’’چٹان‘‘ کی دو تصویریں

میں عجب نہیں ہوں لیکن شاید میری پسند ناپسند کچھ عجیب ضرور ہے۔ مثلاً مجھے ٹی وی سے زیادہ ریڈیو اچھا لگتا ہے۔


Tariq Mahmood Mian September 28, 2013
[email protected]

میں عجب نہیں ہوں لیکن شاید میری پسند ناپسند کچھ عجیب ضرور ہے۔ مثلاً مجھے ٹی وی سے زیادہ ریڈیو اچھا لگتا ہے۔ سچ مچ ہنستے ہوئے بوڑھے اور جھوٹ موٹ روتے ہوئے بچے اچھے لگتے ہیں۔ صحیح وقت پر دی گئی صحیح گالی اچھی لگتی ہے۔ میں کتابوں کی بجائے رسالے جمع کرتا ہوں اور میرے پاس اتنے پرانے رسالے بھی ہیں جتنا پرانا میں خود ہوں۔ آج اسی کا ذکر ہے۔

اب سیاست ہر کسی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ میڈیا ہر لمحے سیاست کا تعاقب کرتا ہے اور اہم پیش رفت کے لیے مبصر بھی تیار رکھتا ہے۔ اگلی صبح تمام اہم موضوعات پر تبصرے اور تجزیے کالموں کی شکل میں اخبار میں موجود ملتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ آزادی بھی ناپید تھی اور سہولت بھی۔ صرف چند ہفت روزہ جرائد تھے جو یہ کام کرتے تھے۔ اس وقت جن سیاسی ہفت روزوں کا طوطی بولتا تھا، ان میں دائیں اور بائیں، دونوں بازوؤں سے تعلق رکھنے والے رسائل شامل تھے۔ یہ بہت موثر بھی تھے، سرکولیشن بھی بڑی تھی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ آج میں ان ہی میں سے ایک، آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ ''چٹان'' میں شائع ہونے والی دو معرکۃالآرا تصاویر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

ان میں سے پہلی تصویر ڈاکٹر سید محمد عبداللہ کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک نامور اہل علم تھے۔ اردو کے نامی گرامی استاد اور نقاد۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ رہے اور بعد میں اورینٹل کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ جس زمانے میں اردو کے نفاذ کی تحریک پورے ملک میں چل رہی تھی اس میں سب سے بلند اور توانا آواز ان ہی کی تھی۔ انھوں نے اس تحریک میں اتنی جان ڈال دی تھی کہ حکومت وقت اسے مناسب اہمیت دینے پر مجبور ہوگئی تھی اور یوں دکھائی دینے لگا تھا جیسے منزل بس اب آیا ہی چاہتی ہے۔ پھر وہی ہوا کہ سو بکھیڑے راہ میں آن پڑے۔ افسر شاہی کی نیت ہی درست نہ تھی۔ سو عملی طور پر یہ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس سے دل برداشتہ ہوکر ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے اپنے گھر پر اردو کا جنازہ پڑھوایا تھا اور اس کی بہت شہرت ہوئی تھی۔ اس کے بعد بس شہرت ہی باقی بچی۔ اردو کا نفاذ کہیں کھوگیا۔

میں جس تصویر کا ذکر کر رہا ہوں وہ ''چٹان'' کے بیک کور پر شائع ہوئی تھی۔

یہ پورے صفحے کی تصویر تھی اور اس میں ڈاکٹر سید عبداللہ کو ایک دروازے سے باہر آتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ ایک شاندار تصویر تھی۔ سر پر جناح کیپ لیے، سوٹ میں ملبوس، دراز قد اور وجیہہ ڈاکٹر صاحب ایک انتہائی باوقار انداز میں اپنا سر اٹھاکر چل رہے تھے۔ ان کا ایک قدم دروازے کی چوکھٹ کے باہر تھا۔ وہ اپنے موقف کے نہ مانے جانے پر، حکومت سے ہونے والی ایک میٹنگ سے واک آؤٹ کرکے باہر نکل رہے تھے۔ نیچے کیپشن درج تھا ''اردو کا پہلا احتجاج''۔ یہ تصویر اس وقت کے حالات میں اس قدر بامعنی تھی کہ اس کا نقش آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے۔دوسری تصویر مولانا کوثر نیازی کی ہے۔ وہ صحافتی اور سیاسی زندگی کا ایک بڑا رنگین کردار تھے۔

جماعت اسلامی سے آغاز ہوا اور پیپلزپارٹی میں انجام۔ یہ صرف پاجامے سے پتلون کا ہی سفر نہیں تھا بلکہ ریش مبارک کا سائز بھی پارٹی اور پارٹی پالیسی کے لحاظ سے گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔ میں یہاں مولانا کی بے تکلفی کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک مدت گزری میرا ایک دوست پروفیسر جو اب ایک باریش بزرگ ہے ایک روز بتانے لگا کہ بھٹو کے دور میں جب اطلاعات و نشریات کا قلمدان مولانا کے پاس تھا اور میں ریڈیو کے شعبہ خبر میں جزوقتی کام کرتا تھا، میں ایک بار کسی خبر کے سلسلے میں ملنے کے لیے ان کے پاس گیا۔ وہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں کئی اور صحافی بھی موجود تھے۔ وہ چلے گئے تو مولانا بستر پر دراز ہوگئے اور ایک کراہ بھر کے بولے ''اف بہت تھک گیا ہوں۔ ذرا ٹانگ تو دبادو''۔

''تو پھر تم نے کیا کیا؟'' میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔

''ارے بھئی! میں کیا کرتا؟ ان کی کراہ کے جواب میں، میں نے ایک آہ بھری اور وہاں سے کھسک لیا۔ میں رپورٹر تھا مالشیا نہیں''۔ اس نے جواب دیا۔

آغا شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی میں کئی قدریں مشترک تھیں۔ دونوں کمال کے مقرر تھے، شاعر تھے اور دونوں ہی سیاسی ہفت روزہ رسالے نکالتے تھے۔ لیکن دونوں میں اتنا شدید بیر تھا کہ میں اینٹ والا ایک محاورہ استعمال کرنا چاہتا ہوں پر یہ اس کا مقام نہیں ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی نابغوں میں اتنا اختلاف شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔ دونوں ہر دم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے رہتے تھے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ ایک بار مولانا کوثر نیازی اور شورش کاشمیری کا ٹولنٹن مارکیٹ میں آمنا سامنا ہوگیا۔ یہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کے طرز کی ایک قدیم مارکیٹ ہے جو مال روڈ پر وائی ایم سی اے ہال کے سامنے تھی۔ اب اسے قومی اثاثہ قرار دے کر عجائب گھر بنادیا گیا ہے۔ وہاں دونوں طیش میں آگئے اور انھوں نے ایک دوجے کی دھنائی کرڈالی۔ گھی کے ڈبے اور دوسری چیزیں اٹھااٹھا کے ماریں۔ دونوں لمبے تڑنگے تھے لیکن جسمانی طور پر کوثر نیازی کہیں زیادہ توانا تھے۔ میرا خیال ہے ان ہی کا پلہ بھاری رہا ہوگا۔ اگلے روز تمام اخبارات میں خبر چھپی اور لوگوں نے مزے لے لے کے پڑھی۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میں نے بعد میں کسی جگہ، اسی سے ملتے جلتے واقعے کو کوثر نیازی اور حبیب جالب کی لڑائی کے حوالے سے بھی پڑھا ہے۔ ممکن ہے وہ لڑائی بھی ہوئی ہو لیکن میں جس واقعے کا ذکر کر رہا ہوں اس میں کوثر نیازی اور شورش کاشمیری ہی ملوث تھے۔ اسی کے نتیجے میں ''چٹان'' کے ایک شمارے کے بیک کور پر مولانا کی وہ بے مثال تصویر شائع کی گئی تھی جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ پورے صفحے کی اس تصویر میں سفید کرتا پاجامہ پہنے مولانا کوثر نیازی آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ مٹھی میں سگریٹ تھی اور وہ ایک زور کا سوٹا لگا رہے تھے۔ اس کے نیچے کیپشن تھا۔۔۔۔ ''آج کل کے نوجوانوں میں چرس پینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں