گلشن اقبال کالج میں99داخلے میرٹ کے برعکس اور 267مشکوک قرار

267 مشکوک قرار، میرٹ کیخلاف داخل طلبہ کا دیگر کالجز میں تبادلہ کیا جائے، رپورٹ


Safdar Rizvi September 06, 2019
میٹرک فیل طلبا کے بھی داخلے، کالج پرنسپل معطل، ڈی ڈی او شپ کے اختیارات ختم فوٹو: فائل

کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے لیے قائم "سندھ الیکٹرونک سینٹرلائزڈ کالج ایڈا یشن پروگرام" SECCAP کے تحت گزشتہ برس 2018/19کی طے کردہ میرٹ سے کم مارکس پرایڈمیشن دیے جانے کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں اورتحقیقاتی کمیٹی نے گلشن اقبال کالج میں طے شدہ میرٹ سے کم مارکس پر99طلبہ کوداخلے دیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے مزیدانکشاف کیاہے کہ اسی کالج میں 267مزیدایسے داخلے سامنے آئے ہیں کہ جن کی میرٹ مشکوک ہے جبکہ کالج نے اختیارات کے بغیر میٹرک میں فیل طلبہ کوبھی ضمنی (سپلیمنٹری)امتحانات پاس کرنے کی شرط پرداخلے دے دیے ہیں جس کاکالج مجاز ہی نہیں تھا.

کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہاہے کہ میرٹ سے کم مارکس پردیے گئے 99داخلوں کواس گورنمنٹ ڈگری سائنس اینڈکامرس کالج گلشن اقبال بلاک 7 سے فوری منسوخ کرکے متعلقہ طلبہ کوایسے کالجوں میں ٹرانسفرکردیاجائے جہاں ان کے مارکس طے شدہ میرٹ پرپورے اترتے ہیں اس کمیٹی کالج انتظامیہ کے خلاف مزیدکئی شکایات پر اپنی تحقیقات کادائرہ وسیع کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ کالج پرنسپل پروفیسرزبیدہ نسرین کوفوری معطل کرتے ہوئے انھیں شوکاز نوٹس جاری کیاجائے ان کوحاصل ڈی ڈی اوشپ کے اختیارات ڈائریکٹرکالجز کراچی کے سپرد کیے جائیں 2017/18کے بجٹ کے حوالے سے repair and maintenance کے مد میں حاصل 2.88ملین روپے،گرانٹ 0.67ملین روپے اوراضافی 2ملین ریوائز بجٹ کے سلسلے میں کالج کاانٹرنل آڈٹ کرایاجائے کالج سے تمام غیرتدریسی عملے کاتبادلہ کیاجائے اورساتھ ساتھ کالج کے اسسٹنٹ پروفیسرمحمد انیس اورلیکچررعبدالغفارکھلوڑکے تبادلے کی سیکریٹری کالج ایجوکیشن سے سفارش کی جائے جبکہ کالج میں نئی داخلہ کمیٹی ریجنل ڈائریکٹرکی زیرنگرانی بنائی جائے اورمعاملے پر کارروائی کے لیے اسے سیکریٹری کالج ایجوکیشن کوبھجوایاجائے اس سلسلے میں تحقیقات کرنے والی کمیٹی میں ڈائریکٹرفنانس ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجزسندھ پروفیسرصالح عباس،ڈائریکٹرانسپیکشن پروفیسرمراد علی راہیمو،ڈپٹی ڈائریکٹرانسپیکشن پروفیسرآفتاب احمد مہر اورڈپٹی ڈائریکٹرانسپیکشن ساجدہ پروین شامل تھیں اس کمیٹی نے گورنمنٹ ڈ گری سائنس اینڈ کامرس کالج گلشن اقبال بلاک 7کے حوالے سے تحقیقات کیں۔

یادرہے کہ چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی نے گلشن اقبال کالج میں "ایس ای سی سی اے پی"کی داخلہ پالیسی کے برخلاف داخلے دیے جانے کے معاملے کاتذکرہ کرتے ہوئے سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزکو16اگست 2019لکھے گئے ایک خط میں کہاتھاکہ سیشن 2018/19کے لیے گلشن اقبال کالج میں دیے گئے داخلوں کی اسکروٹنی سے یہ بات سامنے آئے ہے کہ یہاں 99داخلے میرٹ کے برعکس دیے گئے ہیں جبکہ یہ داخلہ پالیسی محکمہ تعلیم کی اسٹیرنگ کمیٹی کی منظوری کے بعد تشکیل دی گئی ہے قابل ذکرامریہ ہے گلشن اقبال کالج میں میرٹ کے برعکس دیے گئے ان داخلوں کوکئی ماہ تک پوشیدہ رکھنے کے بعد چیئرمین انٹربورڈ اسے ریکارڈپرلائے ہیں جبکہ یہ داخلے گزشتہ برس ستمبر2018میں دیے گئے جبکہ ڈائریکٹرکالجز کراچی ریجن نے چیئرمین انٹربورڈ کراچی کو 11اکتوبر2018میں ہی ایک خط لکھ کرکہاتھاکہ SECCAP کی جانب سے طے کردہ میرٹ کے برخلاف اگرکسی کالج میں داخلوں کامعاملہ سامنے آئے توانھیں انرولمنٹ نہ دی جائے اورمزیدکارروائی کے لیے اس کی تفصیلات ڈائریکٹرکالجز کراچی کوبھجوائی جائیں تاہم گزشتہ برس اکتوبرمیں لکھے گئے اس خط کے باوجود انٹربورڈ کراچی نے کسی قسم کی معلومات محکمہ کالج ایجوکیشن سے شیئرنہیں کی اورانٹربورڈ کراچی نے ناصرف ان طلبہ کوانرولمنٹ دی بلکہ میرٹ کے برخلاف داخلے لینے والے طلبہ کے امتحانات بھی لے لیے گئے تاہم جب گلشن اقبال کالج کی پرنسپل پروفیسرزبیدہ نسرین نے چیئرمین انٹربورڈ پروفیسرانعام احمد کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن میں شکایت درج کرائی توانٹربورڈ کراچی جواباًگلشن اقبال کالج میں میرٹ کے برعکس دیے گئے ان داخلوں کامعاملہ سامنے لایاقابل ذکرامریہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ بورڈ نے خلاف ضابطہ دیے گئے ان سیکڑوں داخلوں کی اطلاع متعلقہ اتھارٹی محکمہ کالج ایجوکیشن کودینے کے بجائے اپنی اتھارٹی محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزکودی جوکسی کالج کے خلاف کارروائی کامجاز ہی نہیں اہم بات یہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ بورڈ نے کالج میں خلاف ضابطہ داخلوں کی شکایت توکردی تاہم خود بورڈانتظامیہ نے ان طلبہ کوانرولمنٹ اورایکزامینیشن ایڈمٹ کارڈ جاری کرنے کی کوئی انکوائری کرائی اورنہ ہی ذمے داروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی

ادھر"ایکسپریس"کوان داخلوں کے سلسلے میں انٹربورڈ کراچی سے موصولہ معلومات کے مطابق سندھ الیکٹرونک سینٹرلائزڈ کالج ایڈا یشن پروگرام کے تحت گلشن اقبال کالج میں انٹرسال اول پری میڈیکل فیمیل کامیرٹ 691مارکس اورمیل کامیرٹ 625مارکس پر بند ہواتاہم 19طالبات اور3طلباء کوپری میڈیکل میں میرٹ سے کم مارکس پر داخلے دیے گئے اسی طرح پری انجینیئرنگ میں میل کے cut off marks665اورفیمیل کے 680تھے تاہم 33میل اور15فیمیل طلبہ کومیرٹ سے کم مارکس پر داخلے دیے گئے جنرل سائنس گروپ میں میل کے "کٹ آف مارکس"660اورفیمیل کے 669تھے یہاں 13میل اور8فیمیل کومیرٹ سے کم مارکس پر داخلے دیے گئے کامرس گروپ میں میل کی میرٹ 583مارکس پر جبکہ فیمیل کی میرٹ 536مارکس پر بند ہوئی اس گروپ میں 3میل اور5فیمیل طلبہ کومیرٹ سے کم مارکس پر داخلے دیے گئے ادھرتحقیقاتی کمیٹی نے جن 267مشکوک داخلوں کاانکشاف کیاہے ان میں 55پری میڈیکل،74کامرس،38سائنس جنرل اور100پری انجینیئرنگ گروپ میں داخلے دیے گئے ہیں ان داخلوں کے بارے میں بتایاجارہاہے کہ ان کی انرولمنٹ آخری روز علیحدہ سے کرائی گئی جس پر مزیدتحقیقات کی جارہی ہیں۔

یادرہے کہ یکم فروری 2019کواس کالج کے حوالے سے موصولہ شکایات پر محکمہ کالج ایجوکیشن نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی اوراس حوالے سے اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ پروفیسرمحمد سلیم نے جاری نوٹفیکیشن میں کہاتھاکہ یہ کمیٹی کالج میں بدعنوانی اورایڈمیشن نشستوں کی رقم کے عوض فروخت کی شکایات کی تحقیقات کرے گی جس کے بعد سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کالج سے حاصل ہونے والے تصدیق شدہ اورمعتبرریکارڈاوراساتذہ کے تحریری بیانات کی روشنی میں کمیٹی اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ کالج پرنسپل پروفیسرزبیدہ نسرین عادی مجرم ہیں اورتخریبی سرگرمیوں،ہدایت سے حکم عدولی،"misconduct"اورکرپشن میں ملوث ہیں تحقیقاتی رپورٹ میں واضح کیاگیاہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے آرڈر CP No D-7158/2017میں محض کالج پرنسپل کاتبادلہ روکنے کے احکامات دیے تھے تاہم ایساکوئی آرڈرعدالت کی جانب سے جاری نہیں ہواجس میں پرنسپل کے خلاف محکمہ کالج ایجوکیشن کوانتظامی کارروائی سے روکاگیاہے

رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ دوران انکوائری اورکمیٹی کی جانب سے کالج کے دورے کے دوران پرنسپل کالج کوجوسوالنامے دیے گئے تھے"ان میں (SECCAP)کی داخلہ پالیسی کی خلاف ورزی،داخلہ نشستوں کی غیرقانونی فروخت،مختص نشستوں سے زائد پر داخلے،میرٹ سے کم مارکس کے حامل طلبہ اورفیل طلبہ کوداخلے دیے جانے،بجٹ کی یوٹیلائزیشن،ریوائزبجٹ کااستعمال،تدریسی عملے اورطالبات کودھمکانے اورپریشان کرنے"سے متعلق شکایات کے حوالے سے سوالات شامل کیے گئے تھے جس کے حوالے سے پرنسپل نے جوابات دینے سے انکارکردیاجس کے بعد کمیٹی نے کالج کے خواتین تدریسی عملے سے ملاقات کی جنھوں نے متفقہ طورپرمذکورہ شکایات کی تصدیق کی اورباقاعدہ ایک تحریری بیان پر دستخط بھی کیے جس میں دعویٰ کیاگیاکہ بوٹنی کے اسسٹنٹ پروفیسرمحمد انیس پرنسپل کی ایما پر فیکلٹی اراکین کوڈراتے دھمکاتے اورانھیں جسمانی اذیت تک دیتے ہیں جبکہ کامرس کے لیکچررعبدالغفار کلوڑ،لیب اسسٹنٹ شاہدہ منگی اورچوکیدارمحمد اختراساتذہ کوڈرادھمکاکران سے رقم وصول کرتے ہیں تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کالج کے خواتین تدریسی عملے نے کمیٹی کومزیدبتایاکہ کالج میں غیرمتعلقہ افرادکی موجودگی اورپرنسپل کے ساتھ ان افراد بے تکلفی اور"گرلز سیکشن"میں ان افراد کی آمدورفت عام بات ہے جبکہ ان غیرمتعلقہ افرادکی مجرمانہ سرگرمیوں اورکالج کی حدودمیں طالبات کوجنسی طورپرہراساں کرنے میں پرنسپل کامکمل تعاون حاصل ہے رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے اس بات کوخود محسوس کیاکہ ان کی موجودگی میں غیرمتعلقہ لڑکوں کاگروپ کالج میں موجود تھاتاہم جب کمیٹی نے ان سے بات کرنی چاہی تویہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے کمیٹی نے کالج کے مرد تدریسی عملے سے بات کی ان اساتذہ نے بھی کالج میں قابل اعتراض یاغلط کاموں کے الزامات کوتحریرمیں لاکراس پر دستخط بھی کیے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ کامرس کے لیکچررعبدالغفار کلوڑ نے بھی کمیٹی کے سامنے اسی طرح کابیان ریکارڈ کرایاہے کالج کے ڈی پی ای حارث شعیب نے کمیٹی کودیے گئے اپنے بیان میں کہاہے کہ کالج پرنسپل ان سے اپنے ذاتی کام لیتی ہیں اوران کے ساتھ نازیبازبان کااستعمال کرتی ہیں اوراس حوالے سے انھوں نے کمیٹی کوایک "وائس کلپ"بھی پیش کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق غیرتدریسی عملے میں شامل شاہدہ منگی نے کمیٹی کوتحریری بیان دینے سے انکارکیاجبکہ کومل رابیل سنجرانی،راشد نبی اورمحمد راشد نے کمیٹی کوتحریری بیان دیے ہیں تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کمیٹی نے اس سلسلے میں کئی والدین اورطلبہ سے بھی ملاقات کی اوران کے بیانات ریکارڈکرنے کی کوشش کی تاہم ان والدین اورطلبہ کاموقف تھاکہ کالج میں انھیں غیرمتعلقہ افرادکی جانب سے ڈرایااوردھمکایاجارہاہے جس کے بعد انھیں ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز کے دفترمیں بلایاگیااوروہاں کئی درجن طلبہ اوران کے والدین نے پہنچ کرکمیٹی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈکرائے جس میں انھوں نے پرنسپل کے متعلق شکایات کی کہ پرنسپل زبیدہ نسرین ان سے غیرقانونی طورپرداخلہ فیس وصول کررہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے کالج کی عمارت کاجائزہ بھی لیاجس کے بعد مشاہدے میں یہ بات آئی کہ کالج میں بجلی اورپانی سمیت کسی قسم کی بنیادی سہولت موجودنہیں کالج کے دفاتر،اسٹاف رومز، فرنیچر،فکسچرز،کلاس رومز اوربیت الخلاء خستہ حال اورٹوٹ پھوٹ کاشکارہیں اورکمیٹی کوکالج میں کہیں بھی سالانہ بجٹ اوراس کے بعد ریوائز بجٹ کا استعمال عملی طورپر نظرنہیں آیا۔

قائم مقام ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ پروفیسرعبدالحمید چنڑنے "ایکسپریس"کے رابطہ کرنے پر موقف اختیارکیاکہ میرٹ کے برعکس داخلوں اورگلشن کالج میں دیگربدانتظامیوں اورکرپشن کی رپورٹ تیارکرلی گئی ہے یہ رپورٹ اب سیکریٹری کالج ایجوکیشن کوپیش کی جائے گی رپورٹ کے متعلق سوال پر ان کاکہناتھاکہ میں نے رپورٹ تفصیلاًپڑھی نہیں ہے رپورٹ پر کارروائی کے حوالے سے کیے گئے سوال پران کاکہناتھاکہ وہ دوایک روزمیں رپورٹ پڑھ کرکچھ کہہ سکیں گے۔

ادھرچیئرمین انٹربورڈ پروفیسرانعام احمد نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ امتحان سے کچھ قبل آخری وقت میں اس طرح کے داخلیآتے ہیں ان کی انرولمنٹ بھی آخری وقت میں ہی آتی ہے اسی لیے ہم آخری وقت میں ایکزامینیشن فارم وصول کرنے کے خلاف ہیں جب ان کاریکارڈ"مینول"سے کمپیوٹرمیں فیڈ ہوتاہے توہم ایسے داخلوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے سرکاری اداروں کے طلبہ کی فیس ختم کردی ہے ان کابینک چالان یاواؤچرنہیں ہوتاجس سے یہ داخلہ کب دیے گئے اس کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے "ایکسپریس"کے اس سوال پر کہ کیابورڈ فارم وصول کرتے وقت ان فارمزپرتاریخ کی مہربھی نہیں لگاتاچیئرمین بورڈ کہناتھاکہ مہرتولگتی ہے تاہم ہزاروں فارم میں فوری نشاندہی مشکل ہوجاتی ہے۔

پرنسپل کالج کا موقف

ایکسپریس کے رابطہ ہ کرنے پر گورنمنٹ ڈگری کالج گلشن اقبال بلا ک 07 کی پرنسپل پروفیسر زبیدہ نسرین کا کہنا تھا کہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر اسلم چوہان کا میرے پاس فون آیا تھا اور انہوں نے ڈیمانڈ کی تھی کہ 110 طلبہ کی امتحانی کاپیاں بھیج رہے ہیں انہیں اچھے مارکس سے پاس کردیں جس پر میں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے جو طلبہ نے کاپیوں میں لکھا ہے مارکس بھی اسی تناسب سے دیئے جائیں گے،جس کے بعد چیئر مین انٹربورڈ نے میرے خلاف یہ خط لکھ دیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ داخلے جعلی ہیں توانٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیئر مین کو کئی ماہ بعد یہ خیال کیوں آیا ۔اس سے پہلے بھی انٹرمیڈیٹ بورڈ ہمارے کالج میں امتحانی مرکز قائم کرکے وہاں دوعلیحدہ کلاس رومز میں من پسند طلبہ کی امتحانی کاپیاں پُر کروانا چاہتاتھا جس سے ہم نے انکارکردیا۔

ایکسپریس کے سوال پر کہ کیا یہ داخلے جعلی ہیں کہ نہیں پروفیسر زبیدہ نسرین کا کہنا تھا کہ کالج میں جو کچھ ہورہاہے سب کی ذمہ دارمیں نہیں ہوں۔ممکن ہے یہ داخلے کسی طلبہ تنظیم نے کردیئے ہوں۔پروفیسر زبیدہ نسرین پر لگے دیگر الزامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب کمیٹی نے وزٹ کیا تو کچھ کلاس رومز بند تھے ،کمیٹی نے لاتیں مارکردروازے تھوڑنے کی کوشش کی اور ویڈیوکیمرے سے موی بھی بنائی۔

ایکسپر یس کے سوال پر کہ کیا کالج میں طالبات اور خواتین اساتذہ کو ہراساں کئے جانے کی شکایات ہیں ،پرنسپل نے کہا کہ میں ایساکیسے کرسکتی ہوں میرے لئے تو ساری طالبات اور ساری خواتین اساتذہ ایک جیسی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔