صبر شکر اورلقمہ حلال
شکر صرف زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں گوکہ اس کا بھی بڑا اجر ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ سے کسی معاصر نے پوچھا کہ '' حضرت ! کیسی گزر رہی ہے'' فرمایا '' بہترین گزرتی ہے'' پوچھا '' وہ کس طرح؟ '' فرمایا '' میرے پاس دو سواریاں ہیں جب بلا نازل ہوتی ہے یا مصیبت سے سابقہ پڑ جاتا ہے تو صبرکی سواری پر بیٹھ جاتا ہوں اور جب نعمت اور راحت ملتی ہے تو شکرکی سواری اختیار کرلیتا ہوں۔'' بالکل بجا فرمایا حضرت نے کہ یہ دو ایسی قیمتی صفات ہیں کہ جو بھی انھیں اپنائے گا چاہے جو بھی اور جیسے حالات ہوں لازما چین سکون ہی پائے گا۔
صبر کے معنی اپنے آپ کو روکے رہنے کے ہیں اور شکرکا مفہوم ہے کہ خدا تعالی سے ملنے والی نعمتوں کو یاد رکھنا اور ان کا اظہارکرنا۔ ہمارے دین نے ہمیں بہترین آداب زندگی تعلیم کیے ہیں اور یہ صفاتِ عالیہ یعنی صبر وشکر بھی انھی اعلیٰ آداب زندگی میں سے ہیں۔ دین علم سے زیادہ عمل کا نام ہے اور عمل سے ہی فوائد کا ثمر ملتا ہے۔آج کل انفارمیشن کا زمانہ ہے ہر اعتبار سے لوگ پہلے سے بہت زیادہ معلومات یافتہ ہیں پھر بھی آپ دیکھیں کہ ہم پریشان ، گھبرائے ہوئے ، بے یقینیوں اور بے چینیوں کا شکار نظر نظر آتے ہیں ، ایسا کیوں؟
ایسا اس لیے ہے کہ ہم باتوں کے دھنی ہیں اور عمل سے دور ہوگئے ہیں، غورفرمائیں کہ یہ دو مذکورہ صفات یعنی صبر اورشکر ہم اپنی عملی زندگی میں کتنی اپناتے اور کتنی پریکٹس کرتے ہیں، الا ماشااللہ نہ ہونے کے برابر۔ ویسے زبان سے تو ہر شخص ہی کہے گا کہ شکر الحمد للہ مگر اگلی ہی سانس میں ایسے ایسے معاملات،حالات و واقعات گنوانا شروع کردے گا جو سراسر ناشکری کے ضمن میں آتے ہیں۔
شکر صرف زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں گوکہ اس کا بھی بڑا اجر ہے اورکہیں پڑھا کہ شکر الحمدللہ کا ہر وقت ورد زباں ہونا اسم اعظم کا سا اثر رکھتا ہے لیکن عملا شکر ادا کرنا اس سے بھی افضل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو سمجھتے اور مانتے ہوئے اور ان کا استحضار رکھتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنا ان کے کام آنا، عبادات ، معاملات ، معاشرت میں شرعی احکامات کی دل سے پیروی کرنا اور سرکشی کی بجائے اطاعت کو اختیار کرنا۔
ہم جب زندگی میں عملی طور پر صبر اور شکر کو پریکٹس کرنا شروع کریں گے تو چاہے کیسے ہی بد ترین حالات و واقعات میں گھرے ہوں کیسی ہی مشکلات نظر کے سامنے ہوں آپ دیکھیں گے کہ سب بدلنا شروع ہوجائے گا۔ بند دروازے کھلنے لگ جائیں گے اور مشکلات و مصائب جیسے تحلیل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
دینی اعتبار سے صبر وشکر کے فضائل اور انھیں اختیار کرنے سے آخرت میں ملنے والے فضائل و انعامات کے ذکر سے کتابیں بھری ہوئی ہیں لیکن وہ اس تحریرکا موضوع نہیں ہیں۔ یہاں توجہ اس پر مبذول کرانی ہے کہ صبر و شکر اس دنیاوی اور عملی زندگی کی مشکلات میں آپ کے کتنے معاون و مددگار ہوسکتے ہیں تو چند باتیں تو اوپرگزریں اور مزید یہ کہ صبر وشکر کو اختیارکرنے والا ہمیشہ ایک سکون کی کیفیت میں رہتا ہے چاہے کتنے ہی ناگوار حالات سے گزر رہا ہو ، وہ حواس باختہ نہیں ہوتا۔
مشکلات اور پریشانی میں مضطرب اور دکھی ہونا ایک فطری چیز ہے لیکن وہ اضطراب اور دکھ اس پر حاوی نہیں ہو پاتا۔اس کے لیے غیب سے مشکل کشائی ہوتی ہے اور راستے بنتے ہیں اور آپ دنیا کی تمام بڑی اور اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ترین شخصیتوں کے حالات زندگی پر غورکریں تو ان کی زندگی میں انھی دونوں صفات کا استعمال جا بجا نظر آئے گا۔ تو صبر وشکر کو زبانی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی اپنائیے اور مزے اڑائیے لیکن ٹہریئے ان دونوں صفات عالیہ سے پوری طرح مستفید ہونے کے لیے ایک اور چیز بھی نہایت ضروری ہے اور وہ ہے لقمہ حلال ، محنت کی کمائی یا اپنے ہاتھ کا کسب۔ تو جس کی زندگی میں ان تین چیزوں کا اجتماع ہوجائے گا یعنی صبر ، شکر اور رزق حلال تو پھر کامیابی چین سکون راحت اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔
انھی حضرت ابراہیم ان ادہم ؒ کے ایک معاصر صوفی بزرگ حضرت شفیق بلخیؒ بھی تھے جو آپ کو اپنے بڑوں اور اکابر کا درجہ دیتے تھے وہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ابن ادہم ؒ کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حضرت ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کی غرض سے سفر پر جارہا ہوں دعا فرمائیے گا۔آپ بہت مسرور ہوئے اور دعا دی اور وہ قافلے کے ساتھ چلے گئے۔ لیکن ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ حضرت شفیق بلخی دوبارہ سلام کے لیے حاضر خدمت ہوئے تو حضرت ابراہیم ابن ادہم نے تعجب سے پوچھا کہ '' ارے بھئی شفیق؟ کیا ہوا آپ گئے نہیں؟ '' کیونکہ پہلے تجارتی اسفار مہینوں میں ہوا کرتے تھے، انھوں نے عرض کیا کہ '' نہیں حضرت گیا تو تھا لیکن راستے میں ایک ایسا منظر دیکھا کہ واپس آگیا۔'' پوچھا ''کیا؟''
کہنے لگے کہ '' راستے میں ایک جگہ قافلے والوں نے زاد راہ وغیرہ جمع کرنے کے لیے قیام کر لیا تو میں بھی اس شہر کی سیر کو نکل گیا سیر کرتے ہوئے شہر کے مضافات میں جنگل کے قریب کچھ کھنڈرات نظر آئے تو میں وہاں چلا گیا وہاں جاکر دیکھا کہ ایک اپاہج اور زخمی لومڑی پڑی ہے میں نے سوچا کہ یہ بے چاری اس ویرانے میں زخموں سے نہ مری تو بھوک سے ضرور مر جائے گی چلو اس کے کھانے پینے کا کوئی انتظام کروں، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شیرکے گرجنے کی آواز آئی میں گھبرا کر چھپ گیا تو ایک عجیب منظر اللہ نے مجھے دکھایا۔ اشتیاق سے حضرت نے پوچھا وہ کیا؟
کہنے لگے کہ '' دیکھا ایک شیر تازہ شکار مار کر لارہا ہے۔وہ کھنڈرات میں آیا شکار کو کھایا اور بچا کچا تازہ شکار زخمی اور اپاہج لومڑی کے قریب کرکے چلا گیا اور وہ شکم سیر ہونے لگی۔ میں نے یہ سب دیکھ کر سوچا کہ '' جو خدا اس ویرانے میں شیر جیسے درندے کے ذریعے سے ایک اپاہج لومڑی کو رزق دے سکتا ہے تو پھر میں کیوں شہر شہرمارا مارا پھروں مجھے بھی یہیں رزق مل جائے گا یہی سوچ کر قافلے سے علیحدہ ہوکر واپس آگیا۔'' حضرت ابراہیم بن ادہم نے تاسف سے فرمایا کہ '' ارے شفیق ! تم نے وہ اپاہج لومڑی بننا کیوں گوارہ کرلیا تم وہ شیرکیوں نہیں بنے جو اپنی محنت سے خود بھی کھا رہا تھا اور اپاہج لومڑی کو بھی کھلا رہا تھا؟'' حضرت شفیق بلخی ؒ نے آپ کے ہاتھ چوم لیے اور فرمایا کہ حضرت آپ نے تو میری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا۔
تو حاصل تحریر یہ ہوا کہ اپنی محنت کی کمائی ،کسب حلال اور صبر وشکر اختیارکرنے والا نہ اس زندگی میں پریشان ہو سکتا ہے نہ دوسری زندگی میں جو پیش آنے والی ہے۔ مشکلات اور پریشانیاں اسے بھی پیش آتی ہیں، وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے لیکن وہ ان سب سے ایسے آرام سے نکل جاتا ہے جیسے مکھن سے بال لیکن ناشکری بے صبری اور لقمہ حرام کی علتوں میں گرفتار لوگ چاہے بظاہرکچھ وقت اور مختصر عرصے کے لیے کتنے ہی خوش اور چمک دمک میں نظرآتے ہوں اندر سے ہمہ وقتی اضطراب۔ پریشانی،گھبراہٹ اور بے سکونی کا شکار رہتے ہیں کہ یہی قانون قدرت ہے اور قدرت کے قوانین ناقابل تغیر ہوا کرتے ہیں۔
تو شیر بننے کی کوشش کیجیے اپاہج لومڑی بننے سے بچئے، صبر وشکرکو قولا اور عملاً دونوں طرح سے اختیار کیجیے اور پھر اس یقین کے ساتھ چین آرام اور سکون کی زندگی حاصل کیجیے اور بے فکر ہوجائیے کہ دنیا بھی اچھی ہوگی اور انشااللہ آخرت بھی۔ بس ضرورت ارادے اور قوتِ عمل کی ہے کہ عمل مقدم ہے۔