کراچی کا نیا مسئلہ کیا ہے
جس طرح آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، اسی طرح کچرا کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
KARACHI:
ایک وقت تھا کہ کراچی شہر میں مسائل معمولی نوعیت کے ہوتے تھے اور لوگ ان سے نبرد آزما ہوجاتے تھے، مثلاً ضیا الحق کے دورے حکومت میںجب ہم بسوں میں سفرکرتے تھے، سفرکے لیے بس اسٹاپ پر پندرہ بیس منٹ یا حد سے حد تیس منٹ بس کے آنے کا انتظارکرنا پڑتا تھا لیکن سفرکے لیے بس میں نشست مل جاتی تھی بہت کم کھڑے ہوکر سفرکرنا پڑتا تھا اور شہر میں کہیں بھی جانا ہو زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس منٹ کا سفر ہوتا تھا۔
شہر میں بارش بعض اوقات ہفتے بھر جاری رہتی تھی مگر سوائے ندی نالوں یا نشیبی علاقوںکے کہیں بھی بارش کا پانی کھڑا نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کہیں کچرے کا ڈھیر نظر آتا تھا۔
اب شہرکا منظر نامہ بدل چکا ہے، جس طرح آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، اسی طرح کچرا کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب آبادی میں اضافے کے بعد اس شہرکے وسائل میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا، تاکہ کچرا اٹھانے کے لیے جتنی افرادی قوت ، مشینری اورجدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے وہ شہری حکومت کو ملے اور وہ عوام کی خدمت کرے، مگراس وقت انتظامی لحاظ سے شہری حکومت کا شکوہ ہے کہ صوبائی حکومت ایک جانب اس کی جائز ضروریات مثلاً فنڈز وغیرہ جو آبادی کے تناسب سے ملنا چاہیے، فراہم نہیں کر رہی اور تعاون بھی نہیں کر رہی، اسی طرح صوبائی حکومت بھی شہری حکومت سے یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ جوکچھ شہری حکومت کے پاس وہ کام کرنے کے لیے کافی ہے اورصوبائی حکومت قانون کے مطابق ہی ہر قسم کا تعاون کر رہی ہے۔
تیسری طرف تحریک انصاف کے حکومت میں شامل عوامی نمایندوں کے جانب سے بھی وہ کردار سامنے نہیں آیا کہ جس سے کراچی کے عوام مطمئن ہوئے ہوں، یوں زبانی کلامی تو تینوں ہی بڑی جماعتیں میڈیا پر آکر اپنی اپنی صفائیاں پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمارکر رہی ہیں مگر اب اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے عوام کراچی کی تاریخ کی بد ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں جہاں وہ دوران بارش اپنے ہی پوش علاقوں میں گھروں میں قید ہوجاتے ہیں انھیں گھر سے باہر نکلنے کا راستہ تک نہیں ملتا، پانی بجلی کا مسئلہ تو چھوڑئیے، بدبو اور تعفن اس قدرہے کہ سانس لینا بھی محال ہے۔
اس سب کے پس پشت کیا ہے ؟ کیوں اس قدر برا حال ہے ؟ حالیہ بارشوں کے بعد ایک ٹی وی چینل نے اس راز کے ایک پہلو سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق کراچی کے فلاں فلاں ضلع میں بارہ کروڑکا فیول صرف کاغذات میں استعمال ہوا جب کہ گاڑیاں اپنی جگہ کھڑی رہیں ، فلاں ضلع کی گاڑیاں روزانہ دس ہزارلیٹر فیول پیتی ہیں،کسی ضلع میں اٹھائیس اورکسی ضلع میں اٹھاسی کروڑ روپے کا فیول استعمال ہوا۔
فیول کب ،کہاں اورکیسے استعمال ہوا،اس کا کوئی ریکارڈ نہیں، اسی طرح اس ٹی وی چینل نے یہ راز بھی کھولا کہ ضلع وسطیٰ کے چیئرمین کا بجٹ سات اعشاریہ نواسی بلین کا ہے اور یہاں ایک ہزار ایک سو پچپن ملازمین ہیں۔ اس قسم کا حال تمام ضلعوں میں نظر آتا ہے جب کہ میئرکراچی کا بجٹ چھبیس بلین ہے اور ملازمین کی تعداد سولہ ہزار ہے۔اس قسم کی خبروں کے بعد ذہن میں سادا سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے سارے ملازمین اور بجٹ کے ہوتے ہوئے اور اس قدر مقدار میں فیول استعمال ہونے کے باوجود شہر سے کچرا اٹھتا ہوا نظرکیوں نہیں آتا ؟
کام کرتے ہوئے ملازمین اور فیول استعمال کرنے والی گاڑیاں عوام اور میڈیا کو نظرکیوں نہیں آتیں؟ اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ اس شہر میں کل تک تو تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے پورے شہر میں اس قدر ملازمین اور مشینری کے ساتھ کام ہو رہا تھا اور اس قدر تیزی کے سات کام ہو رہا تھا کہ دکاندار اپنے شلٹر اورسائن بورڈ وغیرہ اتار نے کے لیے دن رات مصروف تھے کہ پتہ نہیں کس لمحے شہری حکومت کارروائی کے لیے پہنچ جائے، لیکن بارش کی تباہی سے بچنے کے لیے نہ کسی کے پاس سامان ہے نہ ملازمین اور نہ ہی وسائل؟
اگر یہ بات مان لی جائے کہ کوئی شہری حکومت سے تعاون نہیں کر رہا تو اس بات کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس شہرکو نقصان پہنچانے کے لیے تو سب جماعتیں اوراسٹیک ہولڈر ایک ہیں مگر عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ایک نہیں؟
بہرکیف کراچی کے عوام اس نتیجے پر تو پہنچ چکے ہیں کہ اس شہرکے مسائل حل کرنے کے ضمن میں ہمارے تمام منتخب نمایندوں (خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں) اور شہری انتظامیہ نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں، لیکن یہاں پھر ایک اہم ترین سوال ہے کہ ان سب کے ہاتھ اٹھانے کے بعد بھی یہ اہم ترین سوال کیوں نہیں اٹھایا جا رہا ہے کہ شہری حکومت کو ملنے والے فنڈزکہاں گئے؟ کام کرنے والے ملازمین نے کام کیوں نہیں کیا؟
یہ تو شہری حکومت کی سرکاری ڈیوٹی ہے کہ جب وہ ملازمین کو تنخواہیں دے تو ان سے کام بھی لے،اسی طرح جب فیول کا بجٹ لے تو انھیں گاڑیوں میں ڈال کر ،گاڑیاں چلا کر شہری مسائل کے حل کے لیے استعمال کرے۔ یہ فیول کہاں گیا ؟ گاڑیا ں کیوں نہیں چلیں؟
ان تمام سوالوں کا جواب لینا سب سے پہلے ضروری ہے کیونکہ اختیارات کی جنگ توایک طویل جنگ ہے جو سیاست کی طرح نہ ختم ہونے والی جنگ ہے مگر اختیارات کا معاملہ الگ ہے اور کام نہ کرنا، بجٹ کا غلط استعمال یا استعمال نہ کرنا الگ معاملہ ہے۔
میڈیا پر ایسی خبریں بھی آئیں کہ فلاں سربراہ نے کراچی کے پوش علاقے میں سولہ کروڑ کا بنگلہ خرید لیا، فلاں نے بینک بیلنس بنا لیا ، وغیرہ وغیرہ۔ان خبروں سے اور شہری حکومت کی ناقص کارکردگی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جن کو پکڑے بغیرکبھی بھی اس شہرکے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہ کالی بھیڑیں اورکرپشن ہی آج کراچی جیسے اہم ترین اورکما کر دینے والے شہرکا مسئلہ ہے۔
جس طرح آج کل نیب اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہوئے ساتوں آسمان پر ہونے والی کرپشن میں ملوث لوگوں کو پکڑ رہی ہے، اگر وہ اس طرف توجہ دے اورکراچی شہر کی حالت بہتر بنانے میں مدد کرے توکوئی وجہ نہیں کہ شہرکی تعمیروترقی کے نام پر ملنے والے فنڈ اور بجٹ کا آیندہ درست استعمال نہ ہو۔ چند کالی بھیڑوں کا صرف دس سال کا ریکارڈ چیک کرنا ہوگا کہ وہ اس سے قبل کیا اثاثے رکھتے تھے اور آج ان کے اثاثے کیا ہیں ؟
اگر یہ کام شہری حکومت سے منسلک تمام بڑے ذمے داران( خواہ وہ سرکاری ملازمین ہوں یا منتخب عوامی نمایندے) سے کر لیا جائے اور ان کے دس سال قبل اور موجودہ اثاثوں کی تفصیلات میڈیا پر بھی پیش کردی جائے تو عوام کو بھی یہ چہرے پہچاننے میں آسانی ہوگی اور وہ بھی آیندہ ان کا محاسبہ کرسکیں گے۔
آج کراچی شہرکا بڑا مسئلہ ان کالی بھیڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اورکرپٹ عناصر سے نجات حاصل کرنا ہے ورنہ تو اختیارات کی جنگ ایک طویل جنگ ہے جو عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے اورکرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے جاری رہے گی۔ یہی کراچی کا نیا اور اہم ترین مسئلہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ کراچی شہر میں مسائل معمولی نوعیت کے ہوتے تھے اور لوگ ان سے نبرد آزما ہوجاتے تھے، مثلاً ضیا الحق کے دورے حکومت میںجب ہم بسوں میں سفرکرتے تھے، سفرکے لیے بس اسٹاپ پر پندرہ بیس منٹ یا حد سے حد تیس منٹ بس کے آنے کا انتظارکرنا پڑتا تھا لیکن سفرکے لیے بس میں نشست مل جاتی تھی بہت کم کھڑے ہوکر سفرکرنا پڑتا تھا اور شہر میں کہیں بھی جانا ہو زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس منٹ کا سفر ہوتا تھا۔
شہر میں بارش بعض اوقات ہفتے بھر جاری رہتی تھی مگر سوائے ندی نالوں یا نشیبی علاقوںکے کہیں بھی بارش کا پانی کھڑا نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کہیں کچرے کا ڈھیر نظر آتا تھا۔
اب شہرکا منظر نامہ بدل چکا ہے، جس طرح آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، اسی طرح کچرا کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب آبادی میں اضافے کے بعد اس شہرکے وسائل میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا، تاکہ کچرا اٹھانے کے لیے جتنی افرادی قوت ، مشینری اورجدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے وہ شہری حکومت کو ملے اور وہ عوام کی خدمت کرے، مگراس وقت انتظامی لحاظ سے شہری حکومت کا شکوہ ہے کہ صوبائی حکومت ایک جانب اس کی جائز ضروریات مثلاً فنڈز وغیرہ جو آبادی کے تناسب سے ملنا چاہیے، فراہم نہیں کر رہی اور تعاون بھی نہیں کر رہی، اسی طرح صوبائی حکومت بھی شہری حکومت سے یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ جوکچھ شہری حکومت کے پاس وہ کام کرنے کے لیے کافی ہے اورصوبائی حکومت قانون کے مطابق ہی ہر قسم کا تعاون کر رہی ہے۔
تیسری طرف تحریک انصاف کے حکومت میں شامل عوامی نمایندوں کے جانب سے بھی وہ کردار سامنے نہیں آیا کہ جس سے کراچی کے عوام مطمئن ہوئے ہوں، یوں زبانی کلامی تو تینوں ہی بڑی جماعتیں میڈیا پر آکر اپنی اپنی صفائیاں پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمارکر رہی ہیں مگر اب اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے عوام کراچی کی تاریخ کی بد ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں جہاں وہ دوران بارش اپنے ہی پوش علاقوں میں گھروں میں قید ہوجاتے ہیں انھیں گھر سے باہر نکلنے کا راستہ تک نہیں ملتا، پانی بجلی کا مسئلہ تو چھوڑئیے، بدبو اور تعفن اس قدرہے کہ سانس لینا بھی محال ہے۔
اس سب کے پس پشت کیا ہے ؟ کیوں اس قدر برا حال ہے ؟ حالیہ بارشوں کے بعد ایک ٹی وی چینل نے اس راز کے ایک پہلو سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق کراچی کے فلاں فلاں ضلع میں بارہ کروڑکا فیول صرف کاغذات میں استعمال ہوا جب کہ گاڑیاں اپنی جگہ کھڑی رہیں ، فلاں ضلع کی گاڑیاں روزانہ دس ہزارلیٹر فیول پیتی ہیں،کسی ضلع میں اٹھائیس اورکسی ضلع میں اٹھاسی کروڑ روپے کا فیول استعمال ہوا۔
فیول کب ،کہاں اورکیسے استعمال ہوا،اس کا کوئی ریکارڈ نہیں، اسی طرح اس ٹی وی چینل نے یہ راز بھی کھولا کہ ضلع وسطیٰ کے چیئرمین کا بجٹ سات اعشاریہ نواسی بلین کا ہے اور یہاں ایک ہزار ایک سو پچپن ملازمین ہیں۔ اس قسم کا حال تمام ضلعوں میں نظر آتا ہے جب کہ میئرکراچی کا بجٹ چھبیس بلین ہے اور ملازمین کی تعداد سولہ ہزار ہے۔اس قسم کی خبروں کے بعد ذہن میں سادا سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے سارے ملازمین اور بجٹ کے ہوتے ہوئے اور اس قدر مقدار میں فیول استعمال ہونے کے باوجود شہر سے کچرا اٹھتا ہوا نظرکیوں نہیں آتا ؟
کام کرتے ہوئے ملازمین اور فیول استعمال کرنے والی گاڑیاں عوام اور میڈیا کو نظرکیوں نہیں آتیں؟ اسی طرح یہ سوال بھی ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ اس شہر میں کل تک تو تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے پورے شہر میں اس قدر ملازمین اور مشینری کے ساتھ کام ہو رہا تھا اور اس قدر تیزی کے سات کام ہو رہا تھا کہ دکاندار اپنے شلٹر اورسائن بورڈ وغیرہ اتار نے کے لیے دن رات مصروف تھے کہ پتہ نہیں کس لمحے شہری حکومت کارروائی کے لیے پہنچ جائے، لیکن بارش کی تباہی سے بچنے کے لیے نہ کسی کے پاس سامان ہے نہ ملازمین اور نہ ہی وسائل؟
اگر یہ بات مان لی جائے کہ کوئی شہری حکومت سے تعاون نہیں کر رہا تو اس بات کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس شہرکو نقصان پہنچانے کے لیے تو سب جماعتیں اوراسٹیک ہولڈر ایک ہیں مگر عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ایک نہیں؟
بہرکیف کراچی کے عوام اس نتیجے پر تو پہنچ چکے ہیں کہ اس شہرکے مسائل حل کرنے کے ضمن میں ہمارے تمام منتخب نمایندوں (خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں) اور شہری انتظامیہ نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں، لیکن یہاں پھر ایک اہم ترین سوال ہے کہ ان سب کے ہاتھ اٹھانے کے بعد بھی یہ اہم ترین سوال کیوں نہیں اٹھایا جا رہا ہے کہ شہری حکومت کو ملنے والے فنڈزکہاں گئے؟ کام کرنے والے ملازمین نے کام کیوں نہیں کیا؟
یہ تو شہری حکومت کی سرکاری ڈیوٹی ہے کہ جب وہ ملازمین کو تنخواہیں دے تو ان سے کام بھی لے،اسی طرح جب فیول کا بجٹ لے تو انھیں گاڑیوں میں ڈال کر ،گاڑیاں چلا کر شہری مسائل کے حل کے لیے استعمال کرے۔ یہ فیول کہاں گیا ؟ گاڑیا ں کیوں نہیں چلیں؟
ان تمام سوالوں کا جواب لینا سب سے پہلے ضروری ہے کیونکہ اختیارات کی جنگ توایک طویل جنگ ہے جو سیاست کی طرح نہ ختم ہونے والی جنگ ہے مگر اختیارات کا معاملہ الگ ہے اور کام نہ کرنا، بجٹ کا غلط استعمال یا استعمال نہ کرنا الگ معاملہ ہے۔
میڈیا پر ایسی خبریں بھی آئیں کہ فلاں سربراہ نے کراچی کے پوش علاقے میں سولہ کروڑ کا بنگلہ خرید لیا، فلاں نے بینک بیلنس بنا لیا ، وغیرہ وغیرہ۔ان خبروں سے اور شہری حکومت کی ناقص کارکردگی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جن کو پکڑے بغیرکبھی بھی اس شہرکے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہ کالی بھیڑیں اورکرپشن ہی آج کراچی جیسے اہم ترین اورکما کر دینے والے شہرکا مسئلہ ہے۔
جس طرح آج کل نیب اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہوئے ساتوں آسمان پر ہونے والی کرپشن میں ملوث لوگوں کو پکڑ رہی ہے، اگر وہ اس طرف توجہ دے اورکراچی شہر کی حالت بہتر بنانے میں مدد کرے توکوئی وجہ نہیں کہ شہرکی تعمیروترقی کے نام پر ملنے والے فنڈ اور بجٹ کا آیندہ درست استعمال نہ ہو۔ چند کالی بھیڑوں کا صرف دس سال کا ریکارڈ چیک کرنا ہوگا کہ وہ اس سے قبل کیا اثاثے رکھتے تھے اور آج ان کے اثاثے کیا ہیں ؟
اگر یہ کام شہری حکومت سے منسلک تمام بڑے ذمے داران( خواہ وہ سرکاری ملازمین ہوں یا منتخب عوامی نمایندے) سے کر لیا جائے اور ان کے دس سال قبل اور موجودہ اثاثوں کی تفصیلات میڈیا پر بھی پیش کردی جائے تو عوام کو بھی یہ چہرے پہچاننے میں آسانی ہوگی اور وہ بھی آیندہ ان کا محاسبہ کرسکیں گے۔
آج کراچی شہرکا بڑا مسئلہ ان کالی بھیڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اورکرپٹ عناصر سے نجات حاصل کرنا ہے ورنہ تو اختیارات کی جنگ ایک طویل جنگ ہے جو عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے اورکرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے جاری رہے گی۔ یہی کراچی کا نیا اور اہم ترین مسئلہ ہے۔