احمد ندیم قاسمی کی اپنے گھر آمد کی خوشی آج تک نہ بُھلا سکا

ادیب اور دانش ور پروفیسر فتح محمد ملک کی یادوں کے دیے


Maqbool Ahmed Gohar August 31, 2012
ادیب اور دانش ور پروفیسر فتح محمد ملک کی یادوں کے دیے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: پروفیسر فتح محمد ملک کا نام صرف تعلیم میں ہی نہیں، تحقیق و ادب میں بھی بہت نمایاں ہے اور صحافت تو اُن کا پہلا پیشہ تھا۔ گویا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں انہوں نے کام یابیوں کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں۔ ''بھلا نہ سکے'' کی ذیل میں اُن سے کی گئی گفت گو حاضر ہے:

چھوٹے بڑے بہت سے واقعات ہر انسان کو پیش آتے ہیں، اِس میں چھوٹا بڑا ہونے کی حیثیت ثانوی ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ کوئی بھی واقعہ انسان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا ہوں، جس نے میری زندگی پر اہم اثرات مرتب کیے، میرے دل و دماغ میں پاکستان کی محبت بھر دی اور میں ساری عمر اسی محبت میں مبتلا رہا۔ اِسے یاد کرتا ہوں تو ایک عجیب قسم کی سرشاری میرے دل و دماغ میں بہار دکھلانے لگ جاتی ہے۔

یہ 1940 کا دور تھا، تحریکِ پاکستان جوبن پر تھی، ہر طرف پاکستان ہی کی باتیں ہو رہی تھیں، جب کہ اِس خطہ کے ہندو اکھنڈ بھارت کی بات کرتے تھے۔ ہندوئوں کی ترجمان جماعت کانگریس اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتی تھی، جب کہ مسلم لیگ، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگاتی تھی۔ اُن دنوں میں مڈل اسکول کا طالب علم تھا۔ اسکول کے دیگر بچوں کے ساتھ مل کر ہم نے اسکول میں مسلم لیگ قائم کی۔ ہمارا علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا، لیکن یہاں کے تمام بڑے زمین دار یونینسٹ سیاست داں تھے، جو کانگریس کے حامی تھے اور مسلم لیگ کے مخالف تھے۔ ہم بچے مل کر گائوں میں ایک جلوس نکالتے، جس میں، بن کے رہے گا پاکستان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے۔

اِس جلوس میں ان زمین داروں کے بچے بھی شامل ہوتے تھے، جو یونینسٹ تھے۔ مجھے یاد ہے، بچوں میں ایک عجیب قسم کا جوش و جذبہ پایا جاتا تھا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ایسی کون سی قوت ہے، جس نے بچوں کے دلوں میں پاکستان مسلم لیگ اور قائداعظم ؒسے محبت کا جذبہ بھر دیا تھا۔ وہ جذبہ اب بڑھاپے میں بھی میرے دل میں ویسے ہی موج زن ہے۔ یقیناً دوسرے بچوں کا حال بھی ایسا ہی ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ساتھی بچے اسلام کے نام پر بہت پُرجوش ہو جاتے تھے۔ مجھے اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ اُن بچوں کو کسی بڑے نے کوئی بات نہیں سمجھائی، میرے خیال میں یہ سب مالکِ کائنات کی قدرت کا مظہر ہے۔ اسی واقعے نے پوری زندگی میرے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کی محبت کو توانا رکھا۔

میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو احمد ندیم قاسمی کی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوتا۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا ایک بہت توانا امیج میرے ذہن میں اُبھر چکا تھا۔ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی نکل کر دیکھا تو میری آئیڈیل شخصیت سامنے کھڑی تھی۔ میرے لیے اُن کی جھلک حیرتوں کا پہاڑ لیے ہوئے تھی۔ اُس زمانے میں، میں احمد ندیم قاسمی کا بہت گرویدہ تھا، مجھے پتا چلا کہ آپ کسی کیس میں راول پنڈی جیل میں قید ہیں۔ میرے ایک شفیق اور بہت ہی مہربان، صحافی انہیں آٹھ دس دن کے بعد ملنے جاتے۔ ان کی ملاقات سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں ہوتی تھی۔ اس وقت تک قاسمی صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

ابھی میں نے لکھنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ میں نے اُس صحافی کو تلاش کیا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی، جو انہوں نے مان لی اور آئندہ مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں ان کے ساتھ گیا، جاتے ہوئے کچھ کتابیں قاسمی صاحب کو تحفہ دینے کے لیے ساتھ لے گیا۔ کتابیں دیکھ کر قاسمی صاحب بہت خوش ہوئے۔ رہائی کے بعد وہ لاہور تشریف لے گئے۔

ندیم صاحب کے ہم قفس ٹریڈ یونین لیڈر بشیر جاوید کی رہائی کے بعد شادی کی تقریب منعقد ہوئی، یقیناً بشیر جاوید نے قاسمی صاحب کو مدعو کیا ہوا تھا۔ جب قاسمی صاحب تشریف لائے تو انہوں نے بشیر جاوید سے مجھ سے ملنے کی بات کی۔ بشیر جاوید اُن کو لے کر میری رہائش گاہ پر آگئے۔ اُن کی آمد پر مجھے جو مسرت محسوس ہوئی، وہ مسرت میں زندگی بھر نہیں بھلا سکا۔ یاد رہے، قاسمی صاحب سے میری محبت دمِ آخر تک برقرار رہی۔ ندیم صاحب جب بھی پنڈی تشریف لاتے، سیدھے میری رہائش پر آتے، پھر مجھے ساتھ لے کر جہاں جانا ہوتا جاتے۔ ایک اور بات بتاتا چلوں، قاسمی صاحب جب بھی راول پنڈی میں تشریف لاتے تو میرے ہاں قیام کرتے جو میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ گو اُن سے محبت پوری زندگی پر محیط ہے لیکن پہلی دفعہ اُن کی آمد پر مجھے جو خوشی ملی وہ زندگی بھر میرا اثاثہ رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں