زندگی اور شارٹ کٹ

گزشتہ کالم ’’دماغی الارم کلاک‘‘ کا کچھ زیادہ ہی رسپانس سامنے آیا ہے، لوگ خاص کر طلبا خواہشمند ہیں کہ...

waqar.ahmed@express.com.pk

لاہور:
گزشتہ کالم ''دماغی الارم کلاک'' کا کچھ زیادہ ہی رسپانس سامنے آیا ہے، لوگ خاص کر طلبا خواہشمند ہیں کہ انھیں ہپناٹائزڈ کرکے پورا سلیبس ذہن نشین کرا دیا جائے۔ آخر ہم زندگی میں شارٹ کٹ اپنانے کے اس قدر متمنی کیوں نظر آنے لگے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم آسان اور سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے ایسے شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں جس کا بظاہر انجام بھی ہمارے سامنے نہیں ہوتا۔ ایسے تمام تر طلبا جو شارٹ کٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ہمارا صائب مشورہ یہی ہے کہ وہ ان چکروں میں پڑنے کے بجائے سیدھے انداز میں اپنی پڑھائی مکمل کریں۔ بے شک ہم نے اسباق کو یاد کرنے کے لیے خود ترغیبی کے تحت کچھ ہدایات کا تذکرہ کیا تھا لیکن ہمارا مقصد آپ کو اس چیستان میں الجھانا نہیں بلکہ زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرانا تھا۔

ایک طالب علم کے پاس پورا سال اپنا کورس یاد کرنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے، اگر آپ زندگی کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت گزاریں، وقت پر پڑھائی کریں اور ٹائم ٹیبل کے تحت ہی دیگر امور سرانجام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ امتحانات میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔ خودترغیبی کو آپ ان امور میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے کام میں تو لاسکتے ہیں لیکن مکمل اسی پر انحصار کرلینا آپ کو کامیابی سے بہت پیچھے دھکیل دے گا۔ ہپناٹزم یا دیگر علوم جن کا تذکرہ ہم اپنے کالموں میں کر رہے ہیں بے شک ان کے کئی پہلو شارٹ کٹ کے زمرے میں آتے ہیں لیکن کالموں کا یہ سلسلہ شروع کرتے ہی ہم نے یہ باور کروا دیا تھا کہ ہمارا مقصد آپ لوگوں کی کردار سازی اور شخصیت کے منفی پہلوئوں کو ختم کرنا ہے، اسی لیے ہم اپنے کالموں میں ان مشقوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو آپ کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنے میں مہمیز کا کردار ادا کریں۔

اب ہم آتے ہیں گزشتہ سے پیوستہ موضوع یعنی تنویم کاری کی طرف۔ تنویم کی اصل حقیقت ترغیب پذیری اور اثر اندازی ہے، یعنی آپ کی صرف یہ خواہش کہ مجھ پر تنویمی کیفیت طاری ہوجائے، انسان کے اندر ترغیب پذیری کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے۔ بظاہر ترغیبات عامل کی طرف سے آتی ہیں مثلاً اب تمھارا جسم بھاری ہورہا ہے، اب تمھاری آنکھیں بند ہورہی ہیں، اب تم پر تنویمی نیند طاری ہورہی ہے، لیکن درحقیقت جب تک معمول خود ان ترغیبات کو قبول کرکے یہ محسوس نہ کرے کہ میرا جسم بھاری ہورہا ہے، میری آنکھیں بند ہورہی ہیں اور مجھ پر تنویمی نیند غالب آرہی ہے، اس وقت تک عامل کی تمام کوششیں اور کاوشیں فضول ہیں۔ کارفرما قوت عامل نہیں خود معمول ہے۔ البتہ معمول کو ترغیبات اور عامل کے احکام و ہدایت قبول کرلینے پر ذہنی طور سے تیار کیا جائے۔ جب تک معمول ذہنی طور پر خود ترغیب پذیری پر آمادہ نہ ہوگا ممکن نہیں ہے کہ اس پر تنویمی عمل کیا جاسکے۔


معمول کو ذہنی طور پر آمادہ کرنے کے لیے ڈرامائی ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور ایسی ترکیبیں اختیار کی جاتی ہیں جو اسے چونکا دیں، اس میں تجسس کا جذبہ جگادیں۔ معمول کو محسوس ہونا چاہیے کہ اب غیر معمولی واقعات پیش آنے والے ہیں اور وہ ایک نئی مگر حد درجہ فرحت انگیز اور پر از دلچسپی ڈرامے کا کردار بننے والا ہے۔ تنویم کاری کا ڈرامائی ماحول پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور پانچ چھ ہزار سال سے ان ہی طریقوں پر عمل ہورہا ہے۔ صحرا نشین قبائل کا جادو اور غیر ترقی یافتہ گروہوں کی ساحرانہ رسوم بھی درحقیقت ہپناٹزم ہی کا ایک حصہ ہیں۔ تنویمی اثر اندازی کے معروف طریقے کچھ اس طرح ہیں۔معمول کے جسم کو چھوئے بغیر پاس کرنا (یعنی معمول کے جسم پر ہاتھ سے اشارے کرنا)۔ معمول کے جسم پر ہاتھ رکھ کر پاس کرنا۔ معمول کو ہدایت کرنا کہ وہ کسی ایک نقطے پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کردے۔ تنویمی نیند کی زبانی ترغیبات دینا۔

جسم کو چھوئے بغیر پاس کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ معمول کو آرام سے لٹا دیا جاتا ہے اور عامل دونوں بازو پھیلا کر مریض کے جسم کے مختلف حصوں پر بلندی سے پاس کرتا ہے۔ مسمریزم، مسمر کے نام سے موسوم ہے، اس کا طریق کار یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ معمول کے کاندھے پر رکھتا تھا اور پھر ہاتھ اٹھا کر معمول کی انگلیاں پکڑ لیتا تھا۔ اس ترکیب کو متعدد مرتبہ دہراتا تھا، مسمر کا مقلد جسم کو چھوئے بغیر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتا تھا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ معمول کو تاریک کمرے میں بٹھا دیا جاتا ہے، عامل اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، معمول کے عقب میں ایک چراغ (لیمپ) کو اس طرح رکھا جاتا ہے کہ اس کی روشنی عامل کی آنکھ پر پڑے، اور معمول کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ عامل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے گھورتا رہے، یا عامل معمول کی ناک یا ابروئوں کے درمیانی حصے پر نظریں جما دیتا ہے، یا پھر معمول کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تاریک کمرے میں کسی چمکدار چیز پر پلک جھپکائے بغیر نظریں جما دے۔ اس دوران عامل برابر معمول کو ترغیبات دیتا رہتا ہے کہ: تمھاری پلکیں بھاری ہورہی ہیں، تمھارا جسم اکڑ رہا ہے، تم پر تنویمی نیند طاری ہورہی ہے۔ بہتر ہے کہ ترغیبی فقرے کے الفاظ مضبوط، واضح، صاف لہجے میں ادا کیے جائیں۔ اگر عامل کے لہجے میں ذرا بھی کمزوری یا اس کی ترغیب میں الجھائو اور ترغیب کی ادائیگی میں پس و پیش ہوگا تو ممکن نہیں کہ معمول عامل کے حکم کی تعمیل کرسکے، مثلاً:

''تم بالکل آرام دہ پوزیشن میں لیٹے (یا بیٹھے) ہو۔ بالکل آرام سے، بالکل آرام سے، بالکل آرام سے، تم محسوس کررہے ہو کہ میں بہت آرام سے لیٹا (یا بیٹھا) ہوں۔ دیکھو، تمھاری پلکیں بھاری ہورہی ہیں، پلکیں بھاری ہورہی ہیں، تم چاہتے ہو کہ آنکھیں بند کرلو، آنکھیں بند کرلو، تمھاری آنکھیں بند ہوگئیں، سنو، میری آواز دور سے دور تر ہوتی چلی جارہی ہے، مگر تم اسے سن رہے ہو، اور تم برابر میری آواز سنتے رہو گے، لو اب تمھیں نیند آرہی ہے، تم آہستہ آہستہ نیند میں ڈوبتے چلے جارہے ہو، اب تمھیں نیند آرہی ہے، تم آہستہ آہستہ نیند میں ڈوبتے چلے جارہے ہو، گہری نیند، فرحت بخش نیند اور خوشگوار نیند۔ تم ہر حالت میں میری آواز سنتے رہو گے۔ میرے علاوہ تم کوئی آواز نہیں سن سکتے۔ تم میری آواز سن رہے ہو اور میری ہدایات پر عمل کرو گے۔''اس طرح معمول پر رفتہ رفتہ نیند کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اس عالم میں وہ عامل کے تمام جائز احکام کی تعمیل پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ آپ نے نوٹ کیا کہ ان ہدایات میں کچھ جملوں کی مستقل تکرار ہے۔ ہدایات کی یہ تکرار بھی معمول کو آپ کی بات ماننے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ عامل کی شخصیت، آواز اور آنکھوں کا پرتاثر اور متاثر کن ہونا اس عمل کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط ہے۔ کچھ لوگ ایسی متاثر کن شخصیت کے قدرتی حامل ہوتے ہیں لیکن کردار سازی و تنظیم شخصیت کی مشقیں بھی آپ میں ایسی صلاحیتیں اجاگر کرسکتی ہیں۔
Load Next Story