ذہانت کسی کی میراث نہیں
غریب بھارتی لڑکی صرف تیرہ برس کی عمر میں ماسٹرز کررہی ہے۔
ہندوستان میں جہاں بے شمار لڑکیاں اسکول جانے سے محروم رہ جاتی ہیں، وہیں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی سشما ورما نے حال ہی میں ماسٹرز میں داخلہ لے لیا ہے۔
غریب لڑکی کا یونیورسٹی تک پہنچنا کوئی تعجب کی بات نہیں مگر سشما کے معاملے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی عمر محض تیرہ سال ہے۔ سشما نے اسکول کی تعلیم صرف سات برس کی عمر میں مکمل کرلی تھی، اور چند ماہ قبل اس نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرکے سبھی کو حیران کردیا تھا۔ شمالی ہندوستان کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی سشما کے والد، تیج بہادر ورما اپنی بیٹی کو ہر صورت اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ سشما پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام حاصل کرے۔ سشما کی غیرمعمولی ذہانت نے ان کے اس جذبے کو مہمیز کردیا تھا۔ چناں چہ انھوں نے اس کی فیسوں اور کتابوں کے لیے اپنی تھوڑی بہت زمین بھی بیچ دی تھی۔ سشما کہتی ہے،'' انھوں نے مجھے وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دی جو میں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے امید ہے کہ دوسرے والدین بھی اپنے بچوں پر اپنی مرضی نہیں تھوپیں گے۔''
سشما لکھنؤ میں، ایک کمرے والے گھر میں اپنے تین چھوٹے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ عام سی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے معمولات کھانے پینے، سونے اور پڑھائی کرنے تک محدود ہیں۔ تیج بہادر ورما زیرتعمیر جگہوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں جس کے عوض انھیں روزانہ دوسو روپے تک ملتے ہیں۔ ایک کمرے پر مشتمل اس گھر میں سب سے قیمتی شے پڑھنے والی میز اور ایک پرانا کمپیوٹر ہے۔ سشما کا کہنا ہے کہ ایک کمرے والے گھر میں ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھائی ممکن نہیں، مگر اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسان کے تمام خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ اس کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں ہے جس وکی وجہ سے، بقول سشما کے، پڑھنے میں آسانی رہتی ہے۔
لکھنؤ کی بی آرامبیڈکر سینٹرل یونی ورسٹی میں چند روز قبل سشما کی پڑھائی کا آغاز ہوا ہے۔ اس سے پہلے اس کے والد اپنی سائیکل پر روز اسے یونی ورسٹی لاتے لے جاتے رہے تھے تاکہ وہ پڑھائی شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ سے مل سکے۔ سشما ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر قواعدکے مطابق اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل اس کے لیے میڈیکل کے داخلہ ٹیسٹ میں شرکت ممکن نہیں تھی، چناں چہ اس نے مائیکروبایولوجی میں ایم ایس سی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایم ایس سی کی تکمیل کے بعد وہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
سشما کم عمری میں، تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی اپنے گھر کی پہلی فرد نہیں ہے۔ اس کے بڑے بھائی نے بھی نو سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرلی تھی، اور 2007ء میں چودہ برس کی عمر میں وہ بھارت کے کم عمر ترین کمپیوٹر گریجویٹس میں شامل ہوگیا تھا۔
اگر سشما کسی اور خاندان کی فرد ہوتی تو شائد اپنے بھائی کے نقش قدم پر نہ چل پاتی۔ بھارت میں کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور ان میں کثیر تعداد لڑکیوں کی ہے جن کے والدین بیٹوں کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر سشما بہت خوش قسمت ثابت ہوئی ہے۔ سشما کی تعلیم کے لیے تیج بہادر ورما نے اترپردیش کے ایک گاؤں میں واقع اپنی واحد جائیداد، زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فروخت کردیا تھا۔ تیج بہادر کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد اور دوستوں نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی مگر میرے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔
سشما کی غیرمعمولی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ایک خیراتی ادارے نے اسے تعلیمی اخراجات کے لیے آٹھ لاکھ روپے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ نیک دل مخیر حضرات اور اداروں کی جانب سے بھی اسے مالی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
غریب لڑکی کا یونیورسٹی تک پہنچنا کوئی تعجب کی بات نہیں مگر سشما کے معاملے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی عمر محض تیرہ سال ہے۔ سشما نے اسکول کی تعلیم صرف سات برس کی عمر میں مکمل کرلی تھی، اور چند ماہ قبل اس نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرکے سبھی کو حیران کردیا تھا۔ شمالی ہندوستان کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی سشما کے والد، تیج بہادر ورما اپنی بیٹی کو ہر صورت اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ سشما پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام حاصل کرے۔ سشما کی غیرمعمولی ذہانت نے ان کے اس جذبے کو مہمیز کردیا تھا۔ چناں چہ انھوں نے اس کی فیسوں اور کتابوں کے لیے اپنی تھوڑی بہت زمین بھی بیچ دی تھی۔ سشما کہتی ہے،'' انھوں نے مجھے وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دی جو میں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے امید ہے کہ دوسرے والدین بھی اپنے بچوں پر اپنی مرضی نہیں تھوپیں گے۔''
سشما لکھنؤ میں، ایک کمرے والے گھر میں اپنے تین چھوٹے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ عام سی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے معمولات کھانے پینے، سونے اور پڑھائی کرنے تک محدود ہیں۔ تیج بہادر ورما زیرتعمیر جگہوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں جس کے عوض انھیں روزانہ دوسو روپے تک ملتے ہیں۔ ایک کمرے پر مشتمل اس گھر میں سب سے قیمتی شے پڑھنے والی میز اور ایک پرانا کمپیوٹر ہے۔ سشما کا کہنا ہے کہ ایک کمرے والے گھر میں ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھائی ممکن نہیں، مگر اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسان کے تمام خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ اس کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں ہے جس وکی وجہ سے، بقول سشما کے، پڑھنے میں آسانی رہتی ہے۔
لکھنؤ کی بی آرامبیڈکر سینٹرل یونی ورسٹی میں چند روز قبل سشما کی پڑھائی کا آغاز ہوا ہے۔ اس سے پہلے اس کے والد اپنی سائیکل پر روز اسے یونی ورسٹی لاتے لے جاتے رہے تھے تاکہ وہ پڑھائی شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ سے مل سکے۔ سشما ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر قواعدکے مطابق اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل اس کے لیے میڈیکل کے داخلہ ٹیسٹ میں شرکت ممکن نہیں تھی، چناں چہ اس نے مائیکروبایولوجی میں ایم ایس سی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایم ایس سی کی تکمیل کے بعد وہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
سشما کم عمری میں، تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی اپنے گھر کی پہلی فرد نہیں ہے۔ اس کے بڑے بھائی نے بھی نو سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرلی تھی، اور 2007ء میں چودہ برس کی عمر میں وہ بھارت کے کم عمر ترین کمپیوٹر گریجویٹس میں شامل ہوگیا تھا۔
اگر سشما کسی اور خاندان کی فرد ہوتی تو شائد اپنے بھائی کے نقش قدم پر نہ چل پاتی۔ بھارت میں کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور ان میں کثیر تعداد لڑکیوں کی ہے جن کے والدین بیٹوں کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انھیں اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر سشما بہت خوش قسمت ثابت ہوئی ہے۔ سشما کی تعلیم کے لیے تیج بہادر ورما نے اترپردیش کے ایک گاؤں میں واقع اپنی واحد جائیداد، زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فروخت کردیا تھا۔ تیج بہادر کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد اور دوستوں نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی مگر میرے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔
سشما کی غیرمعمولی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ایک خیراتی ادارے نے اسے تعلیمی اخراجات کے لیے آٹھ لاکھ روپے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ نیک دل مخیر حضرات اور اداروں کی جانب سے بھی اسے مالی امداد فراہم کی جارہی ہے۔