تھپڑ کیوں مارا

کانسٹیبل فائزہ کے ساتھ یہ سلوک درحقیقت ہمارے معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت کا عکاس ہے


نادیہ مرتضیٰ September 16, 2019
کچہری میں ڈیوٹی پر موجود لیڈی کانسٹیبل کو وکیل احمد مختار نے تھپٹر مارا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فیروزوالا کچہری میں ڈیوٹی پر موجود لیڈی کانسٹیبل کو وکیل احمد مختار نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھپٹر مارا۔ گو اس خبر کو اخبارات اور ٹی وی پروگرامز میں بہت کوریج ملی، البتہ انصاف ملنے کی گنجائش اس لیے بھی موجود نہیں تھی کہ ملزم ایک تو وکیل، پھر اثرورسوخ، اور پھرجرم ایک تھپڑ؟ ہمارے عدالتی نظام میں لاکھوں مقدمات کے ڈھیر ہیں، جو طویل المدتی ہونے کے ساتھ سنگین جرائم پر مبنی ہیں۔ پھر ایک تھپڑ پر دفعات اور سزا کی گنجائش کون بیٹھ کر تلاش کرے۔

اس تحریر کا مقصد ہرگز عدالتی نظام کے سقم گنوانا نہیں۔ میرا مقصد یہ جاننا ہے کہ فائزہ کو تھپڑ پڑنے والی اس خبر کی شہرت کی مقصدیت کیا ہے؟ ہم نے اس خبر کا ایک پہلو یہ لیا کہ وکلا کی ایک بڑی تعداد چونکہ اپنے شہر کے بدمعاش یا ٹھگ ہیں، سو ان کے جو جی میں آئے وہ کریں۔ جڑانوالہ کی مقامی عدالت میں دوران بحث معمولی تلخ کلامی پر وکیل نے کرسی مار کر جج کا سر پھاڑ دیا۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں وکلا نے خاتون جج شائستہ کنڈی کو کمرہ عدالت میں بند کردیا۔ ججوں کو مغلظات بکنا اور برابھلا کہنا تو اب معمول ہے۔ جب ان ٹھگ حضرات کا قانون کچھ بگاڑ نہیں سکتا تو پھر خبر کا یہ پہلو تو اپنے آپ ہی مر جاتا ہے۔ دوسرا پہلو حقوق نسواں سے جڑا ہے اور مجھے خبر کے اس دوسرے پہلو پر اعتراض ہے۔ تھپڑ، مکا، مارپیٹ، گالی حتیٰ کہ گولی بھی معمول کی بات ہے اور سزا تو دور کی بات خبر میں بھی اس کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے۔ پھر فائزہ خبر کیوں؟

جس معاشرے میں ''میرا جسم، میری مرضی'' کے پلے کارڈ شہرت پکڑنے لگ جائیں، تو وہاں پھر مرد و عورت کی تفریق کیا؟ تھپڑ مرد کو پڑے یا عورت کو، بات تو برابری کی ہے۔ خواتین کی برابری کی جنگ لڑنے والیوں سے معذرت کے ساتھ، ہمارے رویوں میں یہ دہرا معیار کیوں؟

برابر کے حقوق، برابر کا اسٹیٹس، برابر کی اجرت، برابر کی آزادی کا مطالبہ تو ہے، ہمدردری، انصاف اور رویوں میں توازن کیوں نہ ہو۔ میڈیا پر خواتین کے حق میں نکلنے والی آوازیں کتنی ہی بھلی کیوں نہ لگیں، یہ حقیقت ہے کہ عورت کی آزادی اور برابری کے موقف کی ایک قیمت ضرور ہے، جو بہرحال عورت کو چکانی ہے۔ اس کی ایک مثال ''می ٹو'' مہم ہے۔ حال ہی میں امریکا سمیت کئی ممالک کی کچھ پرائیویٹ کمپنیوں نے کسی بھی قسم کے جسمانی رابطے پر پابندی عائد کردی ہے۔ نہ تو خواتین سے ہاتھ ملانے کی اجازت ہوگی، نہ گلے ملنے کی، نہ ون ٹو ون میٹنگ کی۔ می ٹو کی شددت سے چلنے والی اس مہم نے خواتین کو ایک بار پھر کارپوریٹ سیکٹر میں محدود کردیا ہے۔ اب یہ پرائیویٹ کمپنیز اس پہلو پر بھی غور کررہی ہیں کہ آیا خواتین کو ملازمت دی جائے، یا ہراسگی کے الزامات سے بچنے کےلیے، ملازمت دینے سے گریز کیا جائے۔

1929 میں پہلی بار امریکا میں خواتین کی آزادی کےلیے خواتین نے مارچ کیا۔ تمام خواتین نے سگریٹ کے کش لگا کر آزادی کا نعرہ لگایا۔ یوں پھر یہ سلسلہ بکنی، آن اسکرین بوسے اور چل سو چل تھا۔ خواتین کی آزادی کے ہرگز خلاف نہیں اس کے ساتھ جڑے لوازمات اس آزادی کو خطرناک بنادیتے ہیں۔ سو فائزہ کے معاملے کو اگر آپ بطور فیمینسٹ دیکھیں گے تو طیش میں آنا بلاجواز ہوگا کہ عورت کو تھپڑ کیوں پڑا؟ کیونکہ برابری کا درس ہماری ہی اختراع ہے۔

کانسٹیبل فائزہ کے ساتھ یہ سلوک درحقیقت ہمارے معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت کا عکاس ہے۔ ہم بطور باشعور شہری اس حقیقت کا ادارک نہیں کرپائے کہ ہمارا معاشرہ اس حدود کو عبور کررہا ہے، جس کے اخلاقیات اور تحمل اہم اجزائے ترکیبی ہیں۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں جس میں سگے بھائی معمولی جھگڑے پر ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ایک شہری چالان کاٹنے پر کانسٹیبل کی زندگی چھین لیتا ہے۔ ایک ہجوم مشال خان کو بے رحمی سے مار ڈالتا ہے۔ ایک گروہ مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیتا ہے۔ ایک طویل فہرست ہے، اور اس پر ہماری خاموشی کہیں زیادہ طویل ہے۔

عدم برداشت ہمارے معاشرے کا وہ المیہ ہے جس کے ہم سب ذمے دار ہیں۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جسے ہم خاندانی دشمنی، غیرت، خواتین کی حق تلفی جیسے عنوان سے نتھی کرکے معاشرے کی اس بھیانک روش پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ عدم برداشت حیوانوں کا خاصا، اور ہم میں سے ہر دوسرا شخص اگر یہ خصلت رکھتا ہے تو جان لیجیے ہم انسانوں کے نہیں درندوں کے معاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں نہ تو کوئی قانون لاگو ہوتا ہے، نہ اخلاقی اقدار معنی رکھتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں