کشمیر کی کہانی
کانگریس پارٹی کی رہنما پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی کو کشمیر کے ایئرپورٹ سے ہی واپس کردیا
کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں جاگیرداری پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ یہاں کا سماج مہرگڑھ، موئن جو دڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسے مشترکہ ملکیت یا ساجھے داری کا سماج تھا۔آج بھی کشمیرکے بہت سے ایسے علاقے ہیں ، جہاں اجتماعی چراگاہیں اور ایسی زمینیں ہیں ، جن کی مخصوص ملکیت کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس جنت نظیر وادی کے رہائشی زمانہ قدیم میں انتہائی پرمسرت زندگی گزارتے تھے۔ یہاں کی وہ ہر نعمتیں جو لوگوں کو دستیاب تھیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مگر جب سے دنیا میں ریاست کا وجود آیا تو اس کے اثرات کشمیر پر بھی پڑے۔ یہاں راجوں اور مہاراجوں کا دور شروع ہوگیا۔ شکاگو کے شہیدوں کا واقعہ تو 1886 کا ہے جب کہ کشمیر میں 1832 میں ریشم کے مزدوروں کی ہڑتال اور 1835 میں کسانوں کی عظیم الشان اور قابل مثال ہڑتال دنیا بھرکے لیے مشعل راہ ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ کسانوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو ٹیکس ادا کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ جس پر مہاراجہ کے غنڈوں نے ان پر ہلہ بول دیا۔
اس کے بعد کسانوں نے کشمیر بھر میں ہڑتال کردی۔ سات کسان رہنما جن میں سبز علی خان ، قلی خان، علی خان اور مسافر خان سمیت منگ کے مقام (موجودہ آزاد کشمیر) پر ایک زیتون کے درخت کی ٹہنی پر پاؤں میں کیل ٹھونک کر لٹکا دیا اور معافی مانگنے کوکہا۔ (یہ زیتون کا درخت راقم نے خود دیکھا ہے) کسانوں نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں کسان رہنماؤں کی کھالیں کھینچی گئیں لیکن سلام ہے ان عظیم کسان رہنماؤں کو جنھوں نے کھال تو کھنچوالی مگر مہاراجہ سے معافی نہیں مانگی۔
اب آجائیں ، ان کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی جانب۔اس وقت کشمیریوں کو دو ملکوں کے درمیان سینڈوچ بنا دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے وسائل پرکشمیریوں کا قبضہ نہیں بلکہ غیر ملکیوں کا ہے۔ ہندوستان نے تو ظلم کی انتہا کردی ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کو قتل کیا جا رہا ہے، خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور اب بھی ہزاروں کشمیری پابند سلاسل ہیں۔کشمیریوں کو فرقہ ، ذات برادری ، مذہب میں تقسیم کرکے دنیا سے تن وتنہا کرنے کی مذموم سازش کی جا رہی ہے۔کشمیر میں دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتا رام اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شہلا رشید نے دہلی کی سپریم کورٹ میں اس کی منسوخی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے اکتوبر کے پہلے ہفتے سماعت کی تاریخ دی ہے۔ ایک اور درخواست میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ کے رہنما سیتا رام نے کشمیر کے کمیونسٹ رہنما کی طبیعت معلوم کرنے کی خاطر ملاقات کی التجا کی تھی۔اس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے یہ کہا کہ سیتا رام کشمیری کمیونسٹ رہنما تارا گرامی کی خیریت معلوم کریں اور کسی سے نہ ملیں اور نہ کوئی انٹرویو دیں۔
کانگریس پارٹی کی رہنما پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی کو کشمیر کے ایئرپورٹ سے ہی واپس کردیا۔ گزشتہ دنوں سول سرونٹ کے ایک ذہین افسر کاننت گوپی ناتھ نے Right of Reaction کے آئینی حق کو ختم کرنے کے خلاف اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ادھر حال یہ ہے کہ کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد ساری دنیا خاموش ہے جب کہ دوسرے دن ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ نے دہلی میں مظاہرہ کیا، جموں کشمیرکے کشمیری پنڈتوں (ہندوکشمیریوں) نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے 2020 کے لیے سوشلسٹ صدارتی امیدوار سینیٹرز برنی سینڈرز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور غیر انسانی سلوک کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وادی سے کرفیو اور پابندیاں ختم کی جائیں۔ انھوں نے اسلامک سوسائٹی آف شمالی امریکا کے 56 ویں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے اور UNO کی قرارداد پر عمل کرنا چاہیے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، سوشلسٹ یونٹی آف انڈیا، ریڈیکل سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا، نیشنل کانگریس پارٹی نے اس دفعہ کے خاتمے کے خلاف نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ پارلیمنٹ میں 61 اراکین نے اس کی منسوخی کے خلاف ووٹ دیا۔ جب کہ بیشتر مسلم ممالک عالم عرب، مغربی افریقہ، وسطی ایشیا، بلقان ریاستیں، کوہ قاف، ایشیائی کوچک، انڈونیشیا، مالدیپ، بنگلہ دیش، وسطی افریقہ اور شمالی افریقہ سب خاموش نظر آتے ہیں۔
حریت کانفرنس کے رہنما تو قید ہوکر رہ گئے ہیں لیکن کشمیری نوجوان، انڈین اسٹوڈنٹس یونین (کمیونسٹ پارٹی کا طلبا محاذ)، ٹریڈ یونین، دانشوروں کی تنظیمیں اور ادیبوں کی تنظیمیں احتجاج کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہاں مگر چین، ملائیشیا اور ترکی نے بیانات جاری کیے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ تمام سرمایہ دار حکومتیں اپنے اپنے اقتصادی، سماجی اور سیاسی مفادات کے لیے خاموش رہتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی نوآدبایات کی چھینا جھپٹی کے لیے ہوئی تھیں۔ ریاست ہے ہی جبر کا ادارہ۔ سو وہ ہر صورت میں صاحب جائیداد طبقات کی مفادات کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر وہ عوام الناس کے مفادات کا محافظ ہوجائے تو پھر وہ ریاست نہیں رہتی بلکہ امداد باہمی کا آزاد سماج بن جائے گا۔
اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ کون کس کا حمایتی ہے یا نہیں۔ شاید اسی کی خاطر ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا کہ ''قدرت نے ہر انسان کو انسان بنایا / تم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا/ مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی/ تم نے کہیں بھارت اور کہیں ایران بنایا'' آج سے ہزاروں برس قبل جب ریاست کا وجود ہی نہیں تھا تو پھر مخصوص طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے پہرے داروں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اب جب کہ ریاست کا وجود ہے تو پھر لازم ہے کہ جہاں کے حکمران عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں وہاں کے عوام کے رد عمل کے بغیر جبر وظلم کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ویتنام پر 23 سال تک امریکی افواج ویتنامیوں پر بم برساتی رہی مگر امریکی افواج کو تب ویتنامی گوریلوں کے خلاف جنگ روک کر ہتھیار ڈالنا پڑے جب واشنگٹن میں لاکھوں عوام سڑک پر امنڈ آئے۔ آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہونے جا رہی ہے۔
برصغیر کے عوام کشمیریوں کے حقوق کے لیے سر اٹھا رہے ہیں۔ خاص کر ہندوستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان کے عوام۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تبدیلی یا مطالبات باہر سے عوام پر مسلط نہیں کی جاسکتی جب تک اندرونی حالات عوام کی موافقت میں نہ ہوں۔ یہ صورتحال کیسٹالونیہ، کریمیا اور تیمور میں بھی پیدا ہوئی اور اب کشمیر میں بھی جاری ہے۔ اس لیے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج نہیں تو کل کشمیری عوام کو ضرور آزادی ملے گی اور عوام خوشحال ہوں گے۔