اندازِ حکمرانی
میں نے ایک سرکاری رازدان سے پوچھا کہ ان دنوں پنجاب سول سیکریٹریٹ اور اس سے منسلک دفتروں میں سناٹا...
میں نے ایک سرکاری رازدان سے پوچھا کہ ان دنوں پنجاب سول سیکریٹریٹ اور اس سے منسلک دفتروں میں سناٹا کیوں چھایا رہتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نئے باس کے نوٹس میں لایا گیا تھا کہ سیکریٹری لیول کے تمام افسر لیٹ دفتر آتے ہیں۔ اگر ان کے ماتحت سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ وہ میٹنگ پر بڑے گھر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملاقاتی ان کے دفتروں میں وقت بے وقت چلے آتے ہیں، اس لیے باس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ ہر افسر کے کمرے کے باہر اب پلیٹ لگی ہے ''اوقات ملاقات 8 بجے سے 9 بجے۔'' اس طرح افسر لوگ پونے آٹھ بجے دفتروں میں آنے لگے ہیں اور ملاقاتی آنے بند ہو گئے ہیں۔ افسر ناخوش ہیں اور ملاقاتی ناراض۔ ادھر کہ ہم لوگ ہر بات اور ہر شعبے میں مادر پدر آزاد رہنے کی عادت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ دیکھئے پابندیٔ اوقات کی ایک شعبے میں شروعات کتنے دن چلتی ہے۔ اب افسروں اور ان کے ملاقاتیوں کو صبح 7 بجے گھروں سے نکلنا پڑا کرے گا۔ پہلے وقتوں میں تو افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر میں ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ عام Tenure تین سال اور غلطی ہونے پر سرزنش ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔ تب تبادلے پر Farewell Dinner ہوتا اور گروپ فوٹو بنتی تھی لیکن اب تعیناتی دنوں کے حساب سے ہوتی' ناراضی پر گالی کا الوداعیہ ہوتا اور تبادلے پر کان سے پکڑ کر کھڈے لائن بھجوایا جاتا ہے یعنی
اس نوکری میں عزتِ سادات بھی گئی
ابھی تین روز قبل ایک صاحب بتانے لگے کہ وہ پندرہ دن تک ایک بیوہ کے جائز کام کو Expedite کروانے کے لیے گوجرانوالہ کچہری کے افسر اعلیٰ کو دن میں تین بار فون کرتے رہے لیکن جواب ملتا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ سولہویں دن فون کرنے پر پی اے نے بتایا کہ صاحب کا تو آج تبادلہ ہو گیا ہے۔ اب آپ نئے صاحب کے چارج لینے پر رابطہ کریں۔ موصوف نے مجھے اپنی کارکردگی بتانے کے بعد مصرع پڑھا:
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
جس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہمارے مذکورہ بالا دوست کی رہائش ہے اس کا احوال بھی انھوں نے بیان کیا۔ یوں تو تھانے نیلام ہونے کا الزام بہت پرانا ہے لیکن ان کے موجودہ تھانے کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ اس تھانے میں تعیناتی بھی پرائز پوسٹ ہے۔ اس میں ایک ایس ایچ او سات سال کے عرصہ میں چار بار تعینات ہوئے لیکن ہر بار عرصہ تعیناتی چند ماہ رہا۔ اس تھانے میں ان کی پوسٹنگ سزا کے طور پر نہیں ہوتی تھی۔ کوئی نہ کوئی ان سے زیادہ زور آور ہوتا تھا اور جو اس میں تعیناتی کروانے میں کامیاب ہو جاتا۔ چند ہی ماہ میں کوئی زیادہ طاقت ور اسے ٹکر جاتا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس تھانے کی حدود میں ایک بے حد معروف کمرشل مارکیٹ ہے جہاں روزانہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور اکثر دکانداروں نے تجاوزات کر رکھے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس تھانے کے ملازم کسی کاروباری کے ساتھ الجھتے ہیں نہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کرتے ہیں۔ ہر دو فریق بقائے باہمی کا مثالی نمونہ پیش کرتے ہیں۔
کسی مسئلے اور معاملے پر مشاورت کرنے' تجاویز لینے یا ہدایات و احکامات جاری کرنے کے لیے تنظیمیں و حکومتی بااختیار لوگ میٹنگ بلاتے رہتے ہیں۔ یوں اجتماعی سوچ انفرادی فیصلوں میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن اکثر اوقات کثرت مشاورت عملی سطح پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔ اس قسم کی میٹنگز نشتند' گفتند' برخاستند سے آگے نہیں بڑھتیں اور ان کی بھرمار کی وجہ سے ماتحت افسروں اور سیاست دانوں کا بیشتر وقت بے عملی میں ضایع تو ہوتا ہی ہے خود انھیں بھی Meeting, Eating, Cheating کی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ان ڈھیروں میٹنگوں کے Minutes ملاحظہ کر دیکھیں' فیصلے ہی فیصلے ملیں گے' عملدرآمد کا خانہ خالی ملے گا۔
اگر آپ کاغذ پنسل لے کر اہم عہدوں پر تعینات افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر کا چارٹ بنائیں تو معلوم ہو گا کہ کچھ افسر تو عرصہ دراز سے ایک محکمے کو چلا رہے ہیں لیکن ایک معقول تعداد ایسے افسروں کی ملے گی جو شٹل کاک کی طرح کبھی ایک اور کبھی دوسرے محکمے میں اچھل کود کر رہے ہیں۔ ایسے افسروں میں سب سے بڑا تعلق یہ ملے گا کہ وہ قانون اور ضابطے کے مطابق کار سرکار چلانے کی بدعادت میں مبتلا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں اور پرسنل سرونٹ کی بجائے پبلک سرونٹ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ شکایت اور سفارش چونکہ پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی کا بنیادی عنصر بن چکے ہیں اس لیے تبادلے کارکردگی کی بجائے بڑے صاحب سے سفارشیوں کی میٹنگ و ملاقات میں طے پاتے ہیں۔
مرکزی حکومت ہو یا صوبائی ان کے ہر محکمے کے فرائض اور ڈیوٹیاں متعین ہیں۔ محکموں کے سرکاری انچارج ان سے بخوبی باعلم ہیں لیکن یہ جو انھیں بار بار اور گھنٹوں میٹنگوں سے بلایا بٹھایا اور ان کا روٹین دفتری اور فیلڈ ورک کا ضیاع کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل حکمران لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ خود تو اپنا تمام وقت ملک و قوم کو دے رہے ہیں۔ ان کے کارندے یعنی افسر اور اہلکار ان کی دی ہوئی Assignment سے عہدہ برآ نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ میٹنگوں کی بھرمار کی وجہ سے سرکاری اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے پورا وقت نہیں پا رہے۔ حکمران اپنے ذاتی اور سفارشوں کے پلندے افسروں اور دیگر اہلکاروں کو پکڑا کر ان کی جلد پراگریس مانگتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں ملازم اپنے فرائض منصبی پس پشت ڈالنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ میٹنگ کرنا اچھی بات ہے لیکن پبلک سرونٹس کو دوڑ بھاگ میں لگائے رکھنا اچھی حکمرانی نہیں۔
اس نوکری میں عزتِ سادات بھی گئی
ابھی تین روز قبل ایک صاحب بتانے لگے کہ وہ پندرہ دن تک ایک بیوہ کے جائز کام کو Expedite کروانے کے لیے گوجرانوالہ کچہری کے افسر اعلیٰ کو دن میں تین بار فون کرتے رہے لیکن جواب ملتا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ سولہویں دن فون کرنے پر پی اے نے بتایا کہ صاحب کا تو آج تبادلہ ہو گیا ہے۔ اب آپ نئے صاحب کے چارج لینے پر رابطہ کریں۔ موصوف نے مجھے اپنی کارکردگی بتانے کے بعد مصرع پڑھا:
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
جس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہمارے مذکورہ بالا دوست کی رہائش ہے اس کا احوال بھی انھوں نے بیان کیا۔ یوں تو تھانے نیلام ہونے کا الزام بہت پرانا ہے لیکن ان کے موجودہ تھانے کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ اس تھانے میں تعیناتی بھی پرائز پوسٹ ہے۔ اس میں ایک ایس ایچ او سات سال کے عرصہ میں چار بار تعینات ہوئے لیکن ہر بار عرصہ تعیناتی چند ماہ رہا۔ اس تھانے میں ان کی پوسٹنگ سزا کے طور پر نہیں ہوتی تھی۔ کوئی نہ کوئی ان سے زیادہ زور آور ہوتا تھا اور جو اس میں تعیناتی کروانے میں کامیاب ہو جاتا۔ چند ہی ماہ میں کوئی زیادہ طاقت ور اسے ٹکر جاتا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس تھانے کی حدود میں ایک بے حد معروف کمرشل مارکیٹ ہے جہاں روزانہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور اکثر دکانداروں نے تجاوزات کر رکھے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس تھانے کے ملازم کسی کاروباری کے ساتھ الجھتے ہیں نہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کرتے ہیں۔ ہر دو فریق بقائے باہمی کا مثالی نمونہ پیش کرتے ہیں۔
کسی مسئلے اور معاملے پر مشاورت کرنے' تجاویز لینے یا ہدایات و احکامات جاری کرنے کے لیے تنظیمیں و حکومتی بااختیار لوگ میٹنگ بلاتے رہتے ہیں۔ یوں اجتماعی سوچ انفرادی فیصلوں میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن اکثر اوقات کثرت مشاورت عملی سطح پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔ اس قسم کی میٹنگز نشتند' گفتند' برخاستند سے آگے نہیں بڑھتیں اور ان کی بھرمار کی وجہ سے ماتحت افسروں اور سیاست دانوں کا بیشتر وقت بے عملی میں ضایع تو ہوتا ہی ہے خود انھیں بھی Meeting, Eating, Cheating کی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ان ڈھیروں میٹنگوں کے Minutes ملاحظہ کر دیکھیں' فیصلے ہی فیصلے ملیں گے' عملدرآمد کا خانہ خالی ملے گا۔
اگر آپ کاغذ پنسل لے کر اہم عہدوں پر تعینات افسروں کی پوسٹنگ ٹرانسفر کا چارٹ بنائیں تو معلوم ہو گا کہ کچھ افسر تو عرصہ دراز سے ایک محکمے کو چلا رہے ہیں لیکن ایک معقول تعداد ایسے افسروں کی ملے گی جو شٹل کاک کی طرح کبھی ایک اور کبھی دوسرے محکمے میں اچھل کود کر رہے ہیں۔ ایسے افسروں میں سب سے بڑا تعلق یہ ملے گا کہ وہ قانون اور ضابطے کے مطابق کار سرکار چلانے کی بدعادت میں مبتلا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں اور پرسنل سرونٹ کی بجائے پبلک سرونٹ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ شکایت اور سفارش چونکہ پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی کا بنیادی عنصر بن چکے ہیں اس لیے تبادلے کارکردگی کی بجائے بڑے صاحب سے سفارشیوں کی میٹنگ و ملاقات میں طے پاتے ہیں۔
مرکزی حکومت ہو یا صوبائی ان کے ہر محکمے کے فرائض اور ڈیوٹیاں متعین ہیں۔ محکموں کے سرکاری انچارج ان سے بخوبی باعلم ہیں لیکن یہ جو انھیں بار بار اور گھنٹوں میٹنگوں سے بلایا بٹھایا اور ان کا روٹین دفتری اور فیلڈ ورک کا ضیاع کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل حکمران لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ خود تو اپنا تمام وقت ملک و قوم کو دے رہے ہیں۔ ان کے کارندے یعنی افسر اور اہلکار ان کی دی ہوئی Assignment سے عہدہ برآ نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ میٹنگوں کی بھرمار کی وجہ سے سرکاری اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے پورا وقت نہیں پا رہے۔ حکمران اپنے ذاتی اور سفارشوں کے پلندے افسروں اور دیگر اہلکاروں کو پکڑا کر ان کی جلد پراگریس مانگتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں ملازم اپنے فرائض منصبی پس پشت ڈالنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ میٹنگ کرنا اچھی بات ہے لیکن پبلک سرونٹس کو دوڑ بھاگ میں لگائے رکھنا اچھی حکمرانی نہیں۔