قرضوں کی معافی سخاوت یا اقربا پروری

ملک کی خوشحالی اورگڈ گورننس کی مد میں معیشت کے اُمور میں خرابیوں اور کوتاہیوں سے پاک نظام ہی دور حاضر کی سخت ضرورت ہے۔

ملک میں تبدیلی سرکار کی حکومت کے قیام سے ہی ملکی خزانے کے خالی ہونے کی آوازیں شدو مد سے بیان ہونے لگیں ۔ اوورسیز پاکستانیوں سے لے کر ملک کے غریب عوام تک سب سے قابل اطلاق یا ناقابل اطلاق ٹیکسز کی زبردستی وصولی کے ساتھ ساتھ بیرونی امداد اور بڑے پیمانے پر قرضہ جات کی ہنگامی پالیسی اختیار کی گئی ۔

سعودی عرب سے ادھار پر تیل لیا گیا ، آئی ایم ایف سے ملک کو تقریباً گروی رکھنے کے برابر جیسی کڑی شرائط پر قرضہ منظور کروالیا گیا ۔ پھر ملک میں 4مرتبہ بجلی و گیس کے نرخ بڑھائے گئے، پیٹرول کی قیمتیں تقریباً دوگنی کردی گئیں ۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کیا گیا ۔ شرح مہنگائی 5.84سے بڑھ کر 11.63ہوگئی ۔ جب کہ خود حکومتی معاشی ٹیم کی طرف سے مہنگائی 13فیصد تک جانے کے خدشات دکھائے جارہے ہیں ۔ پھر عوام کے اکاؤنٹس تک کوکھنگال دیا گیا ۔ ڈیم فنڈ کے نام پر عوام سے چندہ لیا گیا۔

امریکا سے امداد کی بحالی کے لیے اُن کے ناز اٹھائے گئے ، خطے میں جاری دہشت گردی اور افغان صورتحال پر اُن کے بیانیے اور شرائط کو تسلیم کیا گیا ۔ اور یہ سب ملکی خزانے کی کمی اور ریاستی و حکومتی اُمور کو چلانے پر آنیوالے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ۔ اب یہ علم نہیں کہ ان کے اخراجات پورے ہوگئے یا حکومت نے قناعت اختیار کرتے ہوئے اخراجات کم کر دیے کہ حکومت اور حکومتی اداروں کی جانب سے اب خزانے کے خالی ہونے کی باتیں نہیں ہوتیں ۔

اُلٹا اب افغانستان کو امداد کے طور پر گندم دی جاتی ہے اور ملک کے بڑے صنعتکاروں کو قرضے بھی معاف کرنے جیسی سخاوت کی جارہی ہے ۔لیکن یہ کیا کہ عوام کی تھوڑی سی تنقید پر پھر ایک مزید یوٹرن لیتے ہوئے دان کیے ہوئے ان قرضوں کی معافی روک دی گئی ہے ۔ اگر یہ حقیقی سخاوت ہوتی تو شاید تنقید نہ ہوتی لیکن عوامی تنقید ہوئی ہے۔ اورپھرتنقید ہوئی بھی تو واپسی کا اعلان کیوں ؟ کہیں تو سخاوت والی اس دال میں اقربا پروری کا کچھ کالاپن ہے !

پھر سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے جس حکومت نے ملکی بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے 3440ارب روپے کا قرضہ لیا ہو وہ بھلا صرف کچھ لوگوں کو 208ارب روپے نوازنے جیسی سخاوت کیسے اور کیوں کررہی ہے ؟ پھر یہ وہی جی آئی ڈی سی ہے جس پر نواز دور میں دھرنوں کے دوران عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ''یہ پیسہ ان کے باپ کا ہے ، جو یہ صنعتکاروں کو معاف کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔ یہ پیسہ ملک کے غریب عوام کا ہے ، اُنہی پر خرچ ہونا چاہیے ''۔ تو یہاں اُن کو یاد دلایا جاتا ہے کہ واقعی یہ پیسہ کسی کے باپ کا نہیں ، عوام کا ہے اور اسے عوام پر ہی خرچ کرنا چاہیے ۔

پھر ملک میں گیس سب سے زیادہ صوبہ سندھ سے پیدا ہوتی ہے ۔ ملک کے کُل 156تیل و گیس کے کنوؤں میں سے 121کنوئیں صوبہ سندھ میں ہیں اور ملک کی مجموعی آمدن میں 940ارب روپے کی وصولی بھی صوبہ سندھ سے ہوتی ہے جوکہ ملکی مجموعی آمدن کا 69فیصد بنتا ہے ۔ تو اس لحاظ سے گیس سیس سے حاصل ہونے والی رقم بھی صوبہ سندھ بالخصوص صوبہ کے دارالحکومت کراچی کی مخدوش حالت کو بہتر کرنے پر صرف ہونی چاہیے ۔

لیکن حکومت کی نیت اس پیسے کو عوام پر خرچ کرنے کی نہیں ہے ، اس لیے اگر اس معافی والے آرڈیننس پر یو ٹرن لیا بھی ہے تو وہ پیسے عوام پر خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ حسب معمول اس مسئلے کو عدالت بھیج دیا گیا یعنی معاملے کو طول دے دیا گیا ہے ۔ کیونکہ حکومت ان ''اپنے'' صنعتکاروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ۔ پھر ساتھ ہی وہ عوام کو ڈرا بھی رہے ہیں کہ عدالت میں جانا رسک ہے ، کیونکہ '' فیصلہ کسی کے بھی حق میں آسکتا ہے ''۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے یہ الفاظ خود ملک کی آئینی ، قانونی و اداراتی کمزوری کی طرف اشارہ ہیں ۔ پھر وزیراعظم اور ان کے وزراء کی جانب سے اس معاملے پر عجیب عجیب منطق و باتیں پیش کی جارہی ہیں ، جیسے وزیراعظم کو اس آرڈیننس سے متعلق علم نہیں تھا ، آرڈیننس پر وزیر اعظم کے دستخط نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اب ملکی و حکومتی اُمور سے بے خبر وزیر اعظم کو بھلا کوئی کیا کہے ؟

لیکن ملک میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ ملکی نظام کون چلا رہا ہے کہ ملکی معاملات کا وزیر اعظم تک کو پتا نہیں ہوتا ؟ پھر اس کی بھی جانچ ہونی چاہیے کہ جب تمام کاغذات و دستاویزات وزیر اعظم کے دستخط سے صدر کو ارسال کرنے کی پریکٹس رائج ہے تو یہ سمری ان کے دستخط کے بغیر حتی ٰ کے ان کی لاعلمی میں کیسے چلی گئی اور کس نے بھیجی ؟

گیس و تیل اور بجلی و کھاد کے چند صنعتکاروں کو گیس سیس کی دان کردہ اس رقم کا معاملہ اصل میں ہے کیا؟ گیس سیس کا اطلاق پہلی مرتبہ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج 1967کے ایکٹ کے تحت دیکھنے میں آیا ۔ اس ایکٹ میں مختلف اوقات میں ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ آخری ترمیم نواز لیگ کے دور ِ حکومت میں 2015میں ہوئی ۔

جی آئی ڈی سی کی موجودہ صورت دراصل پی پی پی حکومت کے دور میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج ایکٹ 1967کے ایکٹ میں ترمیم کرکے گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2011میں لاگو کی گئی ۔ جس کے تحت گھریلو و صنعتی دونوں ہی صارفین پر یہ ٹیکس لاگو کیا گیا ، جس کا مقصد اس سے حاصل ہونے والی رقم کو پاک ایران گیس پائپ لائین(TAPI) منصوبے پر خرچ کرنا تھا۔

اس پر پہلا تنازعہ تب سامنے آیا جب کے پی کے کے صنعتکاروں نے پشاورسپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور عدالت نے صوبہ میں جی آئی ڈی سی کا نفاذ صنعتکاروں پرمعطل کردیا ۔ پھر سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے بھی جی آئی ڈی سی کے صنعتکاروں پر اطلاق کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیکر معطل کردیا ۔ 2015میں نواز حکومت نے پی پی پی دور کے اس آرڈیننس میں ترمیم کرکے انڈسٹریز پر لاگو شرح کو کم کرکے اسے دوبارہ لاگو کیا۔

اس آرڈیننس کے دوبارہ اطلاق کی ابتدا ء میں کچھ انڈسٹریز نے جی آئی ڈی سی دینا بھی شروع کی لیکن بعد میں ن لیگ حکومت کی جانب سے سی این جی سیکٹر کو جب 50%معاف کردیا گیا تو باقی انڈسٹریز نے بھی جی آئی ڈی سی دینا بند کرکے معاملہ عدالت میں لے گئے اور اس پر' اسٹے 'لے لیا ۔ PTI کی حکومت کے آتے ہی وزیر خزانہ اسد عمر نے جی آئی ڈی سی کا ریٹ کم کرنے کا اعلان کیا ۔


لیکن پھر یکایک حسب روایت حکومت نے یوٹرن لیا اور ریٹ کم کرکے دوبارہ جی آئی ڈی سی وصول کرنے کے بجائے یہ ابہام پھیلایا کہ صنعتکار دوبارہ عدالت جائیں گے اور عدالت جی آئی ڈی سی پر انڈسٹریز کے حق میں فیصلہ دے گی اور حکومت کو پہلے سے جمع رقم بھی واپس کرنی پڑے گی۔ اس ابہام کی بنیاد پر حکومت نے انڈسٹریز کے کچھ ''چنیدہ'' لوگوں سے مذاکرات شروع کیے اور بالآخریہ معاملہ جی آئی ڈی سی کے انڈسٹریز پر خاتمے اور جمع شدہ رقم میں سے 208ارب روپے معاف کرنے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا ۔

ایک تو حکومت کی یہ سائنس ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ فیصلے کرتے ہوئے فخرکا اظہار کرنے کے بعد پھر فیصلوں کی واپسی کے یوٹرن کو بھی حکومت اپنا افتخار کس تھیوری کے تحت قرار دیتی ہے ۔

چیئرمین ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ہدف 90%حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن ملکی و عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملک کے مجموعی خسارے میں اضافے کی رپورٹس جاری ہوتی ہیں لیکن اگر اعداد و شمار کو بے بنیاد مان لیا جائے تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 90%آمدن کا ہدف حاصل ہونے کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف یا مراعات کیوں نہیں دی جارہی ہیں ؟ یہ تو کوئی گڈ گورننس نہیں ہوئی کہ جب ملک میں پیسے کی کمی ہو تو چندے سے اضافی ٹیکس تک، عوام سے لیا جائے اور جب پیسے کی فراوانی ہو تواُسے حکومت اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ مل کر آپس میں بانٹ لیا جائے ۔

مخالف جماعتوں اور معاشی تجزیہ کاروں کا الزام ہے کہ یہ تبدیلی سرکار کا ان کی حکومت بنانے میں سرمایہ لگانے والے کچھ صنعتکاروں کوتحفہ ہے جوکہ اقربا پروری کی بدترین مثال ہے ۔اور تو اور یہ فیصلہ ملک کی مجموعی صنعتوں کے استحکام کے حق میں بھی نظر نہیں آتاہے۔ جس کی مثال سی سی پی کا حالیہ اجلاس ہے جس میں ملک کی ایک اہم صنعت شوگر انڈسٹری کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ صنعتی پالیسی سے اس صنعت کے تمام و بنیادی فریقین کو فائدے کے بجائے صرف شوگر سرمایہ دار مافیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے ، جو من مانی اور قیمتوں میں اضافے سے اربوں روپے کی بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔ جب کہ اس ایگرو انڈسٹری کے بنیادی طبقے کاشتکار یا ایگرو شعبے کو نچوڑا جارہا ہے ۔

تبدیلی والی سرکار کا بھی عجب حال ہے ۔ وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایک آرڈیننس کی سمری بنتی ہے اور صدر مملکت کو بھیجی جاتی ہے ۔ صدر کی جانب سے اس سمری والا آرڈیننس لاگو ہوتا ہے اور میڈیا کی زینت بنتا ہے ۔ تنقید شروع ہونے پر پہلے حکومتی وزراء اس آرڈیننس کا دفاع کرتے ہیں اور جب معاملہ بڑھ جاتا ہے تو وزیر اعظم اپنی ہی تیار کردہ سمری اور آرڈیننس (یعنی اپنے ہی عمل) کا، معاملے کی خبر میڈیا سے ملنے کا کہہ کر نوٹس لے لیتے ہیں ۔

کوئی اُن سے پوچھے کہ جناب آپ کی اجازت کے بغیر کون یہ سب کر رہا ہے، اُس کے خلاف کوئی کارروائی یا انکوائری کا کوئی پروگرام ہے یا معاملہ ''مٹی پاؤ'' کہہ کر آگے بڑھ جانا ہے ؟ چونکہ یہ دراصل مختلف صنعتی و سپلائی اداروں کی جانب سے گیس سیس کے نام پر عوام سے وصول کردہ رقم ہے جو کہ ان صنعتی اداروں نے حکومت کو فراہم کرنی ہوتی ہے ۔ یہ رقم عوام سے تو وصول ہوتی رہی ہے لیکن حکومت کو نہیں ملتی اور صنعتکاروں کی جانب سے اسے گذشتہ 8-7سالوں سے الجھایا گیا ہے ۔

سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ جب ملک میں پارلیمنٹ موجود ہے اور حکومت خود کو اُس کے ماتحت ہونے کو تسلیم بھی کرتی ہے تو پھر کیوں حکومت کابینہ سمریوں کو ایوان میں بحث کے لیے پیش کرکے منظور کرانے کے بجائے براہ راست صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرکے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑا رہی ہے ۔

حالانکہ ملک میں گیس کی طلب میں اضافے کی بناء پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تاپی منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عالمی ، سفارتی و اداراتی سطح پر کوششیں کرکے اس منصوبے کو کسی صورت بحال کرواتی اور جی آئی ڈی سی سے متعلق عدالت میں مضبوطی سے کیس کا دفاع کرکے جی آئی ڈی سی کی جمع شدہ اس رقم کو TAPIمنصوبے کی تکمیل کی مد میں خرچ کرتی ، جوکہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے یقیناً بہتر قدم ہوتا لیکن حکومت نے تو لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے اور منصوبے کی تاخیر کا سبب بتاکر جی آئی ڈی سی کے خاتمے کا اعلان کردیا اور رقم کی بندر بانٹ کردی ۔

بہرحال فیصلہ حکومت کرے یا عدالت لیکن ایک بات قابل ِ غور ہے کہ یہ دونوں ہی ادارے ریاستی ستون ہیں اور ریاست کا اولین فرض مفاد ِ عامہ اور عوام کے حقوق کا تحفظ اور اُنہیں سہولیات کی فراہمی ہوتا ہے ۔ اس لیے اس معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جانا نہایت ضروری ہے کہ اگر انڈسٹریز پر جی آئی ڈی سی معطل کی جاتی ہے توپھر اس پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ گھریلو عام صارفین جن میں 70 فیصد غریب عوام شامل ہے ، پر یہ کیوں لاگو ہوئی اور کیوں وصولی کی گئی ، اور پھر اس وصول شدہ رقم کی اس غریب عوام کو کیوں واپسی نہیں ؟

حالت یہ ہے کہ ملک میں کروڑوں ملازمتیں دینے کی داعی جماعت کی پالیسیوں سے ملک میں 20لاکھ بے روزگار ہیں ، ٹیکسٹائل ، سیمنٹ ، اسٹیل انڈسٹری تباہ ہیں ، مفت علاج و تعلیمی اسکالرشپس ختم ، بجلی ، گیس ، تیل ادویات تین گنا مہنگی ، روپے کی قدر میں کمی ، مدینہ کے طرز پر ریاست چلانے کے دعویداروں کی حکومت میں سود کی شرح 7%سے بڑھ کر 13.75فیصد اور جی ڈی پی کی شرح 5.3سے 3.2تک گرگئی ہے۔ اور دوسری جانب حکومت صرف احتساب احتساب کے نعروں سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔

پھر جہاں تک بات ہے احتساب کی تو ملک میں موجود احتساب کے ادارے کی غیرجانبداری پر نہ صرف حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پی پی پی کی جانب سے نیب قوانین میں ترمیم کا ایک مسودہ جمع کرایا ہے بلکہ خود حکومت نے بھی نیب قانون میں ترمیم کا بل جمع کرایا ہے ۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں مل کر ملک میں انتقامی احتساب کے بجائے حقیقی معنوں میں شفاف و غیرجانبدارانہ احتساب کے لیے قانون سازی کریں۔

یہ اس لیے بھی لازمی ہے کہ آج دنیا بھر میں متحرک میڈیائی اداروں کی موجودگی اور ذرائع ابلاغ تک عوام کی آسان رسائی سے حکومت کے اُمور بالخصوص مالیاتی نظام اور اقتصادی اُمور پر گہری نظر رکھی جارہی ہے ۔ اس لیے کوئی بھی Mismanagementنظر سے اوجھل رہنا ناممکن ہے اور ہمارے ایک سینئر صحافی کے بقول کہ ''شفافیت اور جوابدہی کے کثیر جہتی معاملات نے طرز حکمرانی کو تنی ہوئی رسی پر چلنے سے تعبیر کردیا ہے''۔

اس لیے کسی بھی ملک کی خوشحالی اور گڈ گورننس کی مد میں معیشت کے اُمور میں خرابیوں اور کوتاہیوں سے پاک نظام ہی دور ِ حاضر کی سخت ضرورت ہے۔لیکن ہمارے یہاں ایک طرف ملک میں اسکالرشپ بند ہے ، نئی ملازمتوں پر پابندی ہے ، ایک طرف سرکاری گاڑیوں اور بھینسوں تک کی نیلامی کی جاتی ہے تو دوسری طرف اربوں روپے کچھ من پسند امیروں کو معاف کردیے جاتے ہیں ۔ پھر اگر معاف کیے ہی گئے ہیں تو وہ پیسے ملک کے زرعی شعبے سے وابستہ غریب کسانوں اور کاشتکاروں و عام صارفین تک پہنچائے جائیں کیونکہ زراعت کا شعبہ ہی ملک کی تمام صنعتی شعبوں کی بنیاد و ریڑھ ہے ۔

لیکن یہ ارب وکھرب پتی امیروں کی مافیا دراصل ملک پر اس قدر حاوی ہے کہ وقت کی حکومتیں بھی اُن کے آگے کوئی حیثیت رکھتی نظر نہیں آتیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ہی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ ملک برصغیر کے غریب و پسے ہوئے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا یا انگریز و دیگر بیرونی امیروں کی جگہ مقامی ارب و کھرب پتی طبقہ پیدا کر کے اُسے امیر سے امیر تر بنانے کے لیے قائم ہوا تھا ؟
Load Next Story