انھیں بس ایک ہی غم تھا کہ ہم نے دھرتی ماں کو کیا دیا ہرجی باپو کی کتھا کہانی

باپو نے اپنی دھرتی ماتا کے لیے اپنی اولاد کو دان کردیا تھا

باپو پاکستان کو ہمیشہ دھرتی ماتا کہتے اور مانتے تھے۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
جیون ایک کہانی ہے۔ ہر انسان کہانی ہے، اگر سننے کا سلیقہ ہو ، حوصلہ ہو، ہاں اور فرصت بھی۔ سینے میں بس ڈھرکتا لوتھڑا نہ ہو، جیتا جاگتا حساس دل ہو، اور دیدہ بینا، تو سنی جائے۔ لیکن اپنی ذات سے، اپنی ناک سے آگے، ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اسے کیا کہتے ہیں، میں نہیں جانتا۔

جسے دیکھو مانگنے میں، شکوے شکایتوں میں لگا ہوا ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا، مجھے وہ نہیں ملا، زمانے نے ہماری نا قدری کی۔ ہم بس میرے حقوق، میرے حقوق کے نعرے بلند کیے ہوئے ہیں۔ کبھی نہیں سنا، اور سنا بھی تو بہت کم کہ ہم نے کسی کو یہ دیا، سماج کو یہ دیا۔ ہاں دعوے بہت سنے، بہت، کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا، بس زبانی جمع خرچ ۔ سچ ہی ہے کہ جب سماج میں بلند قامت نہ رہیں تو بونے خود کو قدآور سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہاں مصاحبین کی بہتات ہے جو انہیں اس فریب میں پختہ تر کرتے چلے جاتے ہیں۔

قحط الرجال ہے یہاں، لیکن کم یاب لوگ جواب نایاب ہوچلے ہیں، خوش نصیبی سے ملے ضرور، جن کا کوئی دعویٰ نہیں تھا، کبھی نہیں سنا کہ ہمیں یہ نہیں مل سکا، جب بھی بات ہوئی ایک ہی غم میں پایا اور کہتے سنا، ہم نے اس وطن عزیز کو کچھ نہیں دیا۔ اس نے تو ہمیں عزت اور توقیر دان کی، پہچان دی، ہم نے کیا دیا اس دھرتی ماں کو؟ یہی غم کھائے جاتا تھا انہیں۔ لیکن جو کچھ انہوں نے اس ملک و قوم کو دیا، وہ سب سے پوشیدہ رہا کہ وہ اس کا چرچا تو رہا ایک طرف، کبھی اشاروں میں بھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔

ہرجی باپو بلند قامت ہی نہیں ایسے لوگوں کی صف اول میں تھے۔ ہاں ایسے ہی تھے ہمارے ہرجی باپو، دانا، بینا، دل زندہ رکھنے والے، محبت، اپنائیت، ہمت، جفاکشی، فہم و فراست اور دور اندیشی کا پیکر مجسم ہرجی باپو۔ ایسے لوگ تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے جو انسانوں کو توڑتے رہتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی تو رہی دور کی بات وہ ان کی تذلیل کرکے راحت پاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہرجی باپو انسانوں کو ٹوٹنے سے بچاتے ہی نہیں تھے، وہ تو ٹوٹے ہوؤں کو جوڑتے بھی تھے۔ ہمت اور حوصلہ بندھاتے تھے۔ ان میں خواب سجاتے اور پھر اسے تعبیر پر اکساتے تھے، وہ دکھ کا مداوا کرتے زخموں پر مرہم رکھتے، عجیب دیالو تھے ہرجی باپو، جو ہر پل بس دینے پر تلا ہوا ہو۔ سخاوت جن کی رگ و پے میں تھی، اپنے وقت سے لے کر مال تک اور اس بھی آگے جان تک۔ روشنی تھے وہ، جن سے سب ہی فیض پاتے تھے، مینارۂ نور تھے وہ۔ سیاسی لیڈر، واعظ نہیں تھے۔ وہ ایسے دانش ور نہیں تھے، جو پنج ستارہ ہوٹلوں میں بس بے روح لفظوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ دانش ور تھے، جن کا ہاتھ سماج کی نبض پر تھا ہاں وہ آدمی تھے، بس عام سے، لیکن بہت خاص تھے وہ، جن کا باپ موچی تھا جس کا ذکر باپو بہت چاہ سے کرتے تھے اور وہ خود بھی پرانے ٹائروں کی مرمت کرتے تھے۔ مرا ہوا ٹائر ان کی مسیحائی سے زندہ ہوجاتا تھا۔ ٹائر ہی نہیں مرا ہوا انسان بھی جسے سماج نے مار ڈالا ہو۔



باپو 1919 میں رن کچھ کے گائوں مان کہو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بہت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ۔ ان کے والد موچی تھے۔ جب وہ بیس دن کے تھے کہ ان کے والدین ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ اس وقت کراچی بھی ایک گائوں ہی تھا، لیکن کاروبار اور مزدوری کے مواقع زیادہ تھے۔ ان کے والد نے اولڈ کمہار واڑہ میں رہائش اختیار کی اور یہاں بھی اپنا آبائی پیشہ جاری رکھا۔ ان کے معاشی حالات بدلے تو نہیں تھے، لیکن گزارہ اچھا ہو رہا تھا۔ باپو جب پانچ سال کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں اسکول میں داخل کرادیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ننھا ہرجی تعلیم حاصل کرکے بڑ ا آدمی بنے ۔ لیکن قدرت کیا چاہتی ہے کوئی نہیں جانتا۔ باپو نے پرائمری کا امتحان دیا ہی تھا کہ ان کے والد کا اچانک ہی انتقال ہوگیا، جو گھر کے واحد کفیل تھے۔ دس سال کی عمر میں وہ یتیم ہوگئے۔ حالات بہت ابتر ہوگئے تھے، لیکن ان کی والدہ نے باپو کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا کہا اور خود گھروں میں کام کرنے لگیں ۔ لیکن وہ بیمار رہنے لگیں تھیں تو باپو نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔ باپو اس وقت ساتویں جماعت پاس کرچکے تھے۔ انہوں نے کام تلاش کرنا شروع کیا، لیکن تیرہ سال کے بچے کو کون کام دیتا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور کام کی تلاش جاری رکھی۔ ایک دن وہ سٹی کورٹ کے سامنے والی بلڈنگ میں جہاں وکلاء کے دفاتر ہیں کام کی تلاش میں پریشان گھوم رہے تھے کہ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پریشان ہیں، تو باپو نے انہیں اپنی بپتا سنائی وہ اس وقت کے معروف انکم ٹیکس وکیل سیٹھ نارائن داس جیٹھا تھے۔ باپو کی بپتا سن کر وہ باپو کو ساتھ لے گئے اور انہیں پندرہ روپے ماہوار تن خواہ پر اپنا چپراسی رکھ لیا۔

باپو نے بہت محنت اور دل جمعی سے کام کیا۔ وہ آٹھ سال تک سیٹھ نارائن داس جیٹھا کے چپراسی رہے، لیکن انہوں نے قانونی نکات اور مباحث کو غور سے سنا اور اس میں ماہر ہوگئے۔ اس دوران انہیں ایک پیٹرولیم کمپنی میں ملازمت مل گئی اور انہوں نے یہ ملازمت اس لیے اختیار کی کہ وہاں ان کی تن خواہ 35 روپے ماہ وار تھی۔ وہ وہاں کام کرتے ہوئے مشین آپریٹر بن گئے۔ اس دوران گھر کے حالات کچھ بہتر ہوگئے تھے۔ ماں کے بے حد اصرار پر باپو شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور قدرت نے انہیں سات بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ باپو کی پوری کوشش رہی کہ ان کے سارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں چاہے انہیں کتنی بھی محنت کرنا پڑے۔ باپو کی تن خواہ اس مقصد کے لیے ناکافی تھی۔ اس لیے انہوں نے چھٹی کے بعد کوئی کام کرنے کا سوچا۔ جونا مارکیٹ جہاں سے وہ روزانہ گزرتے تھے ایک صاحب پرانے ٹائروں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ اس کام میں محنت تو بہت تھی، لیکن محنتانہ معقول مل جاتا تھا۔ باپو ان صاحب کے پاس پہنچے اور کام سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ نیک دل انسان تھا راضی ہوگیا اور یوں باپو شام کے وقت کام سیکھنے لگے۔ دو سال میں وہ اپنی محنت اور استاد کی توجہ کی وجہ سے کام سیکھ گئے اور اب یوں انہیں کام کا معاوضہ بھی ملنے لگا۔




اس طرح وہ اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ باپو صبح سویرے اپنی کمپنی جاتے اور واپسی میں پرانے ٹائروں کی مرمت کرتے اور رات کو گیارہ بجے واپس گھر پہنچتے۔ لیکن وہ خوش تھے کہ ان کے سارے بچے اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ وہ اکثر اپنے بچوں کو کہتے کہ وہ دل لگاکر تعلیم حاصل کریں اور اخراجات کی کوئی فکر نہ کریں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتادیا تھا کہ ان کی تعلیم باپو کا خواب ہے جسے تعبیر کرنا اب ان کا فرض ہے۔ باپو نے اپنی اہلیہ سے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ بچوں سے کسی بھی قسم کا کام نہ لیں اور انہیں تعلیم کے لیے فارغ رکھیں۔ 1969 میں باپو ریٹائر ہوگئے۔ اور اس طرح معقول آمدنی کا در بند ہوگیا۔ اس وقت ان کے چار بیٹے کالج میں پہنچ چکے تھے۔ لیکن باپو نے ہمت نہیں ہاری۔ کمپنی سے ملنے والے پیسوں سے انہوں نے چاکی واڑہ میں بر لب سڑک تین کمروں کا مکان خرید لیا، جس میں سے دو کمرے رہائش کے تھے اور ایک کمرے کو دکان بنالیا تھا۔ جہاں وہ اپنا کام کرنے لگے۔ باپو کے ہاتھ میں جادو تھا۔ پرانا ٹائر ان کی مسیحائی سے جی اٹھتا تھا۔ آہستہ آہستہ ان کی شہرت پھیل گئی اور اندرون سندھ سے بھی ان کے پاس کام آنے لگا۔ باپو سب کچھ بھول گئے تھے۔ ان پر بچوں کو پڑھانے کی دھن سوار تھی۔

وہ دن باپو کی زندگی کا خوب صورت ترین دن تھا جب باپو کے بڑے بیٹے نے بی کام کرلیا اور اسے فوراً ہی غیر ملکی ہوائی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ باپو کی خوشی دیدنی تھی لیکن وہ مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا تمہیں آگے پڑھنا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ فرماں بردار بیٹے نے باپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا فیصلہ کیا اور ایک دن وہ اس کمپنی میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔ بڑے بیٹے نے اپنے چھوٹے بھائیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے میں باپو کا ہاتھ بٹایا۔ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ جب سارے بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ باپو نے اپنے سارے بیٹوں کو آزادی دی کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرلیں اور اپنے ٹھکانے بنائیں، انہوں نے اپنے بیٹوں سے کسی بھی قسم کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ وہ خود محنت کرتے تھے اور صرف کام ہی نہیں بہت معیاری کام۔ انہوں نے اپنا یہ ہنر لیاری کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کو سکھایا اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دی۔ وہ بچوں کو پڑھنے کی تلقین کرتے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے۔ باپو بہت محبت سے اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے، مجھے ایشور نے 7 بیٹے، 2 بیٹیاں، 31پوتیاں،10پوتے اور 3 نواسے دیے ہیں اور سب کے سب پڑھے لکھے۔



اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد وہ مطمئن نہیں تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بچہ باہر نہ جائے اور ملک میں رہ کر پاکستان کی خدمت کرے۔ فرماں بردار بچوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ بڑے بیٹے نے شادی کے بعد ڈیفنس میں رہائش اختیار کرلی اور اسی طرح ان کے سارے بیٹوں نے شادی کے بعد اپنے مکانات میں رہائش اختیار کرلی۔ انہوں نے باپو سے بہت اصرار کیا کہ وہ اپنا یہ کام چھوڑدیں اور آرام کریں، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ باپو نے خود کو بے سہارا لوگوں کے لیے وقف کردیا تھا اور ہر وقت خدمت انسانیت پر مامور ہوگئے تھے۔ باپو کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا، جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور باپو تنہا رہ گئے، لیکن وہ یہ صدمہ صبر اور وقار سے برداشت کرگئے۔ کچھ دن بعد وہ اپنے معمول کے کاموں میں لگ گئے۔ ہر وقت ان کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا اور وہ ان میں دانش کے موتی، امید کی شمع روشن کرتے رہتے۔ چھٹی کے دن باپو کی کٹیا کے سامنے سات چمکتی ہوئی کاریں کھڑی ہوتیں اور بچے اپنے باپو سے ملنے آتے۔ چھٹی کا دن باپو کے لیے عید سے کم نہ تھا۔ وہ مہینے بھر میں جو کماتے لوگوں میں تقسیم کردیتے اور کچھ رقم اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کی چاکلیٹس اور ٹافیوں کے لیے بچاکر رکھتے۔ سارے بچے اپنے باپ سے بے انتہا پیا ر کرتے تھے ۔

میں اکثر مذاق میں کہتا باپو اتنی منہگی چاکلیٹ لیتے ہوئے آپ کو کچھ احساس نہیں ہوتا تو مسکراکر کہتے ہوتا ہے پر نئی نسل کا کچھ تو خیال رکھنا چاہیے۔ باپو انتہائی شفیق انسان تھے۔ نو سال کے بچے سے لے کر نوے سال کے بوڑھے تک سب ان کے دوست تھے ۔ خاص کر نوجوان ان کی توجہ کا مرکز تھے وہ کہا کرتے یہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ باپو کی زبان میں قدرت نے عجیب تاثیر رکھی تھی۔ ان کے پا س لوگ روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان کو اس کی ماں باپو کے پاس لے کر آئی، وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی باپو اس نے پھر سے خود کو مارنے کی کوشش کی ہے۔ باپو نے اس نوجوان سے کہا دیکھ پیارے تو سمجھ کہ تو مر گیا ہے، وہ بہت حیران ہوا اور کہا میں زندہ ہوں بس مرنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی کام کا نہیں سمجھتا، سب مجھے گالیاں دیتے ہیں بس میں مرنا چاہتا ہوں۔ باپو نے اسے بہت پیار کیا اور پھر کہا دیکھ تو آج سے مر گیا ہے بس سمجھ لے اور مردے کسی کی بات نہیں سنتے وہ غصہ نہیں کرتے، بس آج سے تو میرے پاس رہے گا ۔

کچھ دن بعد میرا باپو کے پاس جانا ہوا تو وہ نوجوان صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ان کے پاس بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا۔ میں نے پوچھا باپو یہ تو بابو بن گیا ہے، باپو مسکرائے اور کہا بابو نہیں یہ اب ساہوکار ہے ، باپو نے اسے کریانے کی چھوٹی سی دکان کرادی تھی ۔ وہ ایسے کام کرتے رہتے تھے۔باپو پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے تھے وہ پاکستان کو ہمیشہ دھرتی ماتا کہتے، یوم آزادی پر باپو مٹھائی تقسیم کرتے اور ان کی آنکھیں فرط جذ بات سے نم رہتیں وہ ہمیشہ کہتے کاش میں دھرتی ماں کے لیے کچھ کر سکتا۔ لیکن باپو نے اپنی دھرتی ماتا کے لیے اپنی اولاد کو دان کردیا تھا۔ انہوں نے اس پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد دیے جنہیں انہوں نے پابند کیا کہ وہ اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کسی بھی صورت میں باہر نہیں جائیں گے اور دھرتی ماں کی خدمت کریں گے، اور ان کے بچوں نے ان کا یہ خواب تعبیر کیا۔ آج باپو ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی خاموش خدمات کا اعتراف سیکڑوں لوگ کرتے ہیں۔ باپو پاکستان کے گم نام ہیرو تھے۔ ایسے کردار اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں ۔ کبھی سوچتا ہوں، اچھا ہوا باپو اس دنیا میں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس لوٹ کر نہیں آتا، ورنہ وہ آج کے پاکستان کے حالات اور خاص کر کراچی اور پھر لیاری پیاری کو دیکھ کر کیسے جی پاتے۔
Load Next Story