کچرا سیاست اور مصطفیٰ کمال
کچرا سمیت کراچی کے دیگر مسائل کا حل نہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے جب کہ یہ شہر ملک کی معاشی شہ رگ ہے۔
ISLAMABAD:
کراچی میں اس وقت کچرے کی سیاست زوروں پر ہے ، مگر اسے ماضی کے حالات سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ سیاست کے پردے میں کھلی دہشت گردی نظر آتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ کراچی ابھی تک دہشت گردی سے پاک نہیں ہوا ہے۔ پہلے مار دھاڑ اور ہڑتالوں کے ذریعے عوام کو ٹینشن میں رکھا جاتا تھا اب جان بوجھ کر شہرکوگندگی کی نذرکرکے عوامی ٹینشن کو مزید آگے بڑھایا جارہا ہے۔
میئرکراچی وسیم اختر بار بار اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ موجودہ اختیارات کے تحت اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتے تو انھیں اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجانا چاہیے۔اب اسے ان کی غفلت یا عدم دلچسپی کا شاخسانہ ہی کہا جائے گا کہ شہر میں صفائی کی صورتحال دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ساتھ ہی دوسرے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
عیدالاضحی اور برسات کے بعد تو شہر میں قیامت کا منظر ہے۔ ہر طرف گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کے فقدان کی وجہ سے شہر میں مکھیوں اور مچھروں نے یلغارکردی ہے۔ خاص طور پر مکھیوں نے تو شہر پر قبضہ ہی جما لیا ہے۔گندگی کی وجہ سے شہر میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ڈینگی جیسے جان لیوا مرض سے شہر میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ شہری صفائی کے لیے چیخ رہے ہیں مگر نہ شہری اور نہ ہی سندھ حکومت عوام کی فریاد سننے کو تیار ہیں۔
شہریوں کی آہ و بکا کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال سے برداشت نہ ہوسکی اور انھوں نے وسیم اخترکو اپنی ذمے داریوں کا احساس دلاتے ہوئے شہر کو نوے (90) دن میں گندگی سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ وسیم اختر جیسے کہ پہلے سے ہی ان کی جانب سے ایسی آفر کے انتظار میں تھے انھوں نے مصطفیٰ کمال کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے فوراً کے ایم سی کا پروجیکٹ ڈائریکٹرگاربیج مقررکردیا۔
ان کا خیال تھا کہ مصطفیٰ کمال چونکہ پہلے میئرکے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اس لیے وہ چھوٹا عہدہ اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے ہرگز قبول نہیں کریں گے اس طرح ان کی عوام میں بے عزتی ہوسکتی ہے اور وہ کہہ سکیں گے کہ انھوں نے تو مصطفیٰ کمال کی خواہش کے مطابق کچرا اٹھانے کا اختیار دے دیا تھا مگر وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وسیم اختر نے بہت سوچ سمجھ کر یہ چال چلی تھی مگر اس وقت ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب مصطفیٰ کمال نے ان کی آفرکو قبول کرلیا۔
مصطفیٰ کمال نے رات دو بجے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کراچی کے عوام کی خدمت کرنے کے لیے یہ مشکل آفر قبول کررہے ہیں وہ رات دن عملے کے ساتھ کام کریں گے نہ کسی کو سونے دیں گے اور نہ خود سوئیں گے۔ انھوں نے وسیم اختر سے مطالبہ کیا کہ انھیں کچرا اٹھانے والے اسٹاف کی فہرست، ان کی تنخواہوں کا ریکارڈ، گاڑیوں کی بمعہ ایندھن تفصیل فراہم کی جائے ساتھ ہی اس شعبے کے تمام اخراجات کی تفصیل بھی مہیا کی جائے۔
انھوں نے وسیم اختر کا شکریہ ادا کیا مگر یہ بھی کہا کہ انھوں نے کچرا اٹھانے کا اختیار دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ میئر کے منصب کے اہل نہیں ہیں انھیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال کی یہ باتیں سن کر وسیم اختر کی ساری خوش فہمی پریشانی میں بدل گئی اور انھوں نے منگل کی صبح سویرے ہی ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے مصطفیٰ کمال کو ڈائریکٹر گاربیج کے عہدے سے معطل کردیا۔
نوٹی فکیشن میں لکھا کہ مصطفیٰ کمال نے اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوز کیا چنانچہ ان کی خدمات کو فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کی نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھا کر اس کو سیاست میں تبدیل کردیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
وسیم اختر کی اس ڈرامائی کارروائی پر پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے میئر کراچی کے چیلنج کو قبول کرنے سے ثابت ہوا کہ مسئلہ اختیارات کا نہیں نیت کا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈ کی جنگ شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے "Wasim Akhter Should Resign" کا ٹرینڈ ٹوئیٹر پر پہلے نمبر پر آ پہنچا۔ اس پورے واقعے کو ایک صارف نے اداکار انیل کپور کی مشہور فلم ''نائک'' سے جوڑ دیا۔
اس فلم میں انیل کپور، امریش پوری کا چیلنج قبول کرکے ان کی جگہ ایک دن کے لیے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھال لیتا ہے۔ وہ اپنی بہترین انتظامی صلاحیتیں دکھانے کے ساتھ ساتھ امریش پوری کی تمام کرپشن اورکرتوتوں کا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ اکثر لوگوں نے اپنی ٹوئیٹس میں یہی شکوہ کیا کہ وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کی جانب سے کچرا اٹھانے کے مشکل کام کو شروع کرنے پر رضامندی ظاہرکرنے کے باوجود چند گھنٹے بعد ہی انھیں کیوں معطل کر دیا گیا؟
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وسیم اختر دراصل مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس میں ان سے کیے گئے مطالبات سے گھبرا گئے کہ کہیں وہ ان سے حساب کتاب مانگ کر ان کی پول نہ کھول دیں چنانچہ وسیم اختر کے پاس انھیں معطل کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔
اس دن شہر میں عوام وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کے درمیان ہونے والے ڈرامے پرگفتگو کرتے رہے مگر اس سے عوام پر یہ تاثر واضح ہوگیا کہ مصطفیٰ کمال اب بھی عوام کی خدمت کرنے کے لیے بے تاب ہیں وہ کراچی کے شہریوں کی جس طرح پہلے خدمت کرچکے ہیں وہ اب اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمت کے لیے خود کو پیش کرنا چاہتے ہیں جب ہی تو انھوں نے موجودہ نامساعد حالات کے باوجود بھی وسیم اختر کے چیلنج کو قبول کرلیا اور اس طرح شہریوں کے دل جیت لیے جب کہ وسیم اختر انھیں فوراً ہی معطل کرکے عوامی سوالوں کی زد میں آگئے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ وہ وسیم اختر کی آفر کو قبول کرنے کے بعد کچرے کی صفائی شروع کرنے کے لیے فوراً ہی اصغر علی شاہ اسٹیڈیم پہنچے مگر وہاں کے ایم سی کے حکام نہیں آئے جب کہ مصطفیٰ کمال کے ہزاروں ساتھی صفائی کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں پہنچ چکے تھے۔ یہ واقعہ جو ایک ڈرامے سے زیادہ نہ تھا ، وسیم اختر کے لیے وبال جان بن گیا ہے ایک طرف ان پر شہریوں کے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں تو دوسری جانب خود ان کی اپنی پارٹی نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کی سینٹرل کمان نے ان کے اس فیصلے پر سخت ناراضگی دکھائی ہے اورآئندہ پارٹی کی مشاورت کے بغیر کوئی غیر معمولی قدم اٹھانے سے منع کیا ہے۔
کچرا سمیت کراچی کے دیگر مسائل کا حل نہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے جب کہ یہ شہر ملک کی معاشی شہ رگ ہے۔ شروع سے ہی اس کی آمدنی سے پورا ملک پل رہا ہے مگر اس کے مسائل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل بچے دو فیصد کوٹے کی چکی میں پس کر بے روزگاری کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں پانی کی سخت قلت ہے بجلی اورگیس کی فراہمی کا بھی برا حال ہے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی گمبھیر ہے گویا یہ شہر شہر مسائل بنا ہوا ہے۔ سندھ حکومت کو چھوڑیے وفاقی حکومت بھی اس کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
وفاق کی جانب سے شہر کی حالت کو درست کرنے کے لیے پیکیجز کے اعلانات تو ضرور ہوتے رہے ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کر رکھا ہے مگر بات وہی ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی کراچی والوں نے دل کھول کر ہمت افزائی کی ہے۔ اس نئی پارٹی نے حیرت انگیز طور پر قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں حاصل کی ہیں۔
عمران خان کراچی کے ہر دورے میں اس کے مسائل کا ضرور ذکر کرتے ہیں مگر افسوس کہ یہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اب تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ وسیم اختر کی جانب سے مصطفیٰ کمال کے ساتھ کیے جانے والے بھونڈے مذاق کے بعد اب کراچی کے شہریوں نے مسائل کے حل کے سلسلے میں مصطفیٰ کمال کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔
ایک تجزیہ کار کے مطابق ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ انھوں نے اختیارات اور اقتدار کے لالچ کو بالائے طاق رکھ کر عوامی خدمت کے لیے خود کو پیش کردیا۔ ان کا یہ مثالی کردارکراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرزکے لیے لمحہ فکریہ ہے خاص طور پر ان پارٹیوں کے لیے جنھوں نے کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کی ہیں اور مسائل کو حل کرانے کی یقین دہانی کرا کے ہی عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ پارٹیاں اب آیندہ الیکشن میں کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگیں گی؟
کراچی میں اس وقت کچرے کی سیاست زوروں پر ہے ، مگر اسے ماضی کے حالات سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ سیاست کے پردے میں کھلی دہشت گردی نظر آتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ کراچی ابھی تک دہشت گردی سے پاک نہیں ہوا ہے۔ پہلے مار دھاڑ اور ہڑتالوں کے ذریعے عوام کو ٹینشن میں رکھا جاتا تھا اب جان بوجھ کر شہرکوگندگی کی نذرکرکے عوامی ٹینشن کو مزید آگے بڑھایا جارہا ہے۔
میئرکراچی وسیم اختر بار بار اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ موجودہ اختیارات کے تحت اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتے تو انھیں اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجانا چاہیے۔اب اسے ان کی غفلت یا عدم دلچسپی کا شاخسانہ ہی کہا جائے گا کہ شہر میں صفائی کی صورتحال دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ساتھ ہی دوسرے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
عیدالاضحی اور برسات کے بعد تو شہر میں قیامت کا منظر ہے۔ ہر طرف گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کے فقدان کی وجہ سے شہر میں مکھیوں اور مچھروں نے یلغارکردی ہے۔ خاص طور پر مکھیوں نے تو شہر پر قبضہ ہی جما لیا ہے۔گندگی کی وجہ سے شہر میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ڈینگی جیسے جان لیوا مرض سے شہر میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ شہری صفائی کے لیے چیخ رہے ہیں مگر نہ شہری اور نہ ہی سندھ حکومت عوام کی فریاد سننے کو تیار ہیں۔
شہریوں کی آہ و بکا کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال سے برداشت نہ ہوسکی اور انھوں نے وسیم اخترکو اپنی ذمے داریوں کا احساس دلاتے ہوئے شہر کو نوے (90) دن میں گندگی سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ وسیم اختر جیسے کہ پہلے سے ہی ان کی جانب سے ایسی آفر کے انتظار میں تھے انھوں نے مصطفیٰ کمال کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے فوراً کے ایم سی کا پروجیکٹ ڈائریکٹرگاربیج مقررکردیا۔
ان کا خیال تھا کہ مصطفیٰ کمال چونکہ پہلے میئرکے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اس لیے وہ چھوٹا عہدہ اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے ہرگز قبول نہیں کریں گے اس طرح ان کی عوام میں بے عزتی ہوسکتی ہے اور وہ کہہ سکیں گے کہ انھوں نے تو مصطفیٰ کمال کی خواہش کے مطابق کچرا اٹھانے کا اختیار دے دیا تھا مگر وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وسیم اختر نے بہت سوچ سمجھ کر یہ چال چلی تھی مگر اس وقت ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب مصطفیٰ کمال نے ان کی آفرکو قبول کرلیا۔
مصطفیٰ کمال نے رات دو بجے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کراچی کے عوام کی خدمت کرنے کے لیے یہ مشکل آفر قبول کررہے ہیں وہ رات دن عملے کے ساتھ کام کریں گے نہ کسی کو سونے دیں گے اور نہ خود سوئیں گے۔ انھوں نے وسیم اختر سے مطالبہ کیا کہ انھیں کچرا اٹھانے والے اسٹاف کی فہرست، ان کی تنخواہوں کا ریکارڈ، گاڑیوں کی بمعہ ایندھن تفصیل فراہم کی جائے ساتھ ہی اس شعبے کے تمام اخراجات کی تفصیل بھی مہیا کی جائے۔
انھوں نے وسیم اختر کا شکریہ ادا کیا مگر یہ بھی کہا کہ انھوں نے کچرا اٹھانے کا اختیار دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ میئر کے منصب کے اہل نہیں ہیں انھیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال کی یہ باتیں سن کر وسیم اختر کی ساری خوش فہمی پریشانی میں بدل گئی اور انھوں نے منگل کی صبح سویرے ہی ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے مصطفیٰ کمال کو ڈائریکٹر گاربیج کے عہدے سے معطل کردیا۔
نوٹی فکیشن میں لکھا کہ مصطفیٰ کمال نے اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوز کیا چنانچہ ان کی خدمات کو فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کی نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھا کر اس کو سیاست میں تبدیل کردیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
وسیم اختر کی اس ڈرامائی کارروائی پر پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے میئر کراچی کے چیلنج کو قبول کرنے سے ثابت ہوا کہ مسئلہ اختیارات کا نہیں نیت کا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈ کی جنگ شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے "Wasim Akhter Should Resign" کا ٹرینڈ ٹوئیٹر پر پہلے نمبر پر آ پہنچا۔ اس پورے واقعے کو ایک صارف نے اداکار انیل کپور کی مشہور فلم ''نائک'' سے جوڑ دیا۔
اس فلم میں انیل کپور، امریش پوری کا چیلنج قبول کرکے ان کی جگہ ایک دن کے لیے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھال لیتا ہے۔ وہ اپنی بہترین انتظامی صلاحیتیں دکھانے کے ساتھ ساتھ امریش پوری کی تمام کرپشن اورکرتوتوں کا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ اکثر لوگوں نے اپنی ٹوئیٹس میں یہی شکوہ کیا کہ وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کی جانب سے کچرا اٹھانے کے مشکل کام کو شروع کرنے پر رضامندی ظاہرکرنے کے باوجود چند گھنٹے بعد ہی انھیں کیوں معطل کر دیا گیا؟
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وسیم اختر دراصل مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس میں ان سے کیے گئے مطالبات سے گھبرا گئے کہ کہیں وہ ان سے حساب کتاب مانگ کر ان کی پول نہ کھول دیں چنانچہ وسیم اختر کے پاس انھیں معطل کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔
اس دن شہر میں عوام وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کے درمیان ہونے والے ڈرامے پرگفتگو کرتے رہے مگر اس سے عوام پر یہ تاثر واضح ہوگیا کہ مصطفیٰ کمال اب بھی عوام کی خدمت کرنے کے لیے بے تاب ہیں وہ کراچی کے شہریوں کی جس طرح پہلے خدمت کرچکے ہیں وہ اب اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمت کے لیے خود کو پیش کرنا چاہتے ہیں جب ہی تو انھوں نے موجودہ نامساعد حالات کے باوجود بھی وسیم اختر کے چیلنج کو قبول کرلیا اور اس طرح شہریوں کے دل جیت لیے جب کہ وسیم اختر انھیں فوراً ہی معطل کرکے عوامی سوالوں کی زد میں آگئے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ وہ وسیم اختر کی آفر کو قبول کرنے کے بعد کچرے کی صفائی شروع کرنے کے لیے فوراً ہی اصغر علی شاہ اسٹیڈیم پہنچے مگر وہاں کے ایم سی کے حکام نہیں آئے جب کہ مصطفیٰ کمال کے ہزاروں ساتھی صفائی کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں پہنچ چکے تھے۔ یہ واقعہ جو ایک ڈرامے سے زیادہ نہ تھا ، وسیم اختر کے لیے وبال جان بن گیا ہے ایک طرف ان پر شہریوں کے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں تو دوسری جانب خود ان کی اپنی پارٹی نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کی سینٹرل کمان نے ان کے اس فیصلے پر سخت ناراضگی دکھائی ہے اورآئندہ پارٹی کی مشاورت کے بغیر کوئی غیر معمولی قدم اٹھانے سے منع کیا ہے۔
کچرا سمیت کراچی کے دیگر مسائل کا حل نہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے جب کہ یہ شہر ملک کی معاشی شہ رگ ہے۔ شروع سے ہی اس کی آمدنی سے پورا ملک پل رہا ہے مگر اس کے مسائل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل بچے دو فیصد کوٹے کی چکی میں پس کر بے روزگاری کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں پانی کی سخت قلت ہے بجلی اورگیس کی فراہمی کا بھی برا حال ہے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی گمبھیر ہے گویا یہ شہر شہر مسائل بنا ہوا ہے۔ سندھ حکومت کو چھوڑیے وفاقی حکومت بھی اس کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
وفاق کی جانب سے شہر کی حالت کو درست کرنے کے لیے پیکیجز کے اعلانات تو ضرور ہوتے رہے ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کر رکھا ہے مگر بات وہی ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی کراچی والوں نے دل کھول کر ہمت افزائی کی ہے۔ اس نئی پارٹی نے حیرت انگیز طور پر قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں حاصل کی ہیں۔
عمران خان کراچی کے ہر دورے میں اس کے مسائل کا ضرور ذکر کرتے ہیں مگر افسوس کہ یہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اب تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ وسیم اختر کی جانب سے مصطفیٰ کمال کے ساتھ کیے جانے والے بھونڈے مذاق کے بعد اب کراچی کے شہریوں نے مسائل کے حل کے سلسلے میں مصطفیٰ کمال کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔
ایک تجزیہ کار کے مطابق ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ انھوں نے اختیارات اور اقتدار کے لالچ کو بالائے طاق رکھ کر عوامی خدمت کے لیے خود کو پیش کردیا۔ ان کا یہ مثالی کردارکراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرزکے لیے لمحہ فکریہ ہے خاص طور پر ان پارٹیوں کے لیے جنھوں نے کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کی ہیں اور مسائل کو حل کرانے کی یقین دہانی کرا کے ہی عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ پارٹیاں اب آیندہ الیکشن میں کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگیں گی؟