نیا پاکستان اور موت کا رقص

تمباکو، پولیس، مچھروں اور کچرے کو ٹھکانے نہ لگایا گیا تو نئے پاکستان میں موت اسی طرح رقص کرتی رہے گی

نئے پاکستان میں بھی موت کا رقص یونہی جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مالی سال 2014-15 کے اعدادوشمار کے مطابق، اس برس ملک میں 177 ملین سگریٹ روزانہ پیے گئے۔ 2014 میں ہونے والے ہیلتھ سروے کے مطابق، ملک کے 46 فیصد مرد اور 5.7 فیصد عورتیں تمباکو کا استعمال کرتء ہیں۔ ہیلتھ سروے کے مطابق، یہ عادت زیادہ تر نوجوانوں میں پائی جاتی ہے اور یوں یہ ان کی بیماریوں اور اموات کی بھی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں تمباکو کا سب سے زیادہ استعمال پاکستان میں ہوتا ہے۔

ہر چند کہ یہ سروے پرانے پاکستان میں ہوئے تھے اور چونکہ ہم من حیث القوم سروے وغیرہ کو نہایت غیر اہم اور فضول چیز سمجھتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں بے ہنگم پن کو اپنا امتیاز مانتے ہیں، لہٰذا تازہ ترین سروے تو مفقود ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں تمباکو کے استعمال کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور نتیجتاً اس کے باعث ہونے والی بیماریوں اور اموات کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے۔

رواں برس اپریل کے آخری عشرے میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کے ایک اجلاس کو بریفنگ کے دوران متعلقہ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ تمباکو نوشی ہر سال 1 لاکھ 60 ہزار 189 پاکستانیوں کی جان لے لیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمباکو ملک بھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہ روزانہ تقریباً 438 اہل زمین کو سپردِ زمین کردیتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پرانے نہیں نئے پاکستان کی حکومت کی جانب سے منظرعام پر لائے گئے اعدادوشمار ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، وطن عزیز میں ہر سال سگریٹ نوشی پر 143 بلین روپے سے بھی زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔ گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے 2013 کے مطابق، پاکستان میں بننے والے ہر 5 میں سے 2 نئے سگریٹ نوش 10 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں۔

ورلڈ لنگز فاؤنڈیشن کی شائع کردہ ٹوبیکو اٹلس کے چھٹے شمارے کے مطابق، پاکستان میں ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ ٹی بی ہے اور وطنِ عزیز میں ہر سال ٹی بی کی وجہ سے 60 ہزار افراد داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔

دریں اثناء، ملک میں ہر سال 5 ہزار افراد ملیریا کی وجہ سے بھی راہی ملک عدم ہوجاتے ہیں۔ ایچ آئی وی ایڈز پاکستان میں ہونے والی اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہے اور ہر سال 1 ہزار 4 سو 80 افراد اس بیماری کی نذر ہوکر جان، جانِ آفریں کے سپرد کردیتے ہیں۔

کیا وزیراعظم نہیں جانتے کہ ان کے ووٹرز اور دیگر پاکستانی شہریوں، جن کی جانوں کی حفاظت ان کی ذمے داری ہے، کی زندگیوں کو سب سے بڑا خطرہ تمباکو نوشی سے لاحق ہے؟ اگر جانتے ہیں تو پھر انہوں نے ان کی جانیں بچانے کےلیے کوئی ایک بھی عملی قدم اٹھایا؟ بالغ افراد سے قطع نظر انہوں نے تو کبھی نابالغ افراد کو بھی سگریٹ سے دور رکھنے کےلیے کوئی مؤثر قانون سازی اور تدارکی پلان تیار نہیں بنایا۔ سابق وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی تو عملاً نہ سہی زبانی کلامی ہی سہی، مگر ایسے مسائل پر کچھ نہ کچھ بول دیا کرتے تھے، لیکن موجودہ شاہ صاحب کو دیکھ کر تو صرف ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے، 'کھوئے ہو تم کہاں؟'

کیا خان صاحب باقی 4 سال بھی اسی طرح بغیر کسی منصوبہ بندی اور مخصوص و متعین حکمتِ عملی کے ماضی کے حکمرانوں کی طرح صرف روزمرہ امورِ سلطنت نمٹاتے ہی نظر آئیں گے یا صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر عوامی فلاح کے حوالے سے اہم شعبوں پر بھی کوئی نظر ڈالیں گے؟


ملیریا، مچھروں یعنی گندگی کی عطا، گٹر اور نالیوں کی غلاظت ہر سال 5 ہزار افراد کی جانیں لے لیتی ہے، لیکن ان پر بھی تاحال صرف سیاست ہورہی ہے۔ پنجاب میں ڈینگی پھر بتدریج بڑھ رہا ہے لیکن پارکوں اور شاہراہوں کے بیچوں بیچ لگے فوارے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسپرے کرنے والے بھی دکھائی نہیں دیئے۔

پولیس قتل پر قتل کررہی ہے۔ پرانے الیکشن کمشنر جانے کو ہیں، اگلے الیکشن کا وقت بھی بہرحال جلد یا بدیر آنا تو ہے۔ پرانے چیئرمین نیب جانے کو ہیں۔ اسپتالوں والے اپنا کچرا سڑکوں پر پھینک رہے ہیں اور اس کچرے سے رزق تلاش کرنے والے ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہورہے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان سگریٹ پی رہے ہیں، نسوار کھا رہے ہیں، حقہ پی رہے ہیں، گٹکا کھا رہے ہیں، تمباکو والے پان کھا رہے ہیں اور نجانے کس کس طرح اپنی رگوں میں زہر اتار رہے ہیں۔ لیکن نظام بدلنے اور اسٹرکچرل ریفارمز کا نعرہ لگا کر الیکشن کمیشن، نیب، پولیس، ہیلتھ اور ایجوکیشن سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات لانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان امورِ سلطنت میں تو غوطہ زن ہوچکے ہیں، مگر اپنے وعدوں کے بحرِ بے کنار میں اترنے سے اب شاید انہیں ڈر لگتا ہے۔ شاید وہ جان گئے ہیں کہ الیکشن جیتنے سے پہلے کی ان کی معجز بیانی نے عوام سے کیے جانے والے وعدوں کے سمندر کو اس قدر عمیق کردیا تھا کہ اب اس میں اترنے کا مطلب ڈوبنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

الیکشن سے قبل تو خان صاحب کی ہمہ وقت دعویٰ زد زبان کا یہ عالم تھا کہ جیسے آتش ان ہی کے متعلق کہہ گئے ہوں

ابھی سیفِ زباں سے لوں میں کارِ ذوالفقار آتش
کوئی کافر ہو جو سُن کر میری معجز بیانی کا

لیکن سچ یہ ہے کہ کئی حوالوں سے اس ملک کا نظام اس قدر بوسیدہ اور یتیم ہوچکا ہے کہ اگر اسے ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک نہ کیا گیا تو سب سے بڑھ کر خسارہ شاید خان صاحب ہی کو ہوگا۔ اگر انتخابی اصلاحات نہ کی گئیں تو عین ممکن ہے کہ الیکشن 2023 کے بعد بھی کوئی عمران خان یا فضل الرحمٰن ڈی چوک پر بیٹھا ہو۔

اگر تمباکو، پولیس، مچھروں اور کچرے کو ٹھکانے نہ لگایا گیا تو پھر نئے پاکستان میں بھی موت اسی طرح رقص کرتی رہے گی، جیسے پرانے میں کررہی تھی۔ جانتے ہیں خان صاحب اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ نہیں تو پھر صرف یہ یاد کرلیجئے کہ آج کل آپ نے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو کہاں رکھا ہوا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story