بنیاد پرستی اور توسیع پسندی
پاکستان کاموجودہ سیاسی منظرنامہ اسلامی ’’بنیاد پرستی‘‘ کے نام پر دہشت گردی کے واقعات سے اس حد...
لاہور:
پاکستان کاموجودہ سیاسی منظرنامہ اسلامی ''بنیاد پرستی'' کے نام پر دہشت گردی کے واقعات سے اس حد تک پیچیدہ اورگنجلک ہوچکا ہے کہ''بنیاد پرستی'' کی وہ تعریف جسے طالبان کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے اس پر سوالیہ نشان لگتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ طالبان اگر ''بنیاد پرست'' ہیں تو پہلے ہی سے مظلوم مسلمان عوام کا خون کیوں بہاتے ہیں اور مسجدوں پر حملے کیوں کرتے ہیں؟ امریکی و مغربی سامراجی ممالک اپنے غاصبانہ کردار کو مخفی رکھنے اور اپنے سفاکانہ قتال کے عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے ''اسلامی بنیاد پرستی'' کی ایک فرضی اور باطل آئیڈیالوجی کا سہارا ضرور لیتے ہیں۔
تاہم واقعات اس قدر متنوع اور متضاد نوعیت کے ہیں کہ ان میں موجود تفاوت اور بلاتخصیص لوگوں کے قتل عام پر مستقل نظر رکھنا نہ صرف سامراجی چالوں بلکہ واقعات کی درست تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔پہلے مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تاکہ فرقہ واریت کی بنیاد پر پاکستان میں عرب ممالک جیسی تحریک کو ابھارکر اپنے مفادات حاصل کر لیے جائیں اور جب ان حملوں سے سامراجیوں کو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بعد ازاں ایک تسلسل سے کم و بیش تمام فرقوں اور حتیٰ کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا ہے۔
واقعات کی تفہیم جب کئی سمتوں سے کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ محض کسی 'واقعے' کا ارتکاب کرنے والے ہی نہیں اس سے مستفید ہونیوالے بھی اس واقعے کے ارتکاب میں برابر کے یا ان سے کہیں زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ''اسلامی بنیاد پرستی'' کی آڑ میں 'طالبان' سب سے زیادہ امریکی و مغربی سامراجی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام اور اسلام کو پہنچا رہے ہیں۔ امریکی تو پاکستانی سرزمین پر آزاد دندناتے پھرتے ہیں اور ''اسلامی بنیاد پرستوں'' سے محفوظ بھی رہتے ہیں، لیکن ''بنیاد پرست'' معصوم مسلمانوں کا مسلسل خون بہا کر نہ صرف اپنی آئیڈیالوجی کی نفی کررہے ہیں بلکہ اپنی مشترک بنیاد کو ہی کاٹ رہے ہیں۔
واقعات کی سائنسی انداز میں تفہیم و تشریح واقعات کے ظہور اور بعد ازاں ان کے سماجی اور سیاسی رجحانات پر اثرات کے پیش نظر ہی کرنی چاہیے۔ واقعاتی نتائج کی سمت کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سمت سے منسلک مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا درست تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ مغرب و امریکا کا موقف یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان ''بنیاد پرست'' عناصر کی آماجگاہ ہے جو امریکا و مغرب کو اسلام کے نام پر فتح کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ''بنیاد پرست'' عناصر اسلام کو ایک ''توسیع پسند'' اور آفاقی آئیڈیالوجی گردانتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جس میں سچائی کا مکمل فقدان ہے۔ دراصل اس موقف کے تحت امریکا و مغربی سامراج اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو چھپانا چاہتے ہیں۔ جن ممالک میں حقیقی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا ہے ان کا مقصد اپنی توسیعیت کے برعکس اپنے ممالک کو سامراجی قبضے و غلبے سے نجات دلانا ہے، جب کہ مصنوعی اور نام نہاد ''بنیاد پرستانہ'' تحریکیںسامراجی مفادات کو تحفظ فراہم کررہی ہیں۔پاکستان میں طالبانیت ایک ایسی ہی تحریک ہے جس کے تحت مسلمانوں کا خون تو ایک تسلسل سے بہایا جارہا ہے، مگر سامراجی مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا۔
پاکستانی عوام کے بلاتخصیص قتل عام سے یہ تاثر مضبوطی سے ابھرتا دکھائی دیتاہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ ان کی نوعیت ' 'بنیاد پرستانہ'' نہیں ہے۔ بنیاد پرستی ایک حتمی شناخت کو متعین کرنے کا نام ہے، جس کا محرک عقیدے، قومیت، لسانیت یا صوبائیت وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کی بجائے ''وحدت'' کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ''بنیاد پرستی'' کسی بھی نوعیت کی ہو وہ خود کو شناخت دینے والی سوچ کی نفی نہیں کرتی ۔بنیاد پرست وہ ہے جو اپنے عقیدے اور اس کے پیروکاروں کو دوسرے لوگوں پر مقدم ٹھہراتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے دیکھا کہ امریکیوں نے تین ہزار افراد کی موت کا انتقام لینے کے لیے لاکھوں معصوم لوگوں کو عراق اور افغانستان میں قتل کرکے دنیا کو حقیقی روشن خیال بنیاد پرستی سے روشناس کرایا۔ مذہب سے بیزار سائنس کی اندھی تقلید کرنے والے لبرل حضرات کے نزدیک آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ ہوتی ہے اور آئیڈیالوجی ان کے نزدیک صرف الٰہیاتی ضابطے ہیں۔
روشن خیال لبرل یہ واضح نہیں کرپاتے کہ اگر آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ ہے تو سائنسی طاقت کی موجودگی میں ایک واہمہ سماج کی کلی حرکت کو کن اصولوں کے تحت متعین کرتا ہے؟اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آئیڈیالوجی ایک واہمہ ہے تو اس کے بعد ہماری ذمے داری یہ ہے کہ سماج کی حرکت کو متعین کرنے والی مادی قوتوں کا سراغ لگائیں۔ اول تو اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آئیڈیالوجی ایک واہمہ ہے اور اگر آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ تسلیم کربھی لیا جائے تو اس کی بنیاد پر توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خواہش رکھنا واقعات کو مزید پیچیدہ اور گنجلک بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔ مغرب میں عقلیت پر مبنی روشن خیالی پروجیکٹ نظری سطح پر ایک توسیع پسندانہ پروجیکٹ تھا۔ روشن خیالی کی ہر فکری بُعد آفاقیت کی حامل ہے۔ فریڈرک ہیگل سے مارٹن ہائیڈیگر تک ''توسیع پسندی'' مغربی فکر کا اہم جُز رہی ہے۔ چارلس ڈارون کا نظریۂ ارتقا اپنی ہیئت میں ایک توسیع پسندانہ نظریہ تھا۔
مابعد جدید مفکروں نے روشن خیال پر جو ضرب لگائی ہے اس میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ عقلیت کا آفاقی پروجیکٹ اپنی ہیئت میں ایک استحصالی پروجیکٹ ہے، جس کا مقصد محض اپنے غلبے کو قائم رکھنا ہے۔ صنعت کی تشکیل و ارتقا کا عمل بھی اپنی سرشت میں آفاقیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ پیداواری قوتوں کا ارتقا ایک توسیع پسندانہ عمل ہے، جس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سب سے موثر ہتھیار انسان کی مرکزیت پر قائم عقلی آئیڈیالوجی ہے۔ عقلیت کا کردار مقامی نہیں آفاقی ہے۔ ارتقا یا توسیعیت سے ہم آہنگ ہونا سرمایہ داری نظام کی بقا کے لیے لازمی ہے۔عقلیت کو ہمہ وقت اس ہدف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہدف کہیں خارج سے ودیعت نہیں کیا جاتا، بلکہ اس نظام کی باطنی منطق کا نتیجہ ہے عطا ہے جس میں عہد حاضر کا انسان زندگی بسر کرتا ہے۔
مارکس اور اینگلز نے 1848 میں توسیعیت کے بنیادی مفہوم کو ان الفاظ میں پیش کیا تھاکہ '' بورژوا طبقے نے اپنے ایک سو برس کے دور حکومت میں اتنی بڑی اور دیو پیکر پیداواری قوتیں تخلیق کرلی ہیں کہ پچھلی تمام نسلیں مل کر بھی نہ کرسکی تھیں... مگر پیداوار، تبادلہ اور ملکیت کے اپنے رشتوں سمیت اس سماج کی حالت اس شعبدہ گر کی سی ہے جس نے اپنے جادو سے شیطانی طاقتوں کو جگا تو لیا ہے مگر اب قابو میں نہیں رکھ سکتا۔'' برطانیہ، فرانس اور امریکا کی جدید استعماری اور نیو استعماری تحریکوں کا محرک یہی عمل ہے۔ معاشی عقلیت پیداواری قوتوں کے ارتقا کے ساتھ خود کو وسعت دیتی ہے، ارتقا کا یہ عمل یک رخا نہیں ، بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ تضاد کا خاتمہ ارتقا کی شرط ہے۔ سرمایہ داری نظام میں حقیقی تضاد تو حاکم اور محکوم کے درمیان ہی ہوتا ہے، مگر مغربی ممالک میں سرمایہ داری کے دانشور ایک فرضی مخالف کو بھی وجود میں لے آتے ہیں تاکہ اسے اپنی بربریت کے جواز کے طور پر پیش کرسکیں اور حقیقی معنوں میں برسرِ پیکار قوتوں کے تاریخی کردار کو مستقل دباتے رہیں۔
طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی سامراجی پروجیکٹ کی ایسی ہی ''مخالف'' ہیں جن کا خمیر سامراجی عقلیت کی کوکھ سے اٹھا۔1979 میں امریکی ترغیبات کے زیرِ اثرروس جب افغانستان پر حملے کی تیاری کررہا تھا توامریکا 3 بلین اور ''برادر اسلامی ملک'' 2 بلین ڈالر ز کی فنڈنگ ''مجاہدین'' کے لیے الگ کرچکے تھے۔''مجاہدین'' جنھیں اس وقت تقریباََ35 ممالک سے اکٹھا کیا گیا تھا تاکہ وہ روسی قبضے کے خلاف افغانستان کا دفاع کرسکیں مگر امریکی سامراج کے عزائم توسیع پسندانہ تھے۔ ان کا واحد مقصد گلوبل سطح پر اپنی حاکمیت کو قائم رکھنا تھا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے 25 ستمبر کو اقوام متحدہ میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ''امریکا علاقے میں اپنے اہم مفادات کے تحفظ کے لیے طاقت، بشمول فوجی طاقت، کے تمام ذرائع استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔''
بارک اوباما کی یہ تقریر نائن الیون کے دھماکوں کے بعد 20 ستمبر کی صدر بش کی تقریر کی یاد دلاتی ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کونسی ریاست ''دہشت گرد'' ہے یہ طے کرنا امریکا کا کام ہے، اور بعد ازاں 7 اکتوبر کو اقوام متحدہ کو خط میں لکھا کہ یہ امریکا ہی طے کرے گا کہ افغانستان کے بعد کس ملک پر حملہ کرنا ہے۔ دہشت انگیز توسیع پسندی کی یہ مثالیں کسی الٰہیاتی آئیڈیالوجی کا شاخسانہ نہیں ہیں، بلکہ توسیع پسند سرمائے کی باطنی حرکت کا نتیجہ ہیں۔ لبرل حضرات جو سرمایہ داری کی حتمیت کو تسلیم کرتے ہیں وہ سب سے پہلے سامراجی ''دانشوروں کی فکری و نظری یلغار کا شکار ہوتے ہیں۔ سائنسی اور مادی بنیادوں پر سرمایہ داری نظام کی تفہیم کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام امریکی و مغربی فکر ایک توسیع پسند معاشی اور سیاسی اساس پر قائم ہے ، تاریخ جس کی توثیق کرتی ہے۔'' اسلامی بنیاد پرستی'' کو توسیع پسند آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنے کا عمل محض سامراجیوں کی منافقت کا عکاس ہے، جدید تاریخ جس کی نفی کرتی ہے۔
پاکستان کاموجودہ سیاسی منظرنامہ اسلامی ''بنیاد پرستی'' کے نام پر دہشت گردی کے واقعات سے اس حد تک پیچیدہ اورگنجلک ہوچکا ہے کہ''بنیاد پرستی'' کی وہ تعریف جسے طالبان کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے اس پر سوالیہ نشان لگتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ طالبان اگر ''بنیاد پرست'' ہیں تو پہلے ہی سے مظلوم مسلمان عوام کا خون کیوں بہاتے ہیں اور مسجدوں پر حملے کیوں کرتے ہیں؟ امریکی و مغربی سامراجی ممالک اپنے غاصبانہ کردار کو مخفی رکھنے اور اپنے سفاکانہ قتال کے عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے ''اسلامی بنیاد پرستی'' کی ایک فرضی اور باطل آئیڈیالوجی کا سہارا ضرور لیتے ہیں۔
تاہم واقعات اس قدر متنوع اور متضاد نوعیت کے ہیں کہ ان میں موجود تفاوت اور بلاتخصیص لوگوں کے قتل عام پر مستقل نظر رکھنا نہ صرف سامراجی چالوں بلکہ واقعات کی درست تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔پہلے مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تاکہ فرقہ واریت کی بنیاد پر پاکستان میں عرب ممالک جیسی تحریک کو ابھارکر اپنے مفادات حاصل کر لیے جائیں اور جب ان حملوں سے سامراجیوں کو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بعد ازاں ایک تسلسل سے کم و بیش تمام فرقوں اور حتیٰ کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا ہے۔
واقعات کی تفہیم جب کئی سمتوں سے کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ محض کسی 'واقعے' کا ارتکاب کرنے والے ہی نہیں اس سے مستفید ہونیوالے بھی اس واقعے کے ارتکاب میں برابر کے یا ان سے کہیں زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ''اسلامی بنیاد پرستی'' کی آڑ میں 'طالبان' سب سے زیادہ امریکی و مغربی سامراجی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام اور اسلام کو پہنچا رہے ہیں۔ امریکی تو پاکستانی سرزمین پر آزاد دندناتے پھرتے ہیں اور ''اسلامی بنیاد پرستوں'' سے محفوظ بھی رہتے ہیں، لیکن ''بنیاد پرست'' معصوم مسلمانوں کا مسلسل خون بہا کر نہ صرف اپنی آئیڈیالوجی کی نفی کررہے ہیں بلکہ اپنی مشترک بنیاد کو ہی کاٹ رہے ہیں۔
واقعات کی سائنسی انداز میں تفہیم و تشریح واقعات کے ظہور اور بعد ازاں ان کے سماجی اور سیاسی رجحانات پر اثرات کے پیش نظر ہی کرنی چاہیے۔ واقعاتی نتائج کی سمت کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سمت سے منسلک مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا درست تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ مغرب و امریکا کا موقف یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان ''بنیاد پرست'' عناصر کی آماجگاہ ہے جو امریکا و مغرب کو اسلام کے نام پر فتح کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ''بنیاد پرست'' عناصر اسلام کو ایک ''توسیع پسند'' اور آفاقی آئیڈیالوجی گردانتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جس میں سچائی کا مکمل فقدان ہے۔ دراصل اس موقف کے تحت امریکا و مغربی سامراج اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو چھپانا چاہتے ہیں۔ جن ممالک میں حقیقی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا ہے ان کا مقصد اپنی توسیعیت کے برعکس اپنے ممالک کو سامراجی قبضے و غلبے سے نجات دلانا ہے، جب کہ مصنوعی اور نام نہاد ''بنیاد پرستانہ'' تحریکیںسامراجی مفادات کو تحفظ فراہم کررہی ہیں۔پاکستان میں طالبانیت ایک ایسی ہی تحریک ہے جس کے تحت مسلمانوں کا خون تو ایک تسلسل سے بہایا جارہا ہے، مگر سامراجی مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا۔
پاکستانی عوام کے بلاتخصیص قتل عام سے یہ تاثر مضبوطی سے ابھرتا دکھائی دیتاہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ یہ کہ ان کی نوعیت ' 'بنیاد پرستانہ'' نہیں ہے۔ بنیاد پرستی ایک حتمی شناخت کو متعین کرنے کا نام ہے، جس کا محرک عقیدے، قومیت، لسانیت یا صوبائیت وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کی بجائے ''وحدت'' کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ''بنیاد پرستی'' کسی بھی نوعیت کی ہو وہ خود کو شناخت دینے والی سوچ کی نفی نہیں کرتی ۔بنیاد پرست وہ ہے جو اپنے عقیدے اور اس کے پیروکاروں کو دوسرے لوگوں پر مقدم ٹھہراتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے دیکھا کہ امریکیوں نے تین ہزار افراد کی موت کا انتقام لینے کے لیے لاکھوں معصوم لوگوں کو عراق اور افغانستان میں قتل کرکے دنیا کو حقیقی روشن خیال بنیاد پرستی سے روشناس کرایا۔ مذہب سے بیزار سائنس کی اندھی تقلید کرنے والے لبرل حضرات کے نزدیک آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ ہوتی ہے اور آئیڈیالوجی ان کے نزدیک صرف الٰہیاتی ضابطے ہیں۔
روشن خیال لبرل یہ واضح نہیں کرپاتے کہ اگر آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ ہے تو سائنسی طاقت کی موجودگی میں ایک واہمہ سماج کی کلی حرکت کو کن اصولوں کے تحت متعین کرتا ہے؟اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آئیڈیالوجی ایک واہمہ ہے تو اس کے بعد ہماری ذمے داری یہ ہے کہ سماج کی حرکت کو متعین کرنے والی مادی قوتوں کا سراغ لگائیں۔ اول تو اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آئیڈیالوجی ایک واہمہ ہے اور اگر آئیڈیالوجی محض ایک واہمہ تسلیم کربھی لیا جائے تو اس کی بنیاد پر توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خواہش رکھنا واقعات کو مزید پیچیدہ اور گنجلک بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔ مغرب میں عقلیت پر مبنی روشن خیالی پروجیکٹ نظری سطح پر ایک توسیع پسندانہ پروجیکٹ تھا۔ روشن خیالی کی ہر فکری بُعد آفاقیت کی حامل ہے۔ فریڈرک ہیگل سے مارٹن ہائیڈیگر تک ''توسیع پسندی'' مغربی فکر کا اہم جُز رہی ہے۔ چارلس ڈارون کا نظریۂ ارتقا اپنی ہیئت میں ایک توسیع پسندانہ نظریہ تھا۔
مابعد جدید مفکروں نے روشن خیال پر جو ضرب لگائی ہے اس میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ عقلیت کا آفاقی پروجیکٹ اپنی ہیئت میں ایک استحصالی پروجیکٹ ہے، جس کا مقصد محض اپنے غلبے کو قائم رکھنا ہے۔ صنعت کی تشکیل و ارتقا کا عمل بھی اپنی سرشت میں آفاقیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ پیداواری قوتوں کا ارتقا ایک توسیع پسندانہ عمل ہے، جس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سب سے موثر ہتھیار انسان کی مرکزیت پر قائم عقلی آئیڈیالوجی ہے۔ عقلیت کا کردار مقامی نہیں آفاقی ہے۔ ارتقا یا توسیعیت سے ہم آہنگ ہونا سرمایہ داری نظام کی بقا کے لیے لازمی ہے۔عقلیت کو ہمہ وقت اس ہدف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہدف کہیں خارج سے ودیعت نہیں کیا جاتا، بلکہ اس نظام کی باطنی منطق کا نتیجہ ہے عطا ہے جس میں عہد حاضر کا انسان زندگی بسر کرتا ہے۔
مارکس اور اینگلز نے 1848 میں توسیعیت کے بنیادی مفہوم کو ان الفاظ میں پیش کیا تھاکہ '' بورژوا طبقے نے اپنے ایک سو برس کے دور حکومت میں اتنی بڑی اور دیو پیکر پیداواری قوتیں تخلیق کرلی ہیں کہ پچھلی تمام نسلیں مل کر بھی نہ کرسکی تھیں... مگر پیداوار، تبادلہ اور ملکیت کے اپنے رشتوں سمیت اس سماج کی حالت اس شعبدہ گر کی سی ہے جس نے اپنے جادو سے شیطانی طاقتوں کو جگا تو لیا ہے مگر اب قابو میں نہیں رکھ سکتا۔'' برطانیہ، فرانس اور امریکا کی جدید استعماری اور نیو استعماری تحریکوں کا محرک یہی عمل ہے۔ معاشی عقلیت پیداواری قوتوں کے ارتقا کے ساتھ خود کو وسعت دیتی ہے، ارتقا کا یہ عمل یک رخا نہیں ، بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ تضاد کا خاتمہ ارتقا کی شرط ہے۔ سرمایہ داری نظام میں حقیقی تضاد تو حاکم اور محکوم کے درمیان ہی ہوتا ہے، مگر مغربی ممالک میں سرمایہ داری کے دانشور ایک فرضی مخالف کو بھی وجود میں لے آتے ہیں تاکہ اسے اپنی بربریت کے جواز کے طور پر پیش کرسکیں اور حقیقی معنوں میں برسرِ پیکار قوتوں کے تاریخی کردار کو مستقل دباتے رہیں۔
طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی سامراجی پروجیکٹ کی ایسی ہی ''مخالف'' ہیں جن کا خمیر سامراجی عقلیت کی کوکھ سے اٹھا۔1979 میں امریکی ترغیبات کے زیرِ اثرروس جب افغانستان پر حملے کی تیاری کررہا تھا توامریکا 3 بلین اور ''برادر اسلامی ملک'' 2 بلین ڈالر ز کی فنڈنگ ''مجاہدین'' کے لیے الگ کرچکے تھے۔''مجاہدین'' جنھیں اس وقت تقریباََ35 ممالک سے اکٹھا کیا گیا تھا تاکہ وہ روسی قبضے کے خلاف افغانستان کا دفاع کرسکیں مگر امریکی سامراج کے عزائم توسیع پسندانہ تھے۔ ان کا واحد مقصد گلوبل سطح پر اپنی حاکمیت کو قائم رکھنا تھا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے 25 ستمبر کو اقوام متحدہ میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ''امریکا علاقے میں اپنے اہم مفادات کے تحفظ کے لیے طاقت، بشمول فوجی طاقت، کے تمام ذرائع استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔''
بارک اوباما کی یہ تقریر نائن الیون کے دھماکوں کے بعد 20 ستمبر کی صدر بش کی تقریر کی یاد دلاتی ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کونسی ریاست ''دہشت گرد'' ہے یہ طے کرنا امریکا کا کام ہے، اور بعد ازاں 7 اکتوبر کو اقوام متحدہ کو خط میں لکھا کہ یہ امریکا ہی طے کرے گا کہ افغانستان کے بعد کس ملک پر حملہ کرنا ہے۔ دہشت انگیز توسیع پسندی کی یہ مثالیں کسی الٰہیاتی آئیڈیالوجی کا شاخسانہ نہیں ہیں، بلکہ توسیع پسند سرمائے کی باطنی حرکت کا نتیجہ ہیں۔ لبرل حضرات جو سرمایہ داری کی حتمیت کو تسلیم کرتے ہیں وہ سب سے پہلے سامراجی ''دانشوروں کی فکری و نظری یلغار کا شکار ہوتے ہیں۔ سائنسی اور مادی بنیادوں پر سرمایہ داری نظام کی تفہیم کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام امریکی و مغربی فکر ایک توسیع پسند معاشی اور سیاسی اساس پر قائم ہے ، تاریخ جس کی توثیق کرتی ہے۔'' اسلامی بنیاد پرستی'' کو توسیع پسند آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنے کا عمل محض سامراجیوں کی منافقت کا عکاس ہے، جدید تاریخ جس کی نفی کرتی ہے۔