نیل آرمسٹرانگ چاند پرپہلا قدم رکھنے والے مسافر کی مسافت ختم
’’ ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کیلئے ایک لمبی جست ہے‘‘
KARACHI:
تجسس حضرت انسان کی فطرت کا وہ خاصہ ہے جس نے اسے اشرف المخلوقات ہونے کا صحیح حقدار بنادیا کیونکہ یہی وہ پہلو ہے، جس نے انسان کو پرندوں کی طرح ہوائوں میں اڑنا اور دریائوں میں مچھلیوں کی طرح تیرنا تک سیکھا دیا ۔ انسانوں میں کچھ انسان انسانیت کا فخر ہوتے ہیں جنہوں نے اس خطہ ارض کے بعد بقول اقبالؒ کے ستاروں پر کمند ڈال دی اور ایسے ہی انسانوں میں سے ایک نیل آرمسٹرانگ بھی تھا جس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے (چاند) کو چھوکر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
5 اگست 1930ء میں امریکی ریاست اوہایو میں پیدا ہونے والے نیل آرمسٹرانگ وہ پہلے امریکی خلا باز تھے، جنہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا، جو تاریخ کے پنوں میں امر ہوچکا ہے۔ خلابازی سے قبل وہ امریکی نیوی میں آفیسرتھے۔ انھوں نے کورین جنگ میں حصہ بھی لیا ۔ جنگ کے بعد خلابازی کی قومی مشاورتی کمیٹی میں خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف سائوتھ کیلیفورنیا سے گریجوایشن کی تعلیم مکمل کی، پھرانڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی سے ایروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں انجینئرنگ یونیورسٹی آف سدرن کیرولینا سے ایروسپیس میں ماسٹرزکیا ۔
آرمسٹرانگ نے1962ء میں ناسا کو جوائن کیا اور 1966ء میں خلابازوں کی ایک ٹیم نے ان کی سربراہی میں خلا کا پہلا سفر کیا اور اس طرح وہ پہلے سویلین امریکی بن گئے، جس نے خلا بازی کا اعزاز حاصل کیا ۔ آرمسٹرانگ نے چاند کی طرف خلابازی کا اپنا دوسرا اور آخری سفر20جولائی 1969ء کو کیا جہاں انھوں نے بزالڈرین کے ہمراہ تقریباً اڑھائی گھنٹے چاند کی سطح پر قیام کیا۔ چاند پر قدم رکھتے ہوئے ان کے الفاظ کہ '' ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کیلئے ایک لمبی جست ہے'' تاریخ میں ثبت ہوچکے ہیں۔ آرمسٹرانگ کو امریکی صدر رچرڈ نکسن اور صدرجمی کارٹر کی طرف سے صدارتی ایوارڈ دیا گیاجبکہ گزشتہ برس انھیں امریکا کے سب سے بڑے سول اعزاز ''کانگریشنل گولڈمیڈل'' سے بھی نوازا گیا۔
نیل کے والد سٹیفن آرمسٹرانگ اوہایو کی ریاستی حکومت کیلئے بطور ایڈیٹر فرائض انجام دیتے تھے۔ 20 جولائی 1936ء میں جبکہ نیل صرف چھ برس کے تھے، انھوں نے پہلی بار ہوابازی کا تجربہ کیا۔ نیل نے صرف 15سال کی عمر میں ہوابازی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا جبکہ وہ تاحال ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کر پائے تھے۔ 26جنوری1949ء کو نیل نیوی میں بھرتی ہو گئے اورصرف 20 برس کی عمر میں 16اگست 1950ء کو وہ ایک مکمل پائلٹ بن چکے تھے۔ 29اگست1951ء میں کورین جنگ میں نیل کو پہلی بار ایکشن میںدیکھا گیا۔
3ستمبر 1951ء میں وون سن کے مغربی حصہ میں انھوں نے560 کلومیٹر کی رفتار سے سطح زمین کے انتہائی قریب جا کر بمباری کی جس سے ان کے بہادر ہونے کا پتا چلتا ہے۔ نیل اس جنگ کے دوران ایک سو اکیس گھنٹے ہوا میں رہے اور انھوں نے78 اڑانیں بھریں۔ اس جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے پر آرمسٹرانگ کو متعدد ایوارڈز اور انعامات ملے۔ آرمسٹرانگ نے 22 سال کی عمر میں23 اگست1922ء کو نیوی کو خیرباد کہہ دیا ۔
نیوی چھوڑنے کے بعد آرمسٹرانگ واپس پرڈیو آگئے جہاں وہ"Kappa Kappa Psi" نیشنل آنریری بینڈ فریٹیرنٹی کے ممبر اور'' پرڈیو آل امریکن مارچنگ بینڈ ''کے بیری ٹون پلیئر بھی رہے۔ نیل نے انڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی سے ایئروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ پرڈیو میں ہی نیل کی ملاقات جینٹ الزبتھ شیرون سے ہوئی اور جنوری1956ء میں ان دونوں نے ویل میٹے کے ایک چرچ میں شادی کرلی۔ نیل کے تین بچے تھے جن میں ایرک، کیرن اور مارک شامل ہیں، 1961ء میں کیرن برین ٹیومر کے عارضے میں مبتلا ہوئی اور 28جنوری 1962ء کو انتقال کرگئی۔
نیل اپالو پروگرام کے لیے خاصے پرجوش تھے۔ اپالو پروگرام میں انتخاب کیلئے نیل کی درخواست مقررہ مدت سے تقریباً ایک ہفتہ بعد موصول ہوئی، لیکن پروگرام کیلئے منعقدہ امتحان میں امیدواروں کی مایوس کن پرفارمنس کے باعث 13ستمبر 1962ء کو آرمسٹرانگ کو بلا لیا گیا ،اور ان سے پروگرام میں ان کی دلچسپی بارے استفسار کیا گیا۔ نیل نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوراً حامی بھر لی۔ یوں آرمسٹرانگ کو سویلین پائلٹس میں شامل کر لیا گیا۔ 20جولائی1969ء کو نیل نے پہلی بار چاند پر قدم رکھا تو کروڑوں لوگ ٹیلی ویژن پر حیرت سے انھیں دیکھ رہے تھے۔
25اگست 2012ء کو نیل آرمسٹرانگ 82سال کی عمر میں عارضۂ قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔ نیل کی وفات پر امریکی صدر باراک اوباما نے آنجہانی خلاباز نیل آرمسٹرانگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ '' نیل صرف اپنے دور کے ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے ہیرو تھے ''۔ اوباما نے نیل آرمسٹرانگ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دنیا کو ایک قدم کی طاقت سے روشناس کرایا ۔ مائیکل کولنز جو اپالو 11مشن میں نیل کے ساتھی پائلٹ تھے نے کہا کہ''وہ بہترین آدمی تھا اور مجھے ہمیشہ ان کی بہت یاد آئے گی''۔ ناسا کے سربراہ چارلس بولڈن نے کہا کہ '' وہ امریکا کے عظیم محققوں میں سے تھے۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''جب بھی خلائی سائنس کی تاریخ لکھی جائے گی تو نیل آرمسٹرانگ کا نام اس میں ضرور شامل ہو گا ۔ ''
چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلاباز نیل لاکھوں لوگوں کے ہیرو تھے لیکن انھوں نے شہرت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ آرمسٹرانگ ہیرو سے ایک پہیلی کیوں بن گئے؟ خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف اینڈریو اسمتھ کہتے ہیں کہ '' نیل کا کہنا تھا کہ چاند پر انسان کو اتارنے کے مشن پر 4 لاکھ افراد نے مختلف حیثیتوں میں دن رات کام کیا اور صرف خلا میں جانے کی وجہ سے میں مشہور ہو گیا جو کہ میرا حق نہیں بنتا۔''
اسمتھ نے کہا کہ '' چاند پر اترنے کے بعد آرمسٹرانگ راتوں رات مشہور ہوگئے تھے۔ ان کا مشن چاند پر ایسے دور میں گیا جب دنیا خلابازی کے سحر میں گرفتار تھی۔ آرمسٹرانگ اپنی شہرت سے مالی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے حالانکہ چاند پر جانے والے دوسرے خلابازوں نے ایسا کیا ۔'' نیلامیاں کروانے والی ایک کمپنی نے بتایا کہ آرمسٹرانگ کو صرف ایک شام آٹو گراف دینے کے دس لاکھ ڈالر مل سکتے تھے لیکن انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔
آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نہیں تھے؟
دنیا کے حیرت انگیز واقعہ (چاند پر انسان کا پہلا قدم) کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نہیں تھے۔۔۔۔۔؟ دنیا کا ایک بڑا مکتبۂ فکر اس ''نہ'' کی بہت ساری وجوہات بیان کرتا ہے، اس کے خیال میں امریکا نے یہ سب کچھ دنیا پر اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے کیا۔ اس مکتب فکر کے مطابق چاند پر قدم رکھنے کی فوٹیج میں جھنڈا لہراتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ بارہا تحقیقات اور آنے جانے سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ چاند پر تیزا ہوا موجود نہیں ہے۔
دوسری بات قمری ماڈیول کے نیچے ایک لینڈنگ گڑھے کی بھی کمی ہے کیونکہ جب ایک گاڑی سو کلومیٹر کی رفتار سے چلتے ہوئے رکے تو اس کے نشان ضرور پڑتے جبکہ فوٹیج میں یہ سب موجود نہیں۔ خلابازی پر کام کرنیوالے کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فوٹیج میں سائے کافی سیاہ نہیں ہیں بلکہ متضاد طریقوں سے روشنی دی جارہی ہے۔ اس مکتبۂ فکر کے مطابق فوٹیج جعلی تھی اور نیل وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے چاند پر قدم رکھا ، اسی لئے وہ(نیل) اس واقعہ کے بعد دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے رہے جس کا ثبوت نیل خود اپنے کچھ بیانات میں بھی دے چکے ہیں۔ آرمسٹرانگ کہ خیال میں وہ شہرت اور توجہ کے حقدار نہیں۔
خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف اینڈریو اسمتھ کہتے ہیں کہ ''خلابازوں کو واپسی پر ناسا نے عالمی دورے پر بھیج دیا۔ آرمسٹرانگ اس دورے میں شامل ہوتے ہوئے بھی تقریبات سے الگ تھلگ نظر آئے۔ انھوں نے ہر جگہ پراپنے جذبات کی بجائے حقائق بیان کئے۔ انھوں نے تقریر کرنے سے اور انٹرویو دینے سے بھی انکار کردیا ۔ رفتہ رفتہ انھوں نے آٹوگراف دینا اور غیر نجی محافل میں تصویر کھنچوانا بھی بند کردیا ۔ گزشتہ چالیس سال میں نیل نے صرف دو انٹرویو دیئے۔ وہ تقریبات سے گھبراتے اور لوگوں سے دور رہتے تھے۔''
خلائی تحقیق میں پیش رفت
کائنات کے کسی اور سیارے یا ستارے پر زندگی تلاش کرنے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں جس کی بنیاد نیل نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر ڈالی اور اسی کوشش نے نیا موڑ لیا ہے۔ چند روز قبل 6 اگست کو امریکا کی جدید ترین موبائل لیبارٹری'کیوراسٹی' خلا کا 570ملین کلومیٹر کا طویل سفر8ماہ میں طے کرتے ہوئے نظام شمسی کے سرخ سیارے مریخ پر کامیابی سے اترگئی۔ یہ ایک ٹن وزنی روبوٹک گاڑی سیارے پر اپنے دوسالہ قیام کے دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ آیا کبھی مریخ پر زندگی کے آثار موجود تھے یا نہیں۔ اس مشن کا بڑا مقصد مریخ کے مشہور گڑھے''گیل'' میں واقع 5کلومیٹر اونچے پہاڑ پر تحقیق کرنا ہے۔
تجسس حضرت انسان کی فطرت کا وہ خاصہ ہے جس نے اسے اشرف المخلوقات ہونے کا صحیح حقدار بنادیا کیونکہ یہی وہ پہلو ہے، جس نے انسان کو پرندوں کی طرح ہوائوں میں اڑنا اور دریائوں میں مچھلیوں کی طرح تیرنا تک سیکھا دیا ۔ انسانوں میں کچھ انسان انسانیت کا فخر ہوتے ہیں جنہوں نے اس خطہ ارض کے بعد بقول اقبالؒ کے ستاروں پر کمند ڈال دی اور ایسے ہی انسانوں میں سے ایک نیل آرمسٹرانگ بھی تھا جس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے (چاند) کو چھوکر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
5 اگست 1930ء میں امریکی ریاست اوہایو میں پیدا ہونے والے نیل آرمسٹرانگ وہ پہلے امریکی خلا باز تھے، جنہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا، جو تاریخ کے پنوں میں امر ہوچکا ہے۔ خلابازی سے قبل وہ امریکی نیوی میں آفیسرتھے۔ انھوں نے کورین جنگ میں حصہ بھی لیا ۔ جنگ کے بعد خلابازی کی قومی مشاورتی کمیٹی میں خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف سائوتھ کیلیفورنیا سے گریجوایشن کی تعلیم مکمل کی، پھرانڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی سے ایروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں انجینئرنگ یونیورسٹی آف سدرن کیرولینا سے ایروسپیس میں ماسٹرزکیا ۔
آرمسٹرانگ نے1962ء میں ناسا کو جوائن کیا اور 1966ء میں خلابازوں کی ایک ٹیم نے ان کی سربراہی میں خلا کا پہلا سفر کیا اور اس طرح وہ پہلے سویلین امریکی بن گئے، جس نے خلا بازی کا اعزاز حاصل کیا ۔ آرمسٹرانگ نے چاند کی طرف خلابازی کا اپنا دوسرا اور آخری سفر20جولائی 1969ء کو کیا جہاں انھوں نے بزالڈرین کے ہمراہ تقریباً اڑھائی گھنٹے چاند کی سطح پر قیام کیا۔ چاند پر قدم رکھتے ہوئے ان کے الفاظ کہ '' ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کیلئے ایک لمبی جست ہے'' تاریخ میں ثبت ہوچکے ہیں۔ آرمسٹرانگ کو امریکی صدر رچرڈ نکسن اور صدرجمی کارٹر کی طرف سے صدارتی ایوارڈ دیا گیاجبکہ گزشتہ برس انھیں امریکا کے سب سے بڑے سول اعزاز ''کانگریشنل گولڈمیڈل'' سے بھی نوازا گیا۔
نیل کے والد سٹیفن آرمسٹرانگ اوہایو کی ریاستی حکومت کیلئے بطور ایڈیٹر فرائض انجام دیتے تھے۔ 20 جولائی 1936ء میں جبکہ نیل صرف چھ برس کے تھے، انھوں نے پہلی بار ہوابازی کا تجربہ کیا۔ نیل نے صرف 15سال کی عمر میں ہوابازی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا جبکہ وہ تاحال ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کر پائے تھے۔ 26جنوری1949ء کو نیل نیوی میں بھرتی ہو گئے اورصرف 20 برس کی عمر میں 16اگست 1950ء کو وہ ایک مکمل پائلٹ بن چکے تھے۔ 29اگست1951ء میں کورین جنگ میں نیل کو پہلی بار ایکشن میںدیکھا گیا۔
3ستمبر 1951ء میں وون سن کے مغربی حصہ میں انھوں نے560 کلومیٹر کی رفتار سے سطح زمین کے انتہائی قریب جا کر بمباری کی جس سے ان کے بہادر ہونے کا پتا چلتا ہے۔ نیل اس جنگ کے دوران ایک سو اکیس گھنٹے ہوا میں رہے اور انھوں نے78 اڑانیں بھریں۔ اس جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے پر آرمسٹرانگ کو متعدد ایوارڈز اور انعامات ملے۔ آرمسٹرانگ نے 22 سال کی عمر میں23 اگست1922ء کو نیوی کو خیرباد کہہ دیا ۔
نیوی چھوڑنے کے بعد آرمسٹرانگ واپس پرڈیو آگئے جہاں وہ"Kappa Kappa Psi" نیشنل آنریری بینڈ فریٹیرنٹی کے ممبر اور'' پرڈیو آل امریکن مارچنگ بینڈ ''کے بیری ٹون پلیئر بھی رہے۔ نیل نے انڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی سے ایئروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ پرڈیو میں ہی نیل کی ملاقات جینٹ الزبتھ شیرون سے ہوئی اور جنوری1956ء میں ان دونوں نے ویل میٹے کے ایک چرچ میں شادی کرلی۔ نیل کے تین بچے تھے جن میں ایرک، کیرن اور مارک شامل ہیں، 1961ء میں کیرن برین ٹیومر کے عارضے میں مبتلا ہوئی اور 28جنوری 1962ء کو انتقال کرگئی۔
نیل اپالو پروگرام کے لیے خاصے پرجوش تھے۔ اپالو پروگرام میں انتخاب کیلئے نیل کی درخواست مقررہ مدت سے تقریباً ایک ہفتہ بعد موصول ہوئی، لیکن پروگرام کیلئے منعقدہ امتحان میں امیدواروں کی مایوس کن پرفارمنس کے باعث 13ستمبر 1962ء کو آرمسٹرانگ کو بلا لیا گیا ،اور ان سے پروگرام میں ان کی دلچسپی بارے استفسار کیا گیا۔ نیل نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوراً حامی بھر لی۔ یوں آرمسٹرانگ کو سویلین پائلٹس میں شامل کر لیا گیا۔ 20جولائی1969ء کو نیل نے پہلی بار چاند پر قدم رکھا تو کروڑوں لوگ ٹیلی ویژن پر حیرت سے انھیں دیکھ رہے تھے۔
25اگست 2012ء کو نیل آرمسٹرانگ 82سال کی عمر میں عارضۂ قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔ نیل کی وفات پر امریکی صدر باراک اوباما نے آنجہانی خلاباز نیل آرمسٹرانگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ '' نیل صرف اپنے دور کے ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے ہیرو تھے ''۔ اوباما نے نیل آرمسٹرانگ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دنیا کو ایک قدم کی طاقت سے روشناس کرایا ۔ مائیکل کولنز جو اپالو 11مشن میں نیل کے ساتھی پائلٹ تھے نے کہا کہ''وہ بہترین آدمی تھا اور مجھے ہمیشہ ان کی بہت یاد آئے گی''۔ ناسا کے سربراہ چارلس بولڈن نے کہا کہ '' وہ امریکا کے عظیم محققوں میں سے تھے۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''جب بھی خلائی سائنس کی تاریخ لکھی جائے گی تو نیل آرمسٹرانگ کا نام اس میں ضرور شامل ہو گا ۔ ''
چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلاباز نیل لاکھوں لوگوں کے ہیرو تھے لیکن انھوں نے شہرت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ آرمسٹرانگ ہیرو سے ایک پہیلی کیوں بن گئے؟ خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف اینڈریو اسمتھ کہتے ہیں کہ '' نیل کا کہنا تھا کہ چاند پر انسان کو اتارنے کے مشن پر 4 لاکھ افراد نے مختلف حیثیتوں میں دن رات کام کیا اور صرف خلا میں جانے کی وجہ سے میں مشہور ہو گیا جو کہ میرا حق نہیں بنتا۔''
اسمتھ نے کہا کہ '' چاند پر اترنے کے بعد آرمسٹرانگ راتوں رات مشہور ہوگئے تھے۔ ان کا مشن چاند پر ایسے دور میں گیا جب دنیا خلابازی کے سحر میں گرفتار تھی۔ آرمسٹرانگ اپنی شہرت سے مالی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے حالانکہ چاند پر جانے والے دوسرے خلابازوں نے ایسا کیا ۔'' نیلامیاں کروانے والی ایک کمپنی نے بتایا کہ آرمسٹرانگ کو صرف ایک شام آٹو گراف دینے کے دس لاکھ ڈالر مل سکتے تھے لیکن انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔
آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نہیں تھے؟
دنیا کے حیرت انگیز واقعہ (چاند پر انسان کا پہلا قدم) کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نہیں تھے۔۔۔۔۔؟ دنیا کا ایک بڑا مکتبۂ فکر اس ''نہ'' کی بہت ساری وجوہات بیان کرتا ہے، اس کے خیال میں امریکا نے یہ سب کچھ دنیا پر اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے کیا۔ اس مکتب فکر کے مطابق چاند پر قدم رکھنے کی فوٹیج میں جھنڈا لہراتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ بارہا تحقیقات اور آنے جانے سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ چاند پر تیزا ہوا موجود نہیں ہے۔
دوسری بات قمری ماڈیول کے نیچے ایک لینڈنگ گڑھے کی بھی کمی ہے کیونکہ جب ایک گاڑی سو کلومیٹر کی رفتار سے چلتے ہوئے رکے تو اس کے نشان ضرور پڑتے جبکہ فوٹیج میں یہ سب موجود نہیں۔ خلابازی پر کام کرنیوالے کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فوٹیج میں سائے کافی سیاہ نہیں ہیں بلکہ متضاد طریقوں سے روشنی دی جارہی ہے۔ اس مکتبۂ فکر کے مطابق فوٹیج جعلی تھی اور نیل وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے چاند پر قدم رکھا ، اسی لئے وہ(نیل) اس واقعہ کے بعد دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے رہے جس کا ثبوت نیل خود اپنے کچھ بیانات میں بھی دے چکے ہیں۔ آرمسٹرانگ کہ خیال میں وہ شہرت اور توجہ کے حقدار نہیں۔
خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف اینڈریو اسمتھ کہتے ہیں کہ ''خلابازوں کو واپسی پر ناسا نے عالمی دورے پر بھیج دیا۔ آرمسٹرانگ اس دورے میں شامل ہوتے ہوئے بھی تقریبات سے الگ تھلگ نظر آئے۔ انھوں نے ہر جگہ پراپنے جذبات کی بجائے حقائق بیان کئے۔ انھوں نے تقریر کرنے سے اور انٹرویو دینے سے بھی انکار کردیا ۔ رفتہ رفتہ انھوں نے آٹوگراف دینا اور غیر نجی محافل میں تصویر کھنچوانا بھی بند کردیا ۔ گزشتہ چالیس سال میں نیل نے صرف دو انٹرویو دیئے۔ وہ تقریبات سے گھبراتے اور لوگوں سے دور رہتے تھے۔''
خلائی تحقیق میں پیش رفت
کائنات کے کسی اور سیارے یا ستارے پر زندگی تلاش کرنے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں جس کی بنیاد نیل نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر ڈالی اور اسی کوشش نے نیا موڑ لیا ہے۔ چند روز قبل 6 اگست کو امریکا کی جدید ترین موبائل لیبارٹری'کیوراسٹی' خلا کا 570ملین کلومیٹر کا طویل سفر8ماہ میں طے کرتے ہوئے نظام شمسی کے سرخ سیارے مریخ پر کامیابی سے اترگئی۔ یہ ایک ٹن وزنی روبوٹک گاڑی سیارے پر اپنے دوسالہ قیام کے دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ آیا کبھی مریخ پر زندگی کے آثار موجود تھے یا نہیں۔ اس مشن کا بڑا مقصد مریخ کے مشہور گڑھے''گیل'' میں واقع 5کلومیٹر اونچے پہاڑ پر تحقیق کرنا ہے۔