سردار کو بخش دیں
سردار کو ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ تمام افواہوں کی موت صرف کارکردگی ہے
دوست کہنے لگا پی ٹی آئی کی حکومت اب زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی۔ وجہ پوچھنے پر کہتا ہے کہ تم نے وزیراعظم عمران خان کا تازہ ترین فرمان نہیں سنا۔ کون سا فرمان؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ یار وہی کہ جب تک پی ٹی آئی اقتدار میں ہے عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب رہے گا۔
میں نے اپنی حیرت کو چھپاتے ہوئے پوچھ لیا کہ اگر عثمان بزدار وزیراعلیٰ برقرار رہتا ہے تو وہ حکومت کی جلد رخصتی کا باعث کیوں بن سکتا ہے۔ ہماری بحث کافی دیر چلتی رہی اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کی بحث کے بعد نکلا کرتا ہے۔ میں نے اسے جاتے جاتے اتنا ضرور کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اگر وقت سے پہلے جائے گی تو اس کی وجہ قومی ٹیم کا کپتان تو ہو سکتا ہے کسی صوبائی ٹیم کے کپتان کی وجہ سے ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔
عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں سن کر مجھے پیپلزپارٹی کی آصف زرداری والی حکومت کا دور یاد آتا ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی ادھر اس کے جانے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ حکومت گرتے پڑتے پانچ سال نکال گئی تھی۔ نواز شریف کا دور حکومت بھی کوئی خاص مختلف نہیں رہا۔ 2014ء کے دھرنوں کے بعد صبح گیا یا شام گیا والی کیفیت کئی بار پیدا ہوئی۔ وہ تو پاناما پیپرز والا اسکینڈل آیا تو نواز شریف وزارت عظمی کے منصب سے فارغ ہوئے لیکن اس کے باوجود ان کی جماعت کی حکومت نے 5 سال پورے کیے۔
عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ چوائس یقیناحیران کن تھی۔ کہاں شریف خاندان کا چشم و چراغ شہباز شریف اور کہاں جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع کا نامعلوم سردار عثمان بزدار۔ ایک انتہائی تجربہ کار اور دوسرا ٹرینی سیاستدان۔ پنجاب میں حکومت سازی سے پہلے کپتان نے متعدد امیدواروں کے انٹرویو کیے تھے۔ انٹرویو دے کر باہر آنے والا ہر امیدوار وزارت اعلیٰ کی سیڑھی چڑھنے کا یقین رکھتا تھا۔ پنجاب میں تین سے چار مضبوط دھڑے اپنے امیدوار کو وزیراعلیٰ بنوانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور قرعہ فال ایک ایسے شخص کے نام نکل آیا جس کو پی ٹی آئی والوں کی اکثریت جانتی تک نہیں تھی۔
تحریک انصاف پنجاب کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور فواد چوہدری نے تو ابھی چند دن پہلے ہی کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف والوں کی اکثریت عثمان بزدار کو نہیں جانتی۔ سردار وزیر اعلیٰ تو بن گیا مگر کپتان کی ٹیم کے اکثر کھلاڑیوں نے دل سے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ مشیروں اور معاونین کی ایک فوج اس پر مسلط کر دی گئی۔ وہ شریف آدمی ابتدا میں ملاقات کے لیے آنے والوں کو بتاتارہا کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کے امیدوارکی تلاش میں تھا کہ اس سے راہ و رسم بڑھا سکے۔
اسے لاہور کے راستوں کا بھی سرے سے پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ اپنی ''کم علمی'' کا اظہار ہر ملاقاتی سے کرتا۔ اس طرح کی باتوں سے لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا وزیراعلیٰ ایک کمزور شخص کو بنا دیا گیا ہے۔ اس سردار کی سادگی نے زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا۔ پنجاب کے عوام مسلسل 10 سال ایک سخت گیر اور منتظم وزیراعلیٰ شہباز شریف کو حکومت کرتے دیکھ چکے تھے، مخالفین یقین کر بیٹھے کہ اس کو گرانا آسان ہے۔ ادھر اس نے منصب سنبھالا ادھر اس کے جانے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ جب پراپیگنڈہ زور پکڑ گیا توکپتان کو میدان میں آنا پڑا۔ کپتان نے سردار کو وسیم اکرم پلس قرار دیا تو تنقید کی شدت میں تیزی آگئی۔ کپتان نے ٹائٹل واپس نہیں لیا۔
سردار نے ساری مخالفتوں کے باوجود ایک سال نکال لیا ہے۔ ابتداء میں وزیراعلیٰ والے اکثر کام مشیر وغیرہ ہی کر رہے تھے اب تو وہ باضابطہ وزیراعلیٰ بن گیا ہے اور ڈنگی وغیرہ کے اجلاس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی کر دیتا ہے۔ کپتان کے تازہ وار نے مخالفوں کی توپوں کو وقتی طور پر ہی سہی ایک بار پھر خاموش کرا دیا ہے۔ کپتان کی طرف سے کی گئی موجودہ حمایت چند ہفتے یا چند ماہ سردار کے خلاف پراپیگنڈہ کی خاموشی کا ضرور باعث بنے گی۔ پھر نیا سلسلہ شروع ہو گا اور کپتان کو دوبارہ سے فرمان جاری کرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے جب تک اقتدار ہے یہ کھیل بھی جاری رہے گا۔ کس کھلاڑی کو کہاں اور کس پوزیشن پر کھلانا ہے ا س کا فیصلہ کپتان کرتا ہے۔
ضروری نہیں کہ کپتان کے سارے فیصلے آئیڈیل ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پنجاب کی موجودہ ٹیم میں کوئی دوسرا کھلاڑی سردار سے بہتر پرفارم کر سکتا ہو۔ ممکن تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کپتان اگر اپنے فیصلے پر بضد ہے تو پھر ٹیم کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس فیصلے کی پیروی کرے۔ گورننس میں خامیوں سمیت کئی مسائل ہیں جن پر قابو پایا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں سردار کو وزیراعلیٰ بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا کیونکہ اس سے پہلے تو اس کے کام وزیر مشیر کر رہے تھے۔ اب اس نے ''چارج'' سنبھالا ہے تو پھر اسے وقت دیا جانا چاہیے۔
کپتان کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے جب اس کے ''باغی'' کھلاڑی افواہوں کا بازار گرم کرتے ہیں تو حکومت کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ بیوروکریسی تو پہلے ہی یہ بہانا بنا کر بیٹھی ہوئی ہے کہ وہ نیب کے خوف کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی ۔ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی افواہیں زور پکڑتی ہیں تو بیوروکریٹ روز مرہ کے کام کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں شروع کر دیتے ہیں موجودہ باس تبدیل ہو رہا ہے، سینہ گزٹ ان سرگوشیوں کو دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ بے یقینی کی فضا بن جاتی ہے۔
مخالفوں کا ایک اور وار ناکام ہو گیا ہے۔ پراپیگنڈہ کی نئی مہم کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔ سردار کو چاہیے اس درکار وقت سے فایدہ اٹھائے۔ گورننس بہتر بنائے، پنجاب پولیس کو لگام ڈالے اور ڈنگی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں کرے۔ سردار کو کپتان کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت بھی حاصل ہے۔اسے ڈرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ۔ وہ اگر اعتماد سے کام کرے تو بہتر نتائج بھی آسکتے ہیں۔سردار کو ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ تمام افواہوں کی موت صرف کارکردگی ہے اور مخالفین سے بھی ایک اپیل ہے کہ دل بڑا کریں اور سردار کو بخش دیں۔
میں نے اپنی حیرت کو چھپاتے ہوئے پوچھ لیا کہ اگر عثمان بزدار وزیراعلیٰ برقرار رہتا ہے تو وہ حکومت کی جلد رخصتی کا باعث کیوں بن سکتا ہے۔ ہماری بحث کافی دیر چلتی رہی اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کی بحث کے بعد نکلا کرتا ہے۔ میں نے اسے جاتے جاتے اتنا ضرور کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اگر وقت سے پہلے جائے گی تو اس کی وجہ قومی ٹیم کا کپتان تو ہو سکتا ہے کسی صوبائی ٹیم کے کپتان کی وجہ سے ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔
عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں سن کر مجھے پیپلزپارٹی کی آصف زرداری والی حکومت کا دور یاد آتا ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی ادھر اس کے جانے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ حکومت گرتے پڑتے پانچ سال نکال گئی تھی۔ نواز شریف کا دور حکومت بھی کوئی خاص مختلف نہیں رہا۔ 2014ء کے دھرنوں کے بعد صبح گیا یا شام گیا والی کیفیت کئی بار پیدا ہوئی۔ وہ تو پاناما پیپرز والا اسکینڈل آیا تو نواز شریف وزارت عظمی کے منصب سے فارغ ہوئے لیکن اس کے باوجود ان کی جماعت کی حکومت نے 5 سال پورے کیے۔
عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ چوائس یقیناحیران کن تھی۔ کہاں شریف خاندان کا چشم و چراغ شہباز شریف اور کہاں جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع کا نامعلوم سردار عثمان بزدار۔ ایک انتہائی تجربہ کار اور دوسرا ٹرینی سیاستدان۔ پنجاب میں حکومت سازی سے پہلے کپتان نے متعدد امیدواروں کے انٹرویو کیے تھے۔ انٹرویو دے کر باہر آنے والا ہر امیدوار وزارت اعلیٰ کی سیڑھی چڑھنے کا یقین رکھتا تھا۔ پنجاب میں تین سے چار مضبوط دھڑے اپنے امیدوار کو وزیراعلیٰ بنوانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور قرعہ فال ایک ایسے شخص کے نام نکل آیا جس کو پی ٹی آئی والوں کی اکثریت جانتی تک نہیں تھی۔
تحریک انصاف پنجاب کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور فواد چوہدری نے تو ابھی چند دن پہلے ہی کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف والوں کی اکثریت عثمان بزدار کو نہیں جانتی۔ سردار وزیر اعلیٰ تو بن گیا مگر کپتان کی ٹیم کے اکثر کھلاڑیوں نے دل سے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ مشیروں اور معاونین کی ایک فوج اس پر مسلط کر دی گئی۔ وہ شریف آدمی ابتدا میں ملاقات کے لیے آنے والوں کو بتاتارہا کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کے امیدوارکی تلاش میں تھا کہ اس سے راہ و رسم بڑھا سکے۔
اسے لاہور کے راستوں کا بھی سرے سے پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ اپنی ''کم علمی'' کا اظہار ہر ملاقاتی سے کرتا۔ اس طرح کی باتوں سے لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا وزیراعلیٰ ایک کمزور شخص کو بنا دیا گیا ہے۔ اس سردار کی سادگی نے زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا۔ پنجاب کے عوام مسلسل 10 سال ایک سخت گیر اور منتظم وزیراعلیٰ شہباز شریف کو حکومت کرتے دیکھ چکے تھے، مخالفین یقین کر بیٹھے کہ اس کو گرانا آسان ہے۔ ادھر اس نے منصب سنبھالا ادھر اس کے جانے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ جب پراپیگنڈہ زور پکڑ گیا توکپتان کو میدان میں آنا پڑا۔ کپتان نے سردار کو وسیم اکرم پلس قرار دیا تو تنقید کی شدت میں تیزی آگئی۔ کپتان نے ٹائٹل واپس نہیں لیا۔
سردار نے ساری مخالفتوں کے باوجود ایک سال نکال لیا ہے۔ ابتداء میں وزیراعلیٰ والے اکثر کام مشیر وغیرہ ہی کر رہے تھے اب تو وہ باضابطہ وزیراعلیٰ بن گیا ہے اور ڈنگی وغیرہ کے اجلاس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی کر دیتا ہے۔ کپتان کے تازہ وار نے مخالفوں کی توپوں کو وقتی طور پر ہی سہی ایک بار پھر خاموش کرا دیا ہے۔ کپتان کی طرف سے کی گئی موجودہ حمایت چند ہفتے یا چند ماہ سردار کے خلاف پراپیگنڈہ کی خاموشی کا ضرور باعث بنے گی۔ پھر نیا سلسلہ شروع ہو گا اور کپتان کو دوبارہ سے فرمان جاری کرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے جب تک اقتدار ہے یہ کھیل بھی جاری رہے گا۔ کس کھلاڑی کو کہاں اور کس پوزیشن پر کھلانا ہے ا س کا فیصلہ کپتان کرتا ہے۔
ضروری نہیں کہ کپتان کے سارے فیصلے آئیڈیل ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پنجاب کی موجودہ ٹیم میں کوئی دوسرا کھلاڑی سردار سے بہتر پرفارم کر سکتا ہو۔ ممکن تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کپتان اگر اپنے فیصلے پر بضد ہے تو پھر ٹیم کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس فیصلے کی پیروی کرے۔ گورننس میں خامیوں سمیت کئی مسائل ہیں جن پر قابو پایا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں سردار کو وزیراعلیٰ بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا کیونکہ اس سے پہلے تو اس کے کام وزیر مشیر کر رہے تھے۔ اب اس نے ''چارج'' سنبھالا ہے تو پھر اسے وقت دیا جانا چاہیے۔
کپتان کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے جب اس کے ''باغی'' کھلاڑی افواہوں کا بازار گرم کرتے ہیں تو حکومت کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ بیوروکریسی تو پہلے ہی یہ بہانا بنا کر بیٹھی ہوئی ہے کہ وہ نیب کے خوف کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی ۔ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی افواہیں زور پکڑتی ہیں تو بیوروکریٹ روز مرہ کے کام کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں شروع کر دیتے ہیں موجودہ باس تبدیل ہو رہا ہے، سینہ گزٹ ان سرگوشیوں کو دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ بے یقینی کی فضا بن جاتی ہے۔
مخالفوں کا ایک اور وار ناکام ہو گیا ہے۔ پراپیگنڈہ کی نئی مہم کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔ سردار کو چاہیے اس درکار وقت سے فایدہ اٹھائے۔ گورننس بہتر بنائے، پنجاب پولیس کو لگام ڈالے اور ڈنگی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں کرے۔ سردار کو کپتان کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت بھی حاصل ہے۔اسے ڈرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ۔ وہ اگر اعتماد سے کام کرے تو بہتر نتائج بھی آسکتے ہیں۔سردار کو ایک بات یادرکھنی چاہیے کہ تمام افواہوں کی موت صرف کارکردگی ہے اور مخالفین سے بھی ایک اپیل ہے کہ دل بڑا کریں اور سردار کو بخش دیں۔