کولاژ ادبی جریدہ
کم از کم ’’کولاژ‘‘ کے مدیران کے نزدیک اِن سوالات کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے
ادب کے روبہ زوال ہونے کا مباحثہ، اردو زبان کے محدودات پر جاری مکالمہ، مطالعے کے دم توڑتے رجحان کا گریہ، اور ایسے میں ایک نئے ادبی جریدے کا اجرا، جس کے یک سطری اداریے میں، ادارے نے فقط یہ کہنے پر اکتفا کیا: ''پہلا کولاژ حاضر خدمت ہے!'' کئی سوالات پیدا کرتا ہے، جن میں اہم ترین تو یہی ہے کہ کیا اردو ادب اشاعتی و عصری تقاضے پورے کرتا ہے؟
کم از کم ''کولاژ'' کے مدیران کے نزدیک اِن سوالات کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، ورنہ ایک ضخیم ادبی پرچہ شایع کرنے کی بھلا کیوں ضرورت پیش آتی!
''کولاژ'' کا اداریہ گوکہ یک سطری ہے، تاہم پرچے میں رشید بٹ کا ''کولاژ'' ہی کے عنوان سے طویل مضمون شامل ہے، جس میں تاریخ اور تہذیب کے سفر میں ظاہر ہونے والی اُن علامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جو عین ''کولاژ'' ہیں۔
سلسلوں کی بات کی جائے، تو ''افسانے'' کے شعبے میں مجموعی طور پر 21 افسانے شامل ہیں، جن میں چار تراجم ہیں۔ بیرون ملک بسنے والے فکشن نگاروں کو بھی جگہ دی گئی ہے، نئے اور پرانے لکھاریوں کا متوازن امتزاج نظر آتا ہے۔
''مضامین'' کے سلسلے میں انتظار حسین نے لوک کہانیوں کے سفر، شمس الرحمان فاروقی نے شمشاد لکھنوی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے مابعدجدیدیت، ڈاکٹر سلیم اختر نے مسعود اشعر اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے خالد اختر کے ناول ''بیس سو گیارہ'' پر قلم اٹھایا ہے۔ مذکورہ سلسلے میں دیگر سنجیدہ لکھاریوں کے مضامین بھی شامل ہیں۔
''غزلیں'' کا سلسلہ متوازن نظر آتا ہے۔ سینیرز کے ساتھ نئے شعرا کا کلام بھی شامل ہے۔ یہی معاملہ نظموں کے شعبے کا ہے، جس میں دیگر زبانوں کے شعرا کے کلام کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ''خصوصی مطالعہ'' میں سعود عثمانی کے فن پر قلم اٹھایا گیا ہے۔
سلسلہ ''آرٹ'' میں جان وین آئک کے بنائے ہوئے پورٹریٹ اور وان گو کا خط شامل ہے۔ اِس حصے کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں مصوروں کے فن پاروں کو رنگین صفحات پر جگہ دی گئی ہے۔ پرچے میں چینی مصنفہ، شین ژونگ کا ناولٹ ''ساز زندگی'' شامل ہے، ترجمہ رشید بٹ کے قلم سے نکلا ہے۔ ''رپورتاژ'' کے سلسلے میں رشید بٹ اپنے منفرد اسلوب میں دیوار چین کی تاریخ اور مشاہدات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ سلسلہ ''درویش نامہ'' اقبال نظر کے قلم سے نکلا ہے۔ ''اسٹریٹ تھیٹر'' کے عنوان تلے بھی اُن کی دو نگارشات موجود ہیں۔ شاہدہ تبسم کی تخلیقات بھی مختلف سلسلوں میں شامل ہیں۔ غازی صلاح الدین کا انشائیہ ''تین عورتیں ایک کہانی'' اہم تحریر ہے۔ جرمن شاعر گوئٹے کی نظم کا ''نغمۂ محمدی'' کے عنوان سے شان الحق حقی کا ترجمہ قابل توجہ ہے۔
مجموعی طور پر ''کولاژ'' کا مواد مطالعیت کے عناصر رکھتا ہے، جن میں اہم ترین عنصر ''تنوع'' ہے۔ مواد کا انتخاب بھی متوازن اور معیاری ہے۔ ہر سلسلے کے آغاز میں ایک ''اسکیچ'' دیا گیا ہے۔ ''پروف ریڈنگ'' پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پرچے کی ''لوح'' معروف مجسمہ ساز، انجم ایاز کی تخلیق ہے، جو بامعنی معلوم ہوتی ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ کاغذ اچھا استعمال کیا گیا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر پرچہ بڑے سائز میں شایع کیا گیا ہے۔ اشتہارات کی تعداد بھی حوصلہ افزا ہے، جو ایک ضخیم پرچے کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔
''کولاژ'' کا پہلا تاثر متاثر کُن ہے۔ اِس کی اہمیت، ضرورت اور حیثیت کا حتمی تعین تو قارئین و ناقدین کریں گے، فی الوقت اِسے ایک قابل ستایش کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ کاغذ کی بڑھتی قیمت، ادب سے بے اعتنائی کے باعث یہ اندیشہ بہ ہرحال موجود ہے کہ مستقبل میں معیار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔
کم از کم ''کولاژ'' کے مدیران کے نزدیک اِن سوالات کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، ورنہ ایک ضخیم ادبی پرچہ شایع کرنے کی بھلا کیوں ضرورت پیش آتی!
''کولاژ'' کا اداریہ گوکہ یک سطری ہے، تاہم پرچے میں رشید بٹ کا ''کولاژ'' ہی کے عنوان سے طویل مضمون شامل ہے، جس میں تاریخ اور تہذیب کے سفر میں ظاہر ہونے والی اُن علامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جو عین ''کولاژ'' ہیں۔
سلسلوں کی بات کی جائے، تو ''افسانے'' کے شعبے میں مجموعی طور پر 21 افسانے شامل ہیں، جن میں چار تراجم ہیں۔ بیرون ملک بسنے والے فکشن نگاروں کو بھی جگہ دی گئی ہے، نئے اور پرانے لکھاریوں کا متوازن امتزاج نظر آتا ہے۔
''مضامین'' کے سلسلے میں انتظار حسین نے لوک کہانیوں کے سفر، شمس الرحمان فاروقی نے شمشاد لکھنوی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے مابعدجدیدیت، ڈاکٹر سلیم اختر نے مسعود اشعر اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے خالد اختر کے ناول ''بیس سو گیارہ'' پر قلم اٹھایا ہے۔ مذکورہ سلسلے میں دیگر سنجیدہ لکھاریوں کے مضامین بھی شامل ہیں۔
''غزلیں'' کا سلسلہ متوازن نظر آتا ہے۔ سینیرز کے ساتھ نئے شعرا کا کلام بھی شامل ہے۔ یہی معاملہ نظموں کے شعبے کا ہے، جس میں دیگر زبانوں کے شعرا کے کلام کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ''خصوصی مطالعہ'' میں سعود عثمانی کے فن پر قلم اٹھایا گیا ہے۔
سلسلہ ''آرٹ'' میں جان وین آئک کے بنائے ہوئے پورٹریٹ اور وان گو کا خط شامل ہے۔ اِس حصے کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں مصوروں کے فن پاروں کو رنگین صفحات پر جگہ دی گئی ہے۔ پرچے میں چینی مصنفہ، شین ژونگ کا ناولٹ ''ساز زندگی'' شامل ہے، ترجمہ رشید بٹ کے قلم سے نکلا ہے۔ ''رپورتاژ'' کے سلسلے میں رشید بٹ اپنے منفرد اسلوب میں دیوار چین کی تاریخ اور مشاہدات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ سلسلہ ''درویش نامہ'' اقبال نظر کے قلم سے نکلا ہے۔ ''اسٹریٹ تھیٹر'' کے عنوان تلے بھی اُن کی دو نگارشات موجود ہیں۔ شاہدہ تبسم کی تخلیقات بھی مختلف سلسلوں میں شامل ہیں۔ غازی صلاح الدین کا انشائیہ ''تین عورتیں ایک کہانی'' اہم تحریر ہے۔ جرمن شاعر گوئٹے کی نظم کا ''نغمۂ محمدی'' کے عنوان سے شان الحق حقی کا ترجمہ قابل توجہ ہے۔
مجموعی طور پر ''کولاژ'' کا مواد مطالعیت کے عناصر رکھتا ہے، جن میں اہم ترین عنصر ''تنوع'' ہے۔ مواد کا انتخاب بھی متوازن اور معیاری ہے۔ ہر سلسلے کے آغاز میں ایک ''اسکیچ'' دیا گیا ہے۔ ''پروف ریڈنگ'' پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پرچے کی ''لوح'' معروف مجسمہ ساز، انجم ایاز کی تخلیق ہے، جو بامعنی معلوم ہوتی ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ کاغذ اچھا استعمال کیا گیا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر پرچہ بڑے سائز میں شایع کیا گیا ہے۔ اشتہارات کی تعداد بھی حوصلہ افزا ہے، جو ایک ضخیم پرچے کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔
''کولاژ'' کا پہلا تاثر متاثر کُن ہے۔ اِس کی اہمیت، ضرورت اور حیثیت کا حتمی تعین تو قارئین و ناقدین کریں گے، فی الوقت اِسے ایک قابل ستایش کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ کاغذ کی بڑھتی قیمت، ادب سے بے اعتنائی کے باعث یہ اندیشہ بہ ہرحال موجود ہے کہ مستقبل میں معیار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔