پاکستان کرکٹ کی بہتری کے خواب دیکھنے والا ابدی نیند سو گیا

عبدالقادر کی اچانک رخصتی نے پرستاروں، صحافیوں،اہم ملکی شخصیات اور دنیا بھر کے کرکٹرز کو افسردہ کردیا۔

عبدالقادر کی اچانک رخصتی نے پرستاروں، صحافیوں،اہم ملکی شخصیات اور دنیا بھر کے کرکٹرز کو افسردہ کردیا۔فوٹو: فائل

''فوج کی کمان کسی فوجی افسر کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے، کسی ہسپتال کے معاملات کوئی ڈاکٹر ہی چلا سکتا ہے،اسی طرح کرکٹ کو چلانے والے بھی کرکٹرز ہی ہونا چاہئیں،ہمارے ہاں سٹیڈیمز میں انکلوژرز تو سابق کرکٹرز سے منسوب کردیئے جاتے ہیں لیکن پی سی بی ان کو عزت دینا ضروری نہیں سمجھتا، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو جب تک ذمہ داریوں کے لیے درست شخصیات کی خدمات حاصل نہیں کی جاسکتیں، مسائل میں کمی نہیں، اضافہ ہی ہوگا۔''

عبدالقادر سے جب بھی ملاقات ہوئی،انہوں نے اپنی اس سوچ کو لفظوں کا روپ ضرور دیا لیکن کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ مجھے بھی خود عہدہ چاہیے،چیف سلیکٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہوئے اپنے بیٹے سمیت کسی کو فائدہ پہنچانے کا نہیں سوچا،ہمیشہ پاکستان اور ملکی کرکٹ کی بات کرتے رہے،ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہوجاتے کہ ماتھے سے پسینہ ٹپکنے لگتا۔

چند دروز قبل ہی ''روزنامہ ایکسپریس'' ایڈیٹر سپورٹس سلیم خالق نے ویڈیو لنک کے ذریعے ''کرکٹ پاکستان'' کے لیے انٹرویو کیا تو تکنیکی معاونت کے لیے ان کے گھر گیا، کیمرہ سیٹ ہونے سے قبل انہوں نے پاکستان میں موجود معاشرتی خرابیوں پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، افسوس کہ ہم دیانتداری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جڑوں کو خود ہی کھوکھلا کررہے ہیں،اپنی گفتگو کے دوران ہی عبدالقادر اٹھے اور الماری سے جلد بند کی گئی ایک کاپی اٹھالائے، اس میں درجنوں کالم نما تحریریں موجود تھیں،ایک ایک کرکے صفحہ پلٹتے ہوئے بتاتے رہے کہ اس میں پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے یہ تجویز دی ہے،اس میں عمران خان کے ویڑن کو سپورٹ کیا ہے،اب امید ہوچلی ہے کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ہوگا۔

میرا سوال تھا کہ کیا ان تحریروں کو شائع بھی کروایا ہے،انہوں نے کہا کہ اپنے حلقہ احباب میں ان کی کاپیز تقسیم کرتا ہوں،اس پر بات بھی ہوتی ہے، یہ کام مشن سمجھ کر کرتا اور امید رکھتا ہوں کہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہوگی، میں نے مشورہ دیا کہ آپ سچ بولتے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کریں تو آپ کی بات زیادہ لوگوں تک پہنچ پائے گی،انہوں نے کہا کہ ان معاملات میں میرا علم نہ ہونے کے برابر ہے، کسی روز میرے گھر آئیں، بیٹھ کر بات کرتے ہیں، یوٹیوب چینل کس طرح بنتا ہے، اگر کوئی میرے ساتھ کام کرے تو اس سلسلے میں پیش رفت ہوسکتی ہے،میرا جواب تھا کہ جلد وقت نکال کر آپ کی رہنمائی کردوں گا۔


عبدالقادر سے آخری ملاقات 28 اگست کو ٹیسٹ میچز کا ورلڈریکارڈ بنانے والے امپائر علیم ڈار کی تقریب پذیرائی میں ہوئی،بڑے نکھرے، نکھرے اور جوان نظر آرہے تھے، زلفیں بھی معمول سے زیادہ لمبی اور ان پر تازہ سیاہ رنگ چڑھایا ہوا تھا،میں نے دیکھتے ہی کہا کہ آج تو لگتا ہے کہ شادی کی تقریب میں آئے ہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت کم چیزیں ایسی ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے، علیم ڈار ان میں سے ایک ہیں، ان کی عزت افزائی کے لیے خاص طور پر تیار ہوکر آیا ہوں،سٹیج پر آکر بھی یہی بات کی۔

بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں نے گفتگو کے لیے گھیر لیا،کیمرے آن ہوتے ہی انہوں نے روایتی بے باک انداز میں پاکستان کرکٹ کے معاملات پر بات کی،دوبارہ ان سے ملاقات کا موقع نہیں ملا،انتقال سے ایک روز قبل مصباح الحق کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مقرر کرنے کے حوالے سے تبصرے کے لیے فون کیا، یہ بھی سوچا کہ یو ٹیوب چینل کے بارے میں بات کے لیے ان کے ساتھ وقت بھی طے کرلوں گا لیکن وہ کسی مصروفیت کی وجہ سے فون نہیں اٹھاسکے، اگلے روز ہی کام کے دوران ان کے انتقال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

عبدالقادر کی اچانک رخصتی نے پرستاروں، صحافیوں،اہم ملکی شخصیات اور دنیا بھر کے کرکٹرز کو افسردہ کردیا،کسی کو یقین نہیں آیا کہ ایک ہنستی، کھلکھلاتی، توانائی سے بھرپور اور پر عزم شخصیت یوں اچانک دنیا سے روٹھ جائے گی، ایک امام مسجد کے بیٹے نے کرکٹ کی دنیا میں نام کمایا، ملکی میدانوں کے ساتھ گوروں کے دیس میں بھی سپن کا جادو جگایا، گگلی ماسٹر اور ونڈر بوائے کا خطاب پایا،اپنے فن میں یکتا ہونے کے باوجود کبھی بھی تکبر کو پاس نہیں پھٹکنے دیا،ہمیشہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ یہی کہتے سب اللہ کی دین ہے، اسی کے سامنے جھکنا اور اس سے ہی مانگنا چاہیے۔

در اصل کرکٹ کی بے پناہ رنگینیوں میں بھی ان کے دل میں ایک مسجد آباد رہی، کوئی سٹار بن جائے تو اپنے ناخوشگوار ماضی کا ذکر کرنے سے ہی کتراتا ہے،عبدالقادر اپنے بچپن کی محرومیوں کے بارے میں بے تکان گفتگو کرتے ہوئے بتاتے کہ کبھی، کبھار دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے حاصل ہوتی، سجدہ شکر نہ چھوڑا، پھر اللہ نے اپنا کرم وفضل کر دیا، انہوں نے اپنے گھر میں ایک کمرے کو مسجد میں تبدیل کر رکھا تھا، بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور نواسوں سمیت سب کو تلقین کرتے کوئی یہاں بغیر وضو کے قدم نہ رکھے،خود نماز کی پابندی کرتے اور اپنے ملنے والے کو بھی تلقین کرتے ہوئے کہتے کہ رب کے آگے جھکنے سے ہی سب کچھ ملتا ہے۔

افسوس! صد افسوس! کہ ایک خوبصورت اور ملکی کرکٹ کی بہتری کے خواب دیکھنے والی شخصیت ابدی نیند سوگئی، اب کان ایک بے لاگ انسان کی بے باک گفتگو کو ترستے رہیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کرکٹ کی بنیادوں مضبوط کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ بہانے والے سابق سٹارز کو عزت دیتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کا استعمال کیا جائے، جو قومیں اپنوں کی قدر نہیں کرتی، دنیا بھی ان کی عزت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔
Load Next Story