ملاقات میں موجود افسران کے مطابق مشیرخزانہ نے وفد کو بتایا کہ وزارت خزانہ کے پاس کاشتکاروں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے اور ان سے کپاس کی خریداری کے لیے فنڈز مختص کرنے کی مالیاتی گنجائش نہیں ہے، اس کے بعد فریقین کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکے۔


ذرائع کے مطابق مشیرخزانہ نے اسٹیک ہولڈرز سے کہا کہ کپاس کے کاشتکاروں کو کسی بھی مالیاتی چھوٹ کی قیمت دوسروں کو چکانی پڑے گی کیوں کہ حکومت کے پاس ریلیف دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ وزارت برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کپاس کی کم از کم امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنے اور کاشتکاروں سے 5لاکھ گانٹھیں خریدنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم گندم اور گنے کی خریداری جیسے اقدام کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر واجب الادا قرض بڑھ گیا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف بھی ایسے اقدام کا خاتمہ چاہتا ہے۔ کپاس کے اہم ترین خریدار آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ( اپٹما) کے نمائندے نے کپاس کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کی مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ قیمت مقرر کرنے کے بجائے اسے عالمی مارکیٹ کے ساتھ نتھی کردیا جائے۔ دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ مشیرخزانہ امدادی قیمت کو منجمد کرنے کے مخالف ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
Load Next Story