پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی نے بھارت میں سیاسی پناہ مانگ لی

بھارت میں قیام کے دوران بلدیو کمار نے وزیراعظم نریندر مودی سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے


ویب ڈیسک September 10, 2019
بھارت میں قیام کے دوران بلدیو کمار نے وزیراعظم نریندر مودی سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے، فوٹو: فائل

ISLAMABAD: تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی بلدیو کمار نے بھارت میں سیاسی پناہ مانگ لی۔

بلدیو کمار بھارت میں اپنے اہل خانہ کے 3 افراد کے ساتھ موجود ہیں اور انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔

پاکستان میں موجود بلدیو کمار کی فیملی ممبران کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی پناہ کے معاملے میں پیش رفت سے متعلق ابھی معلومات نہیں ہیں کیونکہ بریت کے بعد سے بلدیو کمار بھارت چلے گئے تھے اور ان سے تاحال کوئی رابطہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سورن سنگھ قتل کیس میں پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی بلدیو کمار بری

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ بلدیو کمار پر پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر سورن سنگھ کے قتل کا الزام تھا، یہ الزام ڈاکٹر سورن سنگھ کے خاندان نے لگایا اور عدالت نے بلدیو کمار کو بری کیا،پاکستان تحریک انصاف نے بلدیو کمار کی پارٹی رکنیت کو ختم کردیاتھا،اب ان کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، بلدیو کمار بھارت گئے اور وہاں شہریت کے لیے درخواست دی ،وہ جہاں جانااوررہنا چاہتے ہیں ان کی مرضی ہے۔

شوکت یوسفزئی نے کہا کہ بلدیو کمار کی جانب سے پاکستانی اقلیتوں کو آزادی نہ ہونے کا الزام شرمناک ہے، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل طور پر آزادی ہے، پاکستان تحریک انصاف کا کریمینل لوگوں سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی ہوسکتاہے، کسی پر قتل کا الزام ہوتو اس کے ساتھ نہ تو پی ٹی آئی کا کام ہے او رنہ ہی حکومت کا ، بلدیو کمار نے بھارتی شہریت کے حصول کی درخواست دی ہے اس پر بھارت جانے اور وہ جانیں، اقلیتوں کو پاکستان میں نشانہ بنائے جانے کا الزام شرمناک ہے۔

22 اپریل 2016 کو خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر برائے اقلیتی امور اور رکن اسمبلی سورن سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھا، سورن سنگھ کے سیاسی حریف بلدیو کمار کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم 26 اپریل 2018 کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بلدیو کمار کو شک کی بنیاد پر باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں