نکل کر خانقاہوں سے اداکر رسمِ شبیری
ایسا ظلمِ عظیم کس ہستی کے خاندان سے ہوا۔ یہ روئے زمین اور پوری انسانیت جِنکے احسانوں تلے قیامت تک دبی رہے گی۔
محرم کا مہینہ آتے ہی مسلمانوں کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں، حضور نبی کریمﷺ کے وصال کو ابھی پچاس سال بھی نہیں گذرے تھے کہ آپ ؐ کے خاندان پر ایسی قیا مت گذر گئی جس نے نہ صرف پورے خطہّء عرب کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس سے پوری اُمّتِ مسلمہ تڑپ اٹھّی ۔وقت کے فاسق اور ظالم حکمرانوں نے انسانیت کے محسنِ اعظم نبی آخرالزمان ، حضرت محمدﷺ کے محبوب ترین نواسے اور ان کے خاندان کے ستّر سے زیادہ افراد کو خاک وخون میں لوَٹا دیا۔
ایسا ظلمِ عظیم کس ہستی کے خاندان سے ہوا۔ یہ روئے زمین اور پوری انسانیت جِنکے احسانوں تلے قیامت تک دبی رہے گی۔ سر زمینِ کربلا ہمیشہ شرمندہ رہیگی کہ خاندانِ نبوّت کی پاکیزہ ہستیوں کا خون اس پر ٹپکا تھا۔ محسنؐ اِنسانیت کے نواسے اور ان کے بچوں پر جو سانحہ گزر گیا اس پر خود انسانیت شرمندگی سے منہ چھپاتی رہے گی۔ مسلمانوں کے لیے یہ صدمہ اتنا عظیم ہے اور جسدِ اسلام پر لگا ہوا یہ زخم اتنا گہرا ہے کہ سرورِ کائنات کے نام لیوا قیامت تک اپنے اپنے انداز میں اسکا سوگ مناتے رہیں گے۔
اقبالؒ پکارتے رہے ؎ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری
راقم اپنی آنکھوں سے وہ جگہ دیکھنا چاہتا تھا جہاں دینِ مصطفیٰ کی بقاء کے لیے کائنات کے اعلیٰ ترین افراد نے اپنے خون سے رسمِ شبیّری اداکی۔راقم اُس کربلاکو دیکھنا چاہتا تھا جس نے دینِ مصطفیٰﷺ کو تقویّت دی اورنئی زندگی بخشی ۔یہ اُسوقت کی بات ہے جب صدام سے ناراض ہوکر امریکا نے پابندیاں لگا رکھی تھیں اسلیے کوئی طیّارہ عراق نہیں اتر سکتا تھا مگر مسافر نے ہرقیمت پر کربلا پہنچنے کا تہیہ کر لیا تھا اسلیے اللہ نے مدد کی اوروہ تمام رکاوٹیں کو عبور کرتا ہوا کربلا پہنچ گیا۔ جہاں داستانِ حرم مکمل ہوئی جس نے اسلام کو حیات نو بخشی۔
راقم کربلا کے میدان (جو پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے)میں کھڑا ہوا تو سامنے روضہء امام حسینؓ تھا۔ ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا۔ نائب سفیر بتاتے رہے کہ یہاں پر خاندانِ نبوّت کے خیمے لگے تھے۔ یہاں پیا سے معصوم بچّے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے، یہ وہ جگہ ہے جہاں نواسئہ رسولﷺ نے ابنِ زیاد ملعون کی فوج کے سامنے خطبہ دیا اور ا نہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی اور پھر اس جگہ نواسہء رسول ؐجگر گوشہء بتولؓ ،اُنکے خاندان اور معصوم بچّوں کے مقدّس جسموں میں برچھیاں گھونپ دی گئیں۔ مسافر کربلاء میںروضہء حسینؓ کے سامنے کھڑا تھا شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے ہاتھ بلند تھے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ذہن کلبلا رہاتھا اوریہی سوچتا تھا کہ آقائے دوجہاں ؐ کے خاندان کے ساتھ ایسا ظلم ہواتو زمین پھٹ کیوں نہ گئی، آسمان ٹوٹ کر گِر کیوں نہ پڑا!
ایسا کیوں ہوا؟ ہر شخص اسلامی تاریخ کے اس عظیم ترین سانحے کا پس منظر اور حقائق جاننا چاہتا ہے ۔اس سلسلے میںعربی زبان میں لکھی گئی مستند تاریخوں کی جانب رجوع کیا تو کچھ مستند مورخین اور جیّد اسکالرز کے تراجم مل گئے جن میں مولانا ابوالکلام کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ جو کچھ مستند لگا وہ قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
امیر معاویہ نے اپنی وفات سے بہت پہلے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر دیاتھا مگر اہلِ بیت اپنے تیئں خلافت کا زیا دہ حق دار سمجھتے تھے۔ امیر معاویہ کی وفات کے بعد تخت خالی ہواتو یزید بن معاویہ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور حسین ابن علی ؓ سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا توآپؓ اپنے خاندان سمیت مدینہ سے مکہ چلے گئے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تھا، اس لیے وہاں اہل بیت کرام کے طرفداروں کی تعداد زیادہ تھی۔ انھوں نے سیّد ناامام حسین ؓ کو خط لکھے کہ آپ کُوفہ تشریف لائیے ہم آپؓ کا ساتھ دیں گے۔آپ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل ؓ کو اہل کوفہ سے بیعت لینے کے لیے بھیج دیا اور خود بھی سفر کی تیا ری کرنے لگے۔
آپ ؓکے دوستوں اور عزیزوں کومعلوم ہوا تو وہ سخت مضطرب ہوئے، وہ اہل کوفہ کی بے وفائی سے واقف تھے۔ بنی امیّہ کی طاقت سے بھی بے خبر نہ تھے۔انھوں نے اس سفر کی مخالفت کی ۔سیّد نا عبداللہ ؓ نے حضرت حسینؓ سے ملکر کہا :''لوگ یہ سن کر پریشان ہیں کہ آپ عراق جارہے ہیں ، مجھے اصلی حقیقت سے آگاہ کیجیے ۔''
سیّد نا حسین ؓ نے جواب دیا :''میںنے عزم کر لیا ہے۔ میں آج یا کل میں روانہ ہوتا ہوں۔''
یہ سنکرابن عباس ؓ پکار اُٹھے:''خدا آپ کی حفاطت کرے،کیا آپ ایسے لوگوں میں جا رہے ہیں ، جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال دیا ہے اور ملک پر قبضہ کر لیا ہے؟ اُن کا آپؓ کو بلانا درحقیقت جنگ کی طرف بلانا ہے''۔
جب روانگی کی گھڑی بالکل قریب آگئی تو ابن عباس ؓ پھر دوڑ ے آئے اورکہنے لگے '' ابنِ عم میں خاموش رہنا چاہتا تھا ،مگر خاموش رہا نہیں جاتا۔ عراق والے دغاباز ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جائیے، یہیں قیام کیجیے، کیونکہ یہاں حجاز میں آپ سے بڑا کوئی نہیں۔ اگر آپ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیے، وہاںکے لوگ آپ کے والد کے خیر خواہ ہیں''۔
آپ کے چچیرے بھائی عبداللہ بن جعفر ؓ نے خط لکھا: ''میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوںکہ یہ خط دیکھتے ہی اپنا ارادہ ترک کردیجئے، کیونکہ اس راہ میں اہل بیت کے لیے بربادی ہے۔ اگر آپ شہید ہوگئے، تو زمین کا نور بجھ جائے گا۔ اس وقت ایک آپ ہی ہدایت کا نشان اور اربابِ ایمان کی اُمیدوں کامرکز ہیں''۔
''امام عالی مقامؓ اپنے عزم پر قائم رہے۔اور آپؓ مکہ سے عراق کے لیے روانہ ہو گئے ۔ '' صفاح '' نام کے مقام پر مشہورمحبِّ اہل بیت شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے پوچھا : '' تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے؟''فرزدق نے جواب دیا:''اُن کے دل آپ کے ساتھ ہیں ، مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں''۔ فرمایا: ''سچ کہتا ہے،مگر اب ہمارا معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے، اگر اس کی مشیت ہماری پسند کے مطابق ہو تو اس کی ستائش کریں گے ۔ اگر امید کے خلاف ہو تو بھی نیک نیتی اور تقویٰ کا ثواب کہیں نہیں گیاہے۔''
زرود نامی مقام میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپ کے نائب مسلم بن عقیل کو کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے اعلانیہ قتل کر دیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رنیگی ۔آپ ؓ نے حالات پر غورفرمانے کا ارادہ کیا تو مسلم بن عقیل کے عزیز کہنے لگے : '' واللہ ! ہم ہرگز نہ ٹلیں گے۔ ہم اپنا انتقام لیں گے یا اپنے بھائی کی طرح مر جائیں گے''۔ اس پر آپ نے ساتھیوں کو نظراٹھا کے دیکھا اور فرمایا : '' اے لوگو! ہمیں نہایت تشویش ناک خبریں پہنچی ہیں ۔ مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطرقتل کر ڈالے گئے ۔ ہمارے طرفداروں نے بیوفائی کی۔ جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہے چھوڑدے ، ہم ہرگز خفا نہ ہوں گے''۔بھِیڑ نے یہ سنا تو دائیں بائیں کٹنا شروع ہوگئی ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ کے گردوہی لوگ رہ گئے جو مکّہ سے ساتھ چلے تھے۔
امام ؓعالی مقام کا قافلہ جوں ہی قادسیہ سے آگے بڑھا عبیداللہ بن زیاد کے عامل حصین بن نمیر تمیمی کی طرف سے حُر بن یزید ایک ہزار فوج کے ساتھ نمودار ہوا اور ساتھ ہو لیا۔ اسے حکم ملا تھا کہ سیّد نا اما م حسین ؓکے ساتھ برابر لگا رہے اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑ ے،جب تک انھیں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے نہ لے جائے۔راستے میں نماز کا وقت آیا تو وہیں صفیں بن گئیں۔
سیّد نا امام حسینؓ نے حر بن یزید سے پوچھا : ''کیا تم علیحدہ نماز پڑھو گے؟''
اُس نے کہا : ''نہیں آپ امامت کریں، ہم آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھیں گے''۔وہیں عصر کی نماز بھی پڑھی گئی۔ نماز کے بعدآپ نے خطبہ دیا : ''اے لوگو !اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانتے ہو تو یہ خدا کی خوشنودی کاموجب ہوگا ''۔ آپ ؓ نے خطوط کا ذکر فرمایا تو حُر نے کہا : ''ہمیں ایسے خطوں کا کوئی علم نہیں ''۔آپ نے عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ وہ دونوں تھیلے نکال لائے، جن میں کوفہ والوں کے خط بھرے ہیں۔عقبہ نے تھیلے انڈیل کر خطوں کا ڈھیر لگا دیا۔ اس پر حر نے کہا : ''لیکن ہم وہ نہیںہیں جنہوںنے یہ خط لکھے تھے۔ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد تک پہنچاکے چھوڑدیں''۔
سیّدنا امام حسین علیہ اسلام نے فرمایا: ''لیکن یہ موت سے پہلے ممکن نہیں ہے''۔
راستے میں کئی اور مقامات پر آپ نے دوستوں اور دشمنوں کو مخاطب کر کے خطبات ارشاد فرمائے۔ مقامِ بیضہ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، '' اے لوگو ! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کر تا ہے، خدا کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے، سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے۔ اور یہ دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کر ے نہ اپنے قول سے ، سوخدا ایسے آدمی کو اچھا ٹھکانا نہیں بخشے گا۔ دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے اور رحمان سے سرکش ہوگئے ہیں۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
کوئی نہیں جوظالم حکمرانوں کا ہاتھ پکڑے،وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں رضائے الٰہی کی خواہش کر ے، لیکن میں شہادت ہی کی موت چاہتاہوں، ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خود پر ظلم ہے''۔(جاری ہے)
ایسا ظلمِ عظیم کس ہستی کے خاندان سے ہوا۔ یہ روئے زمین اور پوری انسانیت جِنکے احسانوں تلے قیامت تک دبی رہے گی۔ سر زمینِ کربلا ہمیشہ شرمندہ رہیگی کہ خاندانِ نبوّت کی پاکیزہ ہستیوں کا خون اس پر ٹپکا تھا۔ محسنؐ اِنسانیت کے نواسے اور ان کے بچوں پر جو سانحہ گزر گیا اس پر خود انسانیت شرمندگی سے منہ چھپاتی رہے گی۔ مسلمانوں کے لیے یہ صدمہ اتنا عظیم ہے اور جسدِ اسلام پر لگا ہوا یہ زخم اتنا گہرا ہے کہ سرورِ کائنات کے نام لیوا قیامت تک اپنے اپنے انداز میں اسکا سوگ مناتے رہیں گے۔
اقبالؒ پکارتے رہے ؎ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری
راقم اپنی آنکھوں سے وہ جگہ دیکھنا چاہتا تھا جہاں دینِ مصطفیٰ کی بقاء کے لیے کائنات کے اعلیٰ ترین افراد نے اپنے خون سے رسمِ شبیّری اداکی۔راقم اُس کربلاکو دیکھنا چاہتا تھا جس نے دینِ مصطفیٰﷺ کو تقویّت دی اورنئی زندگی بخشی ۔یہ اُسوقت کی بات ہے جب صدام سے ناراض ہوکر امریکا نے پابندیاں لگا رکھی تھیں اسلیے کوئی طیّارہ عراق نہیں اتر سکتا تھا مگر مسافر نے ہرقیمت پر کربلا پہنچنے کا تہیہ کر لیا تھا اسلیے اللہ نے مدد کی اوروہ تمام رکاوٹیں کو عبور کرتا ہوا کربلا پہنچ گیا۔ جہاں داستانِ حرم مکمل ہوئی جس نے اسلام کو حیات نو بخشی۔
راقم کربلا کے میدان (جو پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے)میں کھڑا ہوا تو سامنے روضہء امام حسینؓ تھا۔ ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا۔ نائب سفیر بتاتے رہے کہ یہاں پر خاندانِ نبوّت کے خیمے لگے تھے۔ یہاں پیا سے معصوم بچّے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے، یہ وہ جگہ ہے جہاں نواسئہ رسولﷺ نے ابنِ زیاد ملعون کی فوج کے سامنے خطبہ دیا اور ا نہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی اور پھر اس جگہ نواسہء رسول ؐجگر گوشہء بتولؓ ،اُنکے خاندان اور معصوم بچّوں کے مقدّس جسموں میں برچھیاں گھونپ دی گئیں۔ مسافر کربلاء میںروضہء حسینؓ کے سامنے کھڑا تھا شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے ہاتھ بلند تھے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ذہن کلبلا رہاتھا اوریہی سوچتا تھا کہ آقائے دوجہاں ؐ کے خاندان کے ساتھ ایسا ظلم ہواتو زمین پھٹ کیوں نہ گئی، آسمان ٹوٹ کر گِر کیوں نہ پڑا!
ایسا کیوں ہوا؟ ہر شخص اسلامی تاریخ کے اس عظیم ترین سانحے کا پس منظر اور حقائق جاننا چاہتا ہے ۔اس سلسلے میںعربی زبان میں لکھی گئی مستند تاریخوں کی جانب رجوع کیا تو کچھ مستند مورخین اور جیّد اسکالرز کے تراجم مل گئے جن میں مولانا ابوالکلام کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ جو کچھ مستند لگا وہ قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
امیر معاویہ نے اپنی وفات سے بہت پہلے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر دیاتھا مگر اہلِ بیت اپنے تیئں خلافت کا زیا دہ حق دار سمجھتے تھے۔ امیر معاویہ کی وفات کے بعد تخت خالی ہواتو یزید بن معاویہ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور حسین ابن علی ؓ سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا توآپؓ اپنے خاندان سمیت مدینہ سے مکہ چلے گئے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تھا، اس لیے وہاں اہل بیت کرام کے طرفداروں کی تعداد زیادہ تھی۔ انھوں نے سیّد ناامام حسین ؓ کو خط لکھے کہ آپ کُوفہ تشریف لائیے ہم آپؓ کا ساتھ دیں گے۔آپ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل ؓ کو اہل کوفہ سے بیعت لینے کے لیے بھیج دیا اور خود بھی سفر کی تیا ری کرنے لگے۔
آپ ؓکے دوستوں اور عزیزوں کومعلوم ہوا تو وہ سخت مضطرب ہوئے، وہ اہل کوفہ کی بے وفائی سے واقف تھے۔ بنی امیّہ کی طاقت سے بھی بے خبر نہ تھے۔انھوں نے اس سفر کی مخالفت کی ۔سیّد نا عبداللہ ؓ نے حضرت حسینؓ سے ملکر کہا :''لوگ یہ سن کر پریشان ہیں کہ آپ عراق جارہے ہیں ، مجھے اصلی حقیقت سے آگاہ کیجیے ۔''
سیّد نا حسین ؓ نے جواب دیا :''میںنے عزم کر لیا ہے۔ میں آج یا کل میں روانہ ہوتا ہوں۔''
یہ سنکرابن عباس ؓ پکار اُٹھے:''خدا آپ کی حفاطت کرے،کیا آپ ایسے لوگوں میں جا رہے ہیں ، جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال دیا ہے اور ملک پر قبضہ کر لیا ہے؟ اُن کا آپؓ کو بلانا درحقیقت جنگ کی طرف بلانا ہے''۔
جب روانگی کی گھڑی بالکل قریب آگئی تو ابن عباس ؓ پھر دوڑ ے آئے اورکہنے لگے '' ابنِ عم میں خاموش رہنا چاہتا تھا ،مگر خاموش رہا نہیں جاتا۔ عراق والے دغاباز ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جائیے، یہیں قیام کیجیے، کیونکہ یہاں حجاز میں آپ سے بڑا کوئی نہیں۔ اگر آپ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیے، وہاںکے لوگ آپ کے والد کے خیر خواہ ہیں''۔
آپ کے چچیرے بھائی عبداللہ بن جعفر ؓ نے خط لکھا: ''میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوںکہ یہ خط دیکھتے ہی اپنا ارادہ ترک کردیجئے، کیونکہ اس راہ میں اہل بیت کے لیے بربادی ہے۔ اگر آپ شہید ہوگئے، تو زمین کا نور بجھ جائے گا۔ اس وقت ایک آپ ہی ہدایت کا نشان اور اربابِ ایمان کی اُمیدوں کامرکز ہیں''۔
''امام عالی مقامؓ اپنے عزم پر قائم رہے۔اور آپؓ مکہ سے عراق کے لیے روانہ ہو گئے ۔ '' صفاح '' نام کے مقام پر مشہورمحبِّ اہل بیت شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے پوچھا : '' تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے؟''فرزدق نے جواب دیا:''اُن کے دل آپ کے ساتھ ہیں ، مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں''۔ فرمایا: ''سچ کہتا ہے،مگر اب ہمارا معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے، اگر اس کی مشیت ہماری پسند کے مطابق ہو تو اس کی ستائش کریں گے ۔ اگر امید کے خلاف ہو تو بھی نیک نیتی اور تقویٰ کا ثواب کہیں نہیں گیاہے۔''
زرود نامی مقام میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپ کے نائب مسلم بن عقیل کو کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے اعلانیہ قتل کر دیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رنیگی ۔آپ ؓ نے حالات پر غورفرمانے کا ارادہ کیا تو مسلم بن عقیل کے عزیز کہنے لگے : '' واللہ ! ہم ہرگز نہ ٹلیں گے۔ ہم اپنا انتقام لیں گے یا اپنے بھائی کی طرح مر جائیں گے''۔ اس پر آپ نے ساتھیوں کو نظراٹھا کے دیکھا اور فرمایا : '' اے لوگو! ہمیں نہایت تشویش ناک خبریں پہنچی ہیں ۔ مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطرقتل کر ڈالے گئے ۔ ہمارے طرفداروں نے بیوفائی کی۔ جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہے چھوڑدے ، ہم ہرگز خفا نہ ہوں گے''۔بھِیڑ نے یہ سنا تو دائیں بائیں کٹنا شروع ہوگئی ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ کے گردوہی لوگ رہ گئے جو مکّہ سے ساتھ چلے تھے۔
امام ؓعالی مقام کا قافلہ جوں ہی قادسیہ سے آگے بڑھا عبیداللہ بن زیاد کے عامل حصین بن نمیر تمیمی کی طرف سے حُر بن یزید ایک ہزار فوج کے ساتھ نمودار ہوا اور ساتھ ہو لیا۔ اسے حکم ملا تھا کہ سیّد نا اما م حسین ؓکے ساتھ برابر لگا رہے اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑ ے،جب تک انھیں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے نہ لے جائے۔راستے میں نماز کا وقت آیا تو وہیں صفیں بن گئیں۔
سیّد نا امام حسینؓ نے حر بن یزید سے پوچھا : ''کیا تم علیحدہ نماز پڑھو گے؟''
اُس نے کہا : ''نہیں آپ امامت کریں، ہم آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھیں گے''۔وہیں عصر کی نماز بھی پڑھی گئی۔ نماز کے بعدآپ نے خطبہ دیا : ''اے لوگو !اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانتے ہو تو یہ خدا کی خوشنودی کاموجب ہوگا ''۔ آپ ؓ نے خطوط کا ذکر فرمایا تو حُر نے کہا : ''ہمیں ایسے خطوں کا کوئی علم نہیں ''۔آپ نے عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ وہ دونوں تھیلے نکال لائے، جن میں کوفہ والوں کے خط بھرے ہیں۔عقبہ نے تھیلے انڈیل کر خطوں کا ڈھیر لگا دیا۔ اس پر حر نے کہا : ''لیکن ہم وہ نہیںہیں جنہوںنے یہ خط لکھے تھے۔ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد تک پہنچاکے چھوڑدیں''۔
سیّدنا امام حسین علیہ اسلام نے فرمایا: ''لیکن یہ موت سے پہلے ممکن نہیں ہے''۔
راستے میں کئی اور مقامات پر آپ نے دوستوں اور دشمنوں کو مخاطب کر کے خطبات ارشاد فرمائے۔ مقامِ بیضہ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، '' اے لوگو ! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کر تا ہے، خدا کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے، سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے۔ اور یہ دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کر ے نہ اپنے قول سے ، سوخدا ایسے آدمی کو اچھا ٹھکانا نہیں بخشے گا۔ دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے اور رحمان سے سرکش ہوگئے ہیں۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
کوئی نہیں جوظالم حکمرانوں کا ہاتھ پکڑے،وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں رضائے الٰہی کی خواہش کر ے، لیکن میں شہادت ہی کی موت چاہتاہوں، ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خود پر ظلم ہے''۔(جاری ہے)