پاکستان میں ایچ آئی وی کیسز میں 13 فیصد اضافہ ریکارڈ

2010 میں 1000 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص کی شرح 0.08 فیصد تھی جو 2018 میں بڑھ کر 0.11 فیصد ہو گئی


Tufail Ahmed September 10, 2019
دنیا بھر میں مرض سے ہلاکتوں میں 33 فیصد کمی آئی، پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوںکی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار پہنچ گئی۔ فوٹو : فائل

ایچ آئی وی/ ایڈز کی عالمی تنظیم (یواین ایڈز)کے سالانہ رپورٹ 2019 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افرادکی تعداد میں 13 فیصداضافہ ہوا ہے جودنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ مریضوںکی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار ہے۔ یہ تعداد 2005 میں ایک لاکھ 20 ہزار جبکہ 2010 میں 67 ہزار تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 9 سال پہلے پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈزکے 14 سال سے کم عمر مریضوں کی تعداد 1800 تھی جو 2015 میں بڑھ کر 4000 ہوگئی جبکہ 2018 میں یہ تعداد 5500 تک جا پہنچی۔ 2010 میں 15 سال یا اس سے زائد عمرکی خواتین مریضوں کی تعداد 19000 تھی جو 2015 میں 37000 اور 2018 میں 48000 تک جاپہنچی۔

اس رپورٹ میں سرنج کے ذریعے نشے کی عادی افراد میں ایڈز پھیلنے کی شرح 21 فیصد بتائی گئی ہے جبکہ ہم جنس پرست افرادمیں یہ شرح 3.7 فیصد، خواجہ سراؤں میں 5.5 فیصد جبکہ جسم فروشی میں ملوث افراد میں شرح 3.8 فیصد ہے۔

رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ دنیا بھرمیں ایڈزکے موذی مرض سے ہلاکتوں میں 33 فیصدکمی آئی ہے،گذشتہ سال ان ہلاکتوں میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی۔ اس موذی بیماری سے 2017میں 8 لاکھ افراد موت منہ میں چلے گئے۔ اس وقت دنیا بھر میں 3کروڑ 79 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے مرض میں مبتلاہیں جن میں ایک کروڑ 33 لاکھ افرادکوکسی حد تک اینٹی ریٹورل تھراپی تک رسائی حاصل ہے۔

رپورٹ میں ایشیا اور پیسیفک کی صورت حال کے بارے میں بتایاگیاکہ یہاں 5.9 ملین افراد ایچ آئی وی ایڈزمیں مبتلا ہیں جبکہ 3.2 ملین افراد اینٹی ریٹورل تھراپی علاج کرارہے ہیں۔ اعداد وشمارکے مطابق 310,000 افرادکو ایچ آئی وی/ ایڈز لاحق ہوااور 200,000 افراد ایچ آئی وی/ ایڈزکی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں بتایاگیا کہ 59 فیصد افرادکواپنے ایچ آئی وی/ ایڈزکے بارے میں معلومات ہے جبکہ حاملہ خواتین کی 56فیصد اینٹی ریوٹرل علاج کرارہی ہیں۔ 2010 سے نئے ایچ آئی وی/ ایڈز کیسز میں 9 فیصدکمی واقع ہوئی ہے۔ 2018میں 200,000 افراد ایچ آئی وی/ ایڈز کی وجہ سے ہلاک ہوئے جبکہ 2010 میں 270,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایچ آئی وی/ ایڈزکی وبا مخصوص لوگوں میں موجود ہے جس میں مرد ہم جنس پرست افراد شامل ہیں۔

ایڈز ایک خطرناک مرض ہے جس سے بچاؤ کے لیے اسلامی طرز زندگی پر عمل کرنا ہے اس مرضکا حتمی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا تاہم چند ادویہ مثلا ڈی این اے ویکسین کی آزمائش خاصی کامیاب رہی مگر ابھی تک یہ تحقیقی اور تجرباتی مراحل میں ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کے مشترکہ اعداد وشمار کے مطابق 1981 میں جان لیوا مرض ایڈز سے 2 کروڑ 50 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے تھے۔

صرف 2005 میں ایڈز سے 24 لاکھ سے 33 لاکھ افرا ہوئے ان میں سے 5 لاکھ 70 ہزار بچے بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک تہائی اموات صرف سہاراکے افریقی علاقے میں ہوئی جس سے معاشیات سے لے کر افرادی قوت تک ہر شعبہ کو متاثر ہوا۔ مدافعتی ادویہ (اینٹی ریٹورل تھراپی ) مددگار ہیں لیکن ان ادویہ تک رسائی تمام ممالک میں ممکن نہیں ہے۔

دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کے بارے میں طویل عرصے تک غلط تصور قائم رہا جس کی وجہ سے ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ 2016 میں برطانیہ میں 20 فیصد لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایچ آئی وی ایڈز تھوک اور متاثرہ مریض کی جلد سے پھیلتاہے لیکن حقیقیت اس کے برعکس ہے، ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس متاثرہ افراد کے خون یا آلودہ سرنج یا جنسی رطوبت سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔

دریں اثنا نیشنل ایڈزکنٹرول پروگرام کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 0.165 ملین افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں ان میں 26ہزار854 مریض رجسٹرڈ ہیں ان میں سے18ہزار 612افراد اینٹی وائرل تھراپی علاج کرارہے ہیں، نیشنل ایڈز کنٹرول کے مطابق پاکستان میں انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والوںکی تعداد5851 ہے، لاڑکانہ میں 25اپریل سے وبائی صورت میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی اطلاعات کے بعدسندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے 34ہزار100 افرادکی اسکریننگ کی ان میں سے ایک ہزار30مریض کوایچ آئی وی کی تصدیق کی گئی، متاثر ہونے والوں میں829بچے بھی شامل ہیں جبکہ بالغان افرادکی تعداد201بتائی گئی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پہلا مریض 1987 سامنے آیا۔ تب سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ وجہ یہی کی یہ وائرس آلودہ سرنجوں،آلودہ استروں،آلودہ سوئیوں ، جنسی بے راہ روی، ہم جنس پرستی سے انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے جس کے بعد مریض موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے ،اس کا وائرس خون میں زندہ رہتا ہے اور خون سے خون کا رابطہ ہونے یا رطوبت سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے جس کے بعد انسان کی قوت مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے اور انسانی مدافعتی نظام کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں