7 سہیلیوں کا مزار
سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔
یہ کم و بیش چار سو پندرہ سال قبل کا ذکر ہے، جب ہند اور سندھ پر مغلوں کی حکومت تھی۔
ایک دن مغلیہ دور کے گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین، جو خانِ زمانہ کے نام سے مشہور تھا، کی نظر دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سکھر کے قریب واقع جزیرے پر قائم ایک چھوٹی سی ٹیکری (پہاڑی) پر پڑی۔ روہڑی کے کنارے جنوب مشرق میں موجود چھوٹی سی ٹیکری کی قدرتی کشش نے خان زمانہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ دریائے کے عین درمیان قدرتی کاری گری کے اس نمونے سے متاثر ہوکر گورنر سندھ نے اس ٹیکری پر پڑاؤ ڈال دیا۔ بہ وقت سحر سورج کی شعاعوں اور شب تاریک میں چاند کی کرنوں کے دریائی لہروں پر پڑنے کے دل فریب نظارے نے خان زمانہ کو سحر زدہ کردیا اور گورنر سندھ قدرت کی صناعی پر عش عش کر اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکری کو اپنی بیٹھک بنانے پر مجبور ہوگئے۔
تاریخ میں اس جگہ نے قاسم خوانی جب کہ عرف عامہ میں ''ستین جو آستان'' یا ''سات سہیلیوں کا آستانہ'' کے نام سے جو شہرت پائی ہے وہ سندھ کے کم ہی مقامات کو حاصل ہے۔ ستین جو آستان کے سیدھے ہاتھ پر بکھر آئی لینڈ، عقب میں لینس ڈائون برج، سامنے سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کی موجودگی نے اس مقام کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیے ہیں اور اس کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے، جب کہ آستان کے الٹے ہاتھ پر انگریز دور کے دفاتر آج بھی قائم ہیں۔
اس مقام کے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آنے والی ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہاں سات کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجاداہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اوباش لوگوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ اے اﷲ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔'' ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں ، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔'' اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔
اس کے برعکس تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ''قاسم خوانی'' ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ''صفحہ صفا'' رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
تاریخی حوالہ جات سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم دریائے سندھ کو سب ہی انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انگریز دور ہو، مغل بادشاہت ہو یا پھر موجودہ زمانہ، ہر دور میں سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دریائے سندھ کو راہ گزر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انگریز اور مغلیہ دور میں مشہور ہونے والی اکثر شخصیات کی وجہِ شہرت ان کے کارنامے اور ان کی شاہ کار تعمیرات تھیں۔ مغلیہ دور میں سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین نے بھی دریائے سندھ کے کنارے اس ٹیلے کو شاید ایسی ہی کسی تعمیر کے لیے چُنا، جو اس کے نام کو دوام عطا کردے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیاگیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) ضلع کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ روہڑی ہل، دادو میں واقع کیر تھر پہاڑی سلسلے یکساں نظر آتے ہیں۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ کے وسیع پہاڑی علاقے میں کالا پتھر جسے (CHERT) موجود ہے اور اکثر تعمیرات میں یہ چیز نظر بھی آتی ہے اور طویل عرصے سے انسان ان پتھروں کا استعمال کررہا ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاری گروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی وفارسی زبان میں قبروں کے اوپر نقش و نگاری کی۔
ستین جو آستان کو مختلف زادیوں سے دیکھا جائے تو اس میں مغلیہ دور کے ماہر کاری گروں نے چھوٹے اور بڑے 12مینار تعمیر کیے، جن میں سے چار مینار جس پر ماہر کاری گروں نے کاشی کا خوب صورت استعمال کیا ہے، مسجد نما بارہ دری ہیں، چار مینار ابوقاسم اور اس کے خاندان کی قبروں کے تعمیر کردہ پلیٹ فارم کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ چار چھوٹے مینار لینس ڈائون برج کے نزدیک دوسرے پلٹ فارم پر بھی تعمیر کیے گئے تھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ کاری گروں نے مینار، حجرے اور آستان کی تعمیر میں کاشی، مضبوط ٹائلز، چونا ، ریت اور پہاڑی پتھر کا خوب صورت انداز سے استعمال کیا۔
ماہر کاری گروں نے جن کا تعلق راجستھان سے بتایا جاتا ہے، ماہرانہ انداز سے پتھر کو کاٹ کر اس پر اعلیٰ قسم کی کاشی اور ٹائلز کا استعمال کرکے اسے ایک شان دار عمارت میں تبدیل کیا۔ خان زمانہ کی محفل کے موقع پر سیکیوریٹی کے انتظامات کے لیے اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے سیڑھیوں کے نزدیک دائیں بائیں تعمیر کیے گئے دو کمرے آج بھی نظر آتے ہیں۔ وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین اور اس کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں کی تیاری اس پر خطاطی اور دل کش نقش و نگاری کیے ہندوستان کے بہترین کاری گروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ان کاری گروں کی بہت سی نشانیاں چوکھنڈی، مکلی اور ٹھٹھہ کے دیگر قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ راجستھان کے وسیع علاقے میں بھی موجود ہے۔ ستین جو آستان میں مدفون لوگوں کو رتبے کے حساب سے تدفین کیا گیا۔ خانِ زمانہ میر ابو قاسم المعروف نمکین گورنر سندھ کو سب سے اونچے مقام پر مدفن کیا گیا۔ سابق گورنر کے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور قریبی تعلقات رکھنے والوں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
ان کاری گروں کی معاونت کرنے والے اہل کاروں اور ان کے خاندانوں کے لوگوں کے لیے چونے اور ریت سے قبریں تیار کرائی گئیں، ستین جو آستان میں چار مختلف پلیٹ فارم تعمیر کیے گئے تھے، جن میں پہلے پلیٹ فارم پر قبروں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچے، دوسرے پلیٹ فارم پر سابق گورنر کے خدمت گار، تیسرے پلیٹ فارم پر عزیز و اقارب، چوتھے اور آخری پلیٹ فارم پر ابو قاسم المعروف نمکین اور ان کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔
ستین جو آستان میں کم و بیش 100چھوٹی و بڑی قبریں موجود ہیں، جن پر اکبر اعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔ سابق گورنر اور اس کے عزیز و اقارب کی اصل قبریں سیڑھیوں کے دائیں اور بائیں تعمیر ہونیوالے کمروں میں ہیں، جب کہ ستین جو آستان کے آخری پلیٹ فارم پر بنائے جانیوالی قبریں نشانی کے طور پر تعمیر کرائی گئی ہیں۔
4 سو سال قبل خان زمانہ کی جانب سے بنائے جانے والے ستین جو آستان پر آمد و رفت کے دشوار گزار راستوں سے گزار کر آخری سرے پر پہنچنا پڑتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی، صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ستین جو آستان پر اوپر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی جو کہ آج تک قائم ہیں۔
ماضی میں دریائے سندھ کا رخ اروڑ کی جانب تھا، سابق گورنر المعروف نمکین نے دریائے سندھ پر ایسے مقام کا انتخاب کیا جو ریمپ نمونہ تھا، سطح زمین سے اندازے کے مطابق 40 فٹ اوپر تعمیرات کا آغاز کیا، 4 سو سال قبل بکھر (سکھر) کا عروج ہوا کرتا تھا اور دریائے سندھ سکھر کے مقام پر سادھو بیلہ، جیئند پیر (زندہ پیر) اور بکھر آئر لینڈ جزیرے موجود تھے جو کہ آج بھی ہے۔
خان زمانہ سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں فروٹ میں سب سے زیادہ خربوزہ پسند تھا، ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی تیار کرائی جاتی تھی، مقامی خربوزہ انتہائی لذیذ ہوا کرتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابو قاسم خربوزے کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کی بھی خاطر تواضع خربوزے سے کیا کرتے تھے۔
موئن جو دڑو، لاکھین جو دڑو کی تباہی کے بعد کچھ عرصے کیلئے راجہ داہر کے دور میں اروڑ آباد ہوا تاہم مختصر وقت کے بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر کو آباد کیا گیا اور مغلیہ دور میں ابو قاسم نے اس جگہ (ستین جو آستان) کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ شاعری مزاج سابق گورنر اکثر چاند راتوں میں محفل جمایا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ستین جو آستان کو بھی نقصان پہنچا، تعمیر ہونے والے 12میناروں میں سے چند ایک کے علاوہ تمام مینار خستہ حال ہوچکے ہیں۔ ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون (پہاڑی پتھر) تیزی سے خراب ہورہا ہے اور ایک لیئر کی طرح ہوا، نمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو پیالے کے مانند نظر آتے ہے۔
سرزمین سندھ کو باب الاسلام کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ صوفیوں، درویشوں اور اولیائے کرام کی مرہون منت درجۂ شہرت پانے والی سرزمین سندھ کو ایک خاص اعزاز حاصل ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بیدل بیکس، خیر الدین شاہ المعروف جئے شاہ بادشاہ، پیر امیر محمد شاہ المعروف مکی شاہ بابا، صدر الدین شاہ بادشاہ و دیگر صوفیاء و اولیاء کرام کے علم و عمل کی وجہ سے یہ خطہ بھائی چارے کا مرکز بنا رہا۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ شہر سمیت دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔
ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) پر گذشتہ سات سال سے مجاور کے فرائض انجام دینے والی بیوہ شوکت خواجائی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھر سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد یہاں اپنی گود بھرنے کے لیے منت مانگنے کے لیے آتی ہیں، اولاد ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم اس میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم ایک صدی سے ہمارے بڑے یہاں پر فرائض انجام دینے کے علاوہ خدمت گاری کررہے ہیں، انہیں کی دی گئی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر آنے والی بانجھ اور بیماریوں میں مبتلا خواتین کو سات سہیلیوں کے مزار کے اندر موجود حجرے میں ایک رسم کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خاتون کی کمر پر تالا باندھنے کے علاوہ حجرے میں موجود جھولوں پر مختلف رنگ کے دھاگے باندھے جاتے ہیں۔
منت مانگنے والی خواتین کو اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے، میں یومیہ 10گھنٹے دور دراز علاقوں سے آنے والی کم و بیش ایک درجن خواتین کو دینی تعلیم کے علاوہ ایک عرصہ سے چلنے والی رسوم و رواج کے حوالے سے آگاہ کرتی ہوں، سب پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اولاد دینا اﷲ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کسی بھی شخص کو کچھ نہیں دے سکتا۔ تاہم عقیدت مند خواتین کی بڑی تعداد سات سہیلیوں کے مزار پر آکر ہم سے ملاقات کرتی ہے اور جو بھی ہوتا ہے، ہم انہیں مفید مشورے دیتے ہیں سب سے پہلے لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی معائنہ کرانا شامل ہے۔ مزید بتایا کہ یہاں آنے والی خواتین سے کسی بھی قسم کی رقم وصول نہیں کی جاتی، تاہم خوشی سے جو بھی نذرانہ دیتا ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سات سہیلیوں کے انڈر گرائونڈ چار کمرے (حجرے) موجود ہیں، جن میں صدیوں پرانی پہاڑی پھٹنے کی نشانی بھی واضح ہے۔ اسی طرح اروڑ کے نزدیک بھی پہاڑ پھٹنے کی نشانیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر خواتین کے مسائل معلوم کرکے انہیں روحانی علاج بتاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے بیٹھنے کے لیے کمرے، خواتین کی حاجت پوری کرنے کے لیے بیت الخلاء خستہ حال ہوچکے ہیں، ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو تحریری درخواستیں دیں مگر آج تک تختی لگانے کے علاوہ کسی بھی قسم کا کام نہیں ہوا۔
روہڑی سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ مسماۃ رابعہ اور اس کی نند مسماۃ سبحانہ کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے یہاں پر خدمات انجام دینے والی مجاورہ سے دم کرانے آرہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ یہاں پر آنے سے بیمار بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ آج میں اپنے ایک سالہ بیٹے بلال کو لے کر آئی ہوں، جو کئی دن سے بخار میں مبتلا ہے، میں نے یہاں آکر دعا مانگی ہے اور دم بھی کرایا ہے، اس کی بدولت مجھے امید ہے کہ اس کی صحت میں بہتری آئے گی۔
شہر سمیت ملک و بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں کو لینس ڈائون برج اور سات سہیلیوں کے مزار کے درمیان گہرے پانی کی کشتی میں سیر کرانے والا 52سالہ محمد اسحاق میر بحر المعروف جوگی فقیر کا کہنا ہے کہ میرے آبائو اجداد کا کام دریا میں کشتی چلانا، مچھلی پکڑنا، کھیتوں سے تیار فصلوں کو شہر تک پہنچانا تھا۔ میں گذشتہ 15سال سے ستین جو آستان پر بلامعاوضہ صفائی ستھرائی کرتا ہوں اور یہاں آنے والے لوگوں کو فی سبیل اﷲ پانی فراہم کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں سے آنے والے خاندانوں کو دریا میں کشتی کے ذریعے سیر کراکر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ دریا میں ضرورت سے زیادہ پانی کی موجودگی، سیلاب کے خطرے کے پیش نظر میں نے عارضی طور پر لوگوں کو تفریح کرانا بند کردیا ہے اور دن بھر ستین جو آستان پر صفائی و ستھرائی کرنے، جھاڑو لگانے، نیم کے درخت کے نیچے رکھے پانی کے مٹکوں کو بھرکر لوگوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ اب تک کی جو تحقیق کی گئی ہے اور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) میں چار سو سال قبل ازبکستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سات درویش آتے رہے، جنہوں نے دریائے کے نزدیک اس چوٹی پر چلہ کاٹا اور سات سہیلیوں کے مزار میں موجود کمرے یا حجرے جسے کہتے ہیں وہاں عبادت کی، جن میں شیخ عبدالحمید سہروردی، شیخ عبداﷲ ہراری، حمزہ بن رافع، یوسف بن بکھری، سیف الدین شیرازی، عبدالحسن خیر خوانی شامل ہیں، جب کہ ایک نام علی ڈنو احمد بصری مقامی درویش لگتا ہے۔ مذکورہ درویش کی بدولت ہی باہر سے آنے والے عبادت گزاروں نے یہاں چلہ کاٹا ہوگا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اس جگہ کو سات سہیلیوں سے منسوب کرنا شروع کردیا۔ تاہم اس حوالے سے آج تک کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر اور روہڑی شہر کو ملانے والے لینس ڈائون برج کے نیچے وسیع علاقے پر کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ چند سال قبل دریائے سندھ میں نہانے والوں کی زندگیاں محفوظ بنانے، ایمرجینسی میں طبی امداد اور ریسکیو آپریشن کرنے کے لیے یہاں نیوی کی جانب سے دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ضرورت پڑنے پر غوطہ خور مذکورہ مقام سے ریسکیو آپریشن کرکے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں۔
خان زمانہ امیر قاسم المعروف نمکین کی دریافت ستین جو آستان بلا شک و شبہہ قدرت کی صناعی اور انسانی فن تعمیر کا شاہ کار ہے، جو کہ خوب صورتی و دل کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دریائے کے سینے پر بہتی کشتیاں چاندنی راتوں میں ایک رومان پرور، سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں جب کہ شام کے وقت ڈھلتے ہوئے آفتاب کی سرخی کا منظر بھی بھلائے نہیں بھولتا، دریائے سندھ کے عینِ وسط میں جزیرے پر قائم ستین جو آستان آج بھی اپنی خوب صورتی و دل کشی کی بدولت ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ستین جو آستان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے، اپنی مرادوں کی برآوری کے لیے ستین جو آستان پر حاضری دینے اور بہ غرض تفریح آنے والوں کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ''قاسم خوانی'' ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ''صفحہ صفا'' رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔
ایک دن مغلیہ دور کے گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین، جو خانِ زمانہ کے نام سے مشہور تھا، کی نظر دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سکھر کے قریب واقع جزیرے پر قائم ایک چھوٹی سی ٹیکری (پہاڑی) پر پڑی۔ روہڑی کے کنارے جنوب مشرق میں موجود چھوٹی سی ٹیکری کی قدرتی کشش نے خان زمانہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ دریائے کے عین درمیان قدرتی کاری گری کے اس نمونے سے متاثر ہوکر گورنر سندھ نے اس ٹیکری پر پڑاؤ ڈال دیا۔ بہ وقت سحر سورج کی شعاعوں اور شب تاریک میں چاند کی کرنوں کے دریائی لہروں پر پڑنے کے دل فریب نظارے نے خان زمانہ کو سحر زدہ کردیا اور گورنر سندھ قدرت کی صناعی پر عش عش کر اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکری کو اپنی بیٹھک بنانے پر مجبور ہوگئے۔
تاریخ میں اس جگہ نے قاسم خوانی جب کہ عرف عامہ میں ''ستین جو آستان'' یا ''سات سہیلیوں کا آستانہ'' کے نام سے جو شہرت پائی ہے وہ سندھ کے کم ہی مقامات کو حاصل ہے۔ ستین جو آستان کے سیدھے ہاتھ پر بکھر آئی لینڈ، عقب میں لینس ڈائون برج، سامنے سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کی موجودگی نے اس مقام کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیے ہیں اور اس کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے، جب کہ آستان کے الٹے ہاتھ پر انگریز دور کے دفاتر آج بھی قائم ہیں۔
اس مقام کے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آنے والی ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہاں سات کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجاداہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اوباش لوگوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ اے اﷲ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔'' ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں ، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔'' اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔
اس کے برعکس تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ''قاسم خوانی'' ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ''صفحہ صفا'' رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
تاریخی حوالہ جات سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم دریائے سندھ کو سب ہی انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انگریز دور ہو، مغل بادشاہت ہو یا پھر موجودہ زمانہ، ہر دور میں سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دریائے سندھ کو راہ گزر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انگریز اور مغلیہ دور میں مشہور ہونے والی اکثر شخصیات کی وجہِ شہرت ان کے کارنامے اور ان کی شاہ کار تعمیرات تھیں۔ مغلیہ دور میں سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین نے بھی دریائے سندھ کے کنارے اس ٹیلے کو شاید ایسی ہی کسی تعمیر کے لیے چُنا، جو اس کے نام کو دوام عطا کردے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیاگیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) ضلع کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ روہڑی ہل، دادو میں واقع کیر تھر پہاڑی سلسلے یکساں نظر آتے ہیں۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ کے وسیع پہاڑی علاقے میں کالا پتھر جسے (CHERT) موجود ہے اور اکثر تعمیرات میں یہ چیز نظر بھی آتی ہے اور طویل عرصے سے انسان ان پتھروں کا استعمال کررہا ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاری گروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی وفارسی زبان میں قبروں کے اوپر نقش و نگاری کی۔
ستین جو آستان کو مختلف زادیوں سے دیکھا جائے تو اس میں مغلیہ دور کے ماہر کاری گروں نے چھوٹے اور بڑے 12مینار تعمیر کیے، جن میں سے چار مینار جس پر ماہر کاری گروں نے کاشی کا خوب صورت استعمال کیا ہے، مسجد نما بارہ دری ہیں، چار مینار ابوقاسم اور اس کے خاندان کی قبروں کے تعمیر کردہ پلیٹ فارم کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ چار چھوٹے مینار لینس ڈائون برج کے نزدیک دوسرے پلٹ فارم پر بھی تعمیر کیے گئے تھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ کاری گروں نے مینار، حجرے اور آستان کی تعمیر میں کاشی، مضبوط ٹائلز، چونا ، ریت اور پہاڑی پتھر کا خوب صورت انداز سے استعمال کیا۔
ماہر کاری گروں نے جن کا تعلق راجستھان سے بتایا جاتا ہے، ماہرانہ انداز سے پتھر کو کاٹ کر اس پر اعلیٰ قسم کی کاشی اور ٹائلز کا استعمال کرکے اسے ایک شان دار عمارت میں تبدیل کیا۔ خان زمانہ کی محفل کے موقع پر سیکیوریٹی کے انتظامات کے لیے اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے سیڑھیوں کے نزدیک دائیں بائیں تعمیر کیے گئے دو کمرے آج بھی نظر آتے ہیں۔ وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین اور اس کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں کی تیاری اس پر خطاطی اور دل کش نقش و نگاری کیے ہندوستان کے بہترین کاری گروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ان کاری گروں کی بہت سی نشانیاں چوکھنڈی، مکلی اور ٹھٹھہ کے دیگر قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ راجستھان کے وسیع علاقے میں بھی موجود ہے۔ ستین جو آستان میں مدفون لوگوں کو رتبے کے حساب سے تدفین کیا گیا۔ خانِ زمانہ میر ابو قاسم المعروف نمکین گورنر سندھ کو سب سے اونچے مقام پر مدفن کیا گیا۔ سابق گورنر کے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور قریبی تعلقات رکھنے والوں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
ان کاری گروں کی معاونت کرنے والے اہل کاروں اور ان کے خاندانوں کے لوگوں کے لیے چونے اور ریت سے قبریں تیار کرائی گئیں، ستین جو آستان میں چار مختلف پلیٹ فارم تعمیر کیے گئے تھے، جن میں پہلے پلیٹ فارم پر قبروں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچے، دوسرے پلیٹ فارم پر سابق گورنر کے خدمت گار، تیسرے پلیٹ فارم پر عزیز و اقارب، چوتھے اور آخری پلیٹ فارم پر ابو قاسم المعروف نمکین اور ان کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔
ستین جو آستان میں کم و بیش 100چھوٹی و بڑی قبریں موجود ہیں، جن پر اکبر اعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔ سابق گورنر اور اس کے عزیز و اقارب کی اصل قبریں سیڑھیوں کے دائیں اور بائیں تعمیر ہونیوالے کمروں میں ہیں، جب کہ ستین جو آستان کے آخری پلیٹ فارم پر بنائے جانیوالی قبریں نشانی کے طور پر تعمیر کرائی گئی ہیں۔
4 سو سال قبل خان زمانہ کی جانب سے بنائے جانے والے ستین جو آستان پر آمد و رفت کے دشوار گزار راستوں سے گزار کر آخری سرے پر پہنچنا پڑتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی، صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ستین جو آستان پر اوپر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی جو کہ آج تک قائم ہیں۔
ماضی میں دریائے سندھ کا رخ اروڑ کی جانب تھا، سابق گورنر المعروف نمکین نے دریائے سندھ پر ایسے مقام کا انتخاب کیا جو ریمپ نمونہ تھا، سطح زمین سے اندازے کے مطابق 40 فٹ اوپر تعمیرات کا آغاز کیا، 4 سو سال قبل بکھر (سکھر) کا عروج ہوا کرتا تھا اور دریائے سندھ سکھر کے مقام پر سادھو بیلہ، جیئند پیر (زندہ پیر) اور بکھر آئر لینڈ جزیرے موجود تھے جو کہ آج بھی ہے۔
خان زمانہ سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں فروٹ میں سب سے زیادہ خربوزہ پسند تھا، ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی تیار کرائی جاتی تھی، مقامی خربوزہ انتہائی لذیذ ہوا کرتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابو قاسم خربوزے کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کی بھی خاطر تواضع خربوزے سے کیا کرتے تھے۔
موئن جو دڑو، لاکھین جو دڑو کی تباہی کے بعد کچھ عرصے کیلئے راجہ داہر کے دور میں اروڑ آباد ہوا تاہم مختصر وقت کے بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر کو آباد کیا گیا اور مغلیہ دور میں ابو قاسم نے اس جگہ (ستین جو آستان) کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ شاعری مزاج سابق گورنر اکثر چاند راتوں میں محفل جمایا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ستین جو آستان کو بھی نقصان پہنچا، تعمیر ہونے والے 12میناروں میں سے چند ایک کے علاوہ تمام مینار خستہ حال ہوچکے ہیں۔ ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون (پہاڑی پتھر) تیزی سے خراب ہورہا ہے اور ایک لیئر کی طرح ہوا، نمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو پیالے کے مانند نظر آتے ہے۔
سرزمین سندھ کو باب الاسلام کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ صوفیوں، درویشوں اور اولیائے کرام کی مرہون منت درجۂ شہرت پانے والی سرزمین سندھ کو ایک خاص اعزاز حاصل ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بیدل بیکس، خیر الدین شاہ المعروف جئے شاہ بادشاہ، پیر امیر محمد شاہ المعروف مکی شاہ بابا، صدر الدین شاہ بادشاہ و دیگر صوفیاء و اولیاء کرام کے علم و عمل کی وجہ سے یہ خطہ بھائی چارے کا مرکز بنا رہا۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ شہر سمیت دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔
ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) پر گذشتہ سات سال سے مجاور کے فرائض انجام دینے والی بیوہ شوکت خواجائی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھر سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد یہاں اپنی گود بھرنے کے لیے منت مانگنے کے لیے آتی ہیں، اولاد ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم اس میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم ایک صدی سے ہمارے بڑے یہاں پر فرائض انجام دینے کے علاوہ خدمت گاری کررہے ہیں، انہیں کی دی گئی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر آنے والی بانجھ اور بیماریوں میں مبتلا خواتین کو سات سہیلیوں کے مزار کے اندر موجود حجرے میں ایک رسم کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خاتون کی کمر پر تالا باندھنے کے علاوہ حجرے میں موجود جھولوں پر مختلف رنگ کے دھاگے باندھے جاتے ہیں۔
منت مانگنے والی خواتین کو اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے، میں یومیہ 10گھنٹے دور دراز علاقوں سے آنے والی کم و بیش ایک درجن خواتین کو دینی تعلیم کے علاوہ ایک عرصہ سے چلنے والی رسوم و رواج کے حوالے سے آگاہ کرتی ہوں، سب پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اولاد دینا اﷲ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کسی بھی شخص کو کچھ نہیں دے سکتا۔ تاہم عقیدت مند خواتین کی بڑی تعداد سات سہیلیوں کے مزار پر آکر ہم سے ملاقات کرتی ہے اور جو بھی ہوتا ہے، ہم انہیں مفید مشورے دیتے ہیں سب سے پہلے لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی معائنہ کرانا شامل ہے۔ مزید بتایا کہ یہاں آنے والی خواتین سے کسی بھی قسم کی رقم وصول نہیں کی جاتی، تاہم خوشی سے جو بھی نذرانہ دیتا ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سات سہیلیوں کے انڈر گرائونڈ چار کمرے (حجرے) موجود ہیں، جن میں صدیوں پرانی پہاڑی پھٹنے کی نشانی بھی واضح ہے۔ اسی طرح اروڑ کے نزدیک بھی پہاڑ پھٹنے کی نشانیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر خواتین کے مسائل معلوم کرکے انہیں روحانی علاج بتاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے بیٹھنے کے لیے کمرے، خواتین کی حاجت پوری کرنے کے لیے بیت الخلاء خستہ حال ہوچکے ہیں، ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو تحریری درخواستیں دیں مگر آج تک تختی لگانے کے علاوہ کسی بھی قسم کا کام نہیں ہوا۔
روہڑی سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ مسماۃ رابعہ اور اس کی نند مسماۃ سبحانہ کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے یہاں پر خدمات انجام دینے والی مجاورہ سے دم کرانے آرہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ یہاں پر آنے سے بیمار بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ آج میں اپنے ایک سالہ بیٹے بلال کو لے کر آئی ہوں، جو کئی دن سے بخار میں مبتلا ہے، میں نے یہاں آکر دعا مانگی ہے اور دم بھی کرایا ہے، اس کی بدولت مجھے امید ہے کہ اس کی صحت میں بہتری آئے گی۔
شہر سمیت ملک و بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں کو لینس ڈائون برج اور سات سہیلیوں کے مزار کے درمیان گہرے پانی کی کشتی میں سیر کرانے والا 52سالہ محمد اسحاق میر بحر المعروف جوگی فقیر کا کہنا ہے کہ میرے آبائو اجداد کا کام دریا میں کشتی چلانا، مچھلی پکڑنا، کھیتوں سے تیار فصلوں کو شہر تک پہنچانا تھا۔ میں گذشتہ 15سال سے ستین جو آستان پر بلامعاوضہ صفائی ستھرائی کرتا ہوں اور یہاں آنے والے لوگوں کو فی سبیل اﷲ پانی فراہم کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں سے آنے والے خاندانوں کو دریا میں کشتی کے ذریعے سیر کراکر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ دریا میں ضرورت سے زیادہ پانی کی موجودگی، سیلاب کے خطرے کے پیش نظر میں نے عارضی طور پر لوگوں کو تفریح کرانا بند کردیا ہے اور دن بھر ستین جو آستان پر صفائی و ستھرائی کرنے، جھاڑو لگانے، نیم کے درخت کے نیچے رکھے پانی کے مٹکوں کو بھرکر لوگوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ اب تک کی جو تحقیق کی گئی ہے اور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) میں چار سو سال قبل ازبکستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سات درویش آتے رہے، جنہوں نے دریائے کے نزدیک اس چوٹی پر چلہ کاٹا اور سات سہیلیوں کے مزار میں موجود کمرے یا حجرے جسے کہتے ہیں وہاں عبادت کی، جن میں شیخ عبدالحمید سہروردی، شیخ عبداﷲ ہراری، حمزہ بن رافع، یوسف بن بکھری، سیف الدین شیرازی، عبدالحسن خیر خوانی شامل ہیں، جب کہ ایک نام علی ڈنو احمد بصری مقامی درویش لگتا ہے۔ مذکورہ درویش کی بدولت ہی باہر سے آنے والے عبادت گزاروں نے یہاں چلہ کاٹا ہوگا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اس جگہ کو سات سہیلیوں سے منسوب کرنا شروع کردیا۔ تاہم اس حوالے سے آج تک کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر اور روہڑی شہر کو ملانے والے لینس ڈائون برج کے نیچے وسیع علاقے پر کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ چند سال قبل دریائے سندھ میں نہانے والوں کی زندگیاں محفوظ بنانے، ایمرجینسی میں طبی امداد اور ریسکیو آپریشن کرنے کے لیے یہاں نیوی کی جانب سے دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ضرورت پڑنے پر غوطہ خور مذکورہ مقام سے ریسکیو آپریشن کرکے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں۔
خان زمانہ امیر قاسم المعروف نمکین کی دریافت ستین جو آستان بلا شک و شبہہ قدرت کی صناعی اور انسانی فن تعمیر کا شاہ کار ہے، جو کہ خوب صورتی و دل کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دریائے کے سینے پر بہتی کشتیاں چاندنی راتوں میں ایک رومان پرور، سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں جب کہ شام کے وقت ڈھلتے ہوئے آفتاب کی سرخی کا منظر بھی بھلائے نہیں بھولتا، دریائے سندھ کے عینِ وسط میں جزیرے پر قائم ستین جو آستان آج بھی اپنی خوب صورتی و دل کشی کی بدولت ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ستین جو آستان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے، اپنی مرادوں کی برآوری کے لیے ستین جو آستان پر حاضری دینے اور بہ غرض تفریح آنے والوں کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ''قاسم خوانی'' ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ''صفحہ صفا'' رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔