عہد حاضر میں ترقی کا راستہ
ہمیں اب اپنا مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے اپنے جغرافیائی محل وقوع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
لاہور:
صنعتی انقلاب کے بعد دنیا نے تیزی کے ساتھ سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ارتقاء کی منازل طے کی ہیں۔ گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، تقریباً چالیس سال دنیا سوشلسٹ اورکیپیٹلسٹ بلاکوں میں منقسم رہی، جہاں شدید سرد جنگ جاری رہی ، چین سمیت کئی ممالک میں انقلاب آئے ، نئے ممالک خود مختار حیثیت میں وجود میں آئے، برصغیر کی آزادی کی صورت میں یہاں بھارت اور پاکستان قائم ہوئے، پھر پاکستان سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا اور اس نے ایک الگ ملک بنگلہ دیش کے طور پر شناخت حاصل کی ۔
گزشتہ صدی میں آزادی حاصل کرنے والے کئی ممالک نے سیاسی استحکام اور سیاسی تسلسل کے نتیجے میں بے مثال ترقی کی ہے، جن میں ہمارے خطے کے ممالک چین ، بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ چین نے تو حیرت انگیز ترقی کرتے ہوئے پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ آج ساری دنیا چین کی ترقی کی مثالیں دیتی ہے جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی تیز رفتار معاشی ترقی نے بھی دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ 70کروڑ عوام کی مڈل کلاس رکھنے والا بھارت آج اسلامی امہ سمیت پوری دنیا کی دلچسپی کا محور اور ناقابل فراموش حیثیت کا حامل ہے کیونکہ یہ سب سے بڑی مارکیٹ ہے جس میں خریداروں کی کمی نہیں ہے۔
دنیا کے ممالک رنگ ، نسل ، مذہب اور عقیدہ کی بندشوں سے آزاد اپنے معاشی اور تجارتی مفادات کی بناء پر بھارت کو غیر معمولی اہمیت دینے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اورآبادی کے اضافے پرکنٹرول ، مستقبل کے خوشحال بنگلہ دیش کا پتہ دیتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہم من الحیث القوم ایسے دور رس فیصلے کرنے میں ناکام رہے اور ہم اپنے ملک میں ایسا سیاسی اور معاشی مستحکم نظام نہیں لا سکے جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں بھی اس طرح کے مظاہر سامنے آتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہماری ریاست نے ترقی کے سفرکا آغاز کیا بھی تو ہم نے ہی سازشیں کر کے اسے روک دیا۔
ہم نے قومی ترقی کے بجائے اپنی خواہشات کے بت تراشے اور پھر جب چاہا انھی بتوں کو توڑ دیا۔ اپنی اس کاری گری اور صناعی پر خود ہی داد وتحسین حاصل کرتے رہے ، یہاں تک کہ ہماری ریاست معیشت کی دوڑمیں بہت پیچھے رہ گئی، ہم مقروض ہوتے چلے گئے۔ ہماری معاشی آزادی اور خود مختاری تک غیروں کی مرہون منت ٹھہری اور ہم دنیا کی نظروں میں بے توقیر ہوتے چلے گئے۔اس کے باوجود قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم آج بھی اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور چونکہ غلطی کو ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو پھر اسے درست کرنے کا کیا سوال ؟ لہذا من الحیث القوم ہم بضد ہیں کہ ہمارے ماضی کے تمام فیصلے درست ہیں اور ہم ٹھیک سمت میں سفرکررہے ہیں۔
5 اگست کے بھارتی اقدام اور اس پر اسلامی امہ سمیت پوری دنیا کے رد عمل نے ہمیں بہت کچھ سمجھا دیا ہے اور اس حقیقت کو آشکارکر دیا ہے کہ جب تک ہم معاشی اور سیاسی استحکام حاصل نہیں کرینگے دنیا کا طرز عمل ہمارے ساتھ ایسا ہی رہے گا جیسا کہ اس وقت ہے کیونکہ آج کی مفادات کی دنیا میں مضبوط معیشت اور تجارتی صلاحیت قوموں اور ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کی بنیاد ہیں۔ نہ کوئی ملک کسی ملک کا مستقل دوست ہے اور نہ ہی مستقل دشمن، یہ معاشی مفادات ہیں جو دوست یا دشمن ہونے کا تعین کرتے ہیں۔
دنیا سرد جنگ کے عہد سے گزر چکی ہے یہ سرد جنگ کا دور نہیں کہ جب دنیا دو بلاکوں میں منقسم تھی چھوٹے ممالک دو عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک عالمی طاقت کے نظریات یا مفادات کی بناء پر اس کے ہم خیال ہوتے اور پھر اسی عالمی طاقت سے اپنے معاشی خسارہ اور دفاع سمیت تمام ضروریات کوپورا کروا لیا کرتے تھے۔
اب یونی پولر ورلڈ کا زمانہ ہے اور دنیا کے سارے ممالک اپنی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق اس نظام میں اپنا حصہ ڈال کر اپنا منافع نکال رہے ہیں اور حصہ بقدر جثہ کے مقولے کے تحت مفادات سمیٹ رہے ہیں۔آج کی جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کے تحت دنیا کے بیشتر ممالک کو تجارتی طور پر جوڑا جا رہا ہے۔
اقتصادی اور معاشی طور پر مستحکم دنیا کے بڑے ممالک کی کوشش ہے کہ دنیا میں تجارتی سطح پر ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے، ان کے مابین تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کروایا جائے اور اس کے علاوہ ان ممالک کے اندر موجود تمام تضادات واختلافات کو بھی ختم کروایا جائے تاکہ دنیا پوری یکسوئی کے ساتھ اس خطہ میں تجارت کے ذریعے معاشی واقتصادی مفادات حاصل کر سکے۔
یونی پولر ورلڈ کے قیام کے بعد آج ساری دنیا کے یکساں مفادات ہیں، تجارت کا فروغ اورمعیشت و اقتصادیات کا استحکام ، اب اس اصول کی راہ میں جو حائل ہو گا، دنیا اس ملک یا قوم پر سچے جھوٹے مختلف نوعیت کے مختلف الزامات لگا کر اسے عالمی سطح پر تنہائی کا شکارکردیگی اور اسے پسپائی پر مجبورکر دیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل اطمینان ہے کہ قدرت نے ہمیں جغرافیائی اعتبار سے ایسا محل وقوع عطا کیا ہے اور ہمیں ایسے موسموں سے نوازا ہے کہ ہم آج بھی دنیا کی ضرورت ہیں۔
ہمیں اب اپنا مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے اپنے جغرافیائی محل وقوع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، ہمیں ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے جس میں ایک جانب ہمیں بیروزگاری اورغربت کم کرنے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب بھاری زر مبادلہ بھی حاصل ہوسکے گا۔
عہد حاضر میں ترقی حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم ملک میں حقیقی جمہوریت نافذکرکے عوام کے حقیقی نمایندوں کو اقتدار منتقل کریں۔ ریاست کے تمام اداروں کو ہر قسم کے دبائو سے مکمل آزادکریں، غیر ضروری بندشوں کا خاتمہ کریں اور سرمایہ دار دوست ماحول مہیا کریں تاکہ قومی سرمایہ دار ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہو اور بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کرے۔
اسی طرح ہم دنیا کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں ، مزید یہ کہ تجارت ومعیشت کے فروغ کے ذریعے قوم کو خوشحال اور پاکستان کو مستحکم بنیادیں فراہم کی جاسکتی ہیں ، اگرہم اپنا وقت اسی طرح تجربات میںضایع کرتے رہے تو ایک روشن اور تابناک پاکستان کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔