معاشرہ نرسوں کے لیے منفی تاثر ختم کرے انیلا علی بردائی
’’انٹرنیشنل نیونیٹل نرسنگ ایکسی لنس ایوارڈ‘‘حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی نرس سے گفتگو
نومولود بچوں کی تیمار داری اور ایسی تیمار داری جس میں دنیا میں ماں کے بعد مادرانہ شفقت کا سب سے قریب ترین احساس موجود ہو، ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
مائوں اور نومولود بچوں کی صحت اور نگہداشت کے تعلق سے اس شعبے کی اہمیت اور حیثیت سے کس بھلے مانس کو انکار ہو سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ شعبہ روایتی سے نکل کر باقاعدہ ایک ماہر اور تربیت یافتہ نرسوں کے سپرد ہوچکا ہے۔ ایسے ہی ایک شعبے ''نیونیٹل آئی سی یو'' سے منسلک ایک نام انیلا علی بردائی کا بھی ہے، جنہوں نے بطور نرس اس شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے بچوں کی شرح اموات میں کمی کے حوالے سے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ''انٹرنیشنل نیونیٹل نرسنگ ایکسی لنس ایوارڈ'' حاصل کیا۔ انہیں یہ ایوارڈ ''سیو دی چلڈرن'' اور ''کونسل آف انٹرنیشنل نیونیٹل نرسز'' کی جانب سے دیا گیا۔ انیلا پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی نرس ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل گھانا اور بھارت کی نرسوں کو یہ اعزاز دیا جا چکا۔ اس سال یہ ایوارڈ انیلا بردائی اور کینیا سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کرسٹین سیمی کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
انیلا علی بردائی ایک معروف نجی اسپتال میں بچوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبے (نیونیٹل آئی سی یو) کی ہیڈ نرس ہیں اور اس اہم شعبے کے طبی اور انتظامی معاملات کی نگراں ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز میٹرک کے بعد 1991ء میں ایک کلینک سے بطور مڈوائف کے ہوا، پھر اسی دوران انہوں نے مزید تعلیمی مدارج طے کیے۔ انٹر اور گریجویشن کے ساتھ نرسنگ کا ڈپلومہ کیا۔ اب وہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ نرسنگ کی طرف رجحان ہونے کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ بچپن میں جب انہوں نے اپنی امی کو ضعیف دادی کی تیمارداری کرتے دیکھا تو انہیں بہت اچھا لگا۔ خاندان میں بھی پہلے بہت سی خواتین اس شعبے سے منسلک تھیں، یوں والدین نے بھی ان کی پذیرائی کی اور کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہوئی۔ شادی ہوئی تو سسرال میں بھی کچھ رشتہ دار اس شعبے سے جڑے ہوئے تھے۔ یوں حوصلہ افزائی کا سلسلہ سسرال میں بھی جاری رہا۔
انیلا علی بردائی جس شعبے سے وابستہ ہیں، اس میں نہایت نازک اور شدید نوعیت کے مسائل میں بہت احتیاط سے نوزائیدہ بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ بہت سے بچوں کی پیدایش قبل ازوقت ہوتی ہے، ایسے میں انہیں کافی دن تک بہت زیادہ نگہداشت میں رکھا جاتا ہے، فطری طور پر موجود مختلف مسائل کو بھی اپنی سطح پر کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں تاخیر کی وجہ سے پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے یہاں غیر معمولی طور پر بہت زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے اور یقیناً وہ ایک ماہر نرس کی حیثیت سے اپنے کردار کو منوا نے میں کام یاب بھی رہی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات تشویش ناک ہے، جس کی وجہ پس ماندگی اور بچوں کی پیدایش کے وقت برتی جانے والی غفلت ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے شعبے میں خاطر خواہ کام کیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی کا جائزہ لیں تو معاشرے کی طرح یہاں بھی طبقاتی تفریق بڑی نمایاں نظر آتی ہے۔ اعلا سطح پر موجود لوگ اکثر اپنے متوسط اور نچلے طبقے کے ہم پیشہ افراد کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے، لیکن انیلا ایک طرف جہاں نرسنگ کی جدید تحقیقات سے آگاہ رہتی ہیں، وہیں ایک بڑے ادارے سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں اپنے سے نچلے طبقے کی نرسوں کے مسائل سے بھی واقفیت ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر وہ نرسوں کے مسائل کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ عدم تحفظ نرسوں کا بڑا مسئلہ ہے۔ انہیں اپنے اداروں کے اندر اور باہر مختلف نوعیت کے مسائل درپیش ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں بہتر تنخواہ اور آگے بڑھنے کے مواقع ملنا چاہئیں۔ نئی نرسوں کی اچھی ٹریننگ بھی ایک مسئلہ ہے۔ نرسنگ کے کورسز کی آگاہی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شعبہ صحت کو چاہیے کہ وہ نرسوں کی مہارت تعلیم اور تربیت میں اضافہ کرے۔
دوران طبی امداد شکایات کو وہ لوگوں کا حق قرار دیتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہم مسائل سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ بھی زندگی کا حصہ ہے، اگر لوگ شکایت کرتے ہیں، تو پذیرائی بھی کرتے ہیں۔ ہم انہیں مطمئن کرنے کا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں۔ انیلا چاہتی ہیں کہ لوگ نرسوں کے حوالے سے اپنے منفی تاثر کو ختم کریں۔ یہ معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے، جس کی بیرون ملک بھی بہت پذیرائی ہے۔ ملازمتیں، تنخواہیں سہولیات اور مراعات بھی حاصل ہیں۔ آگے بڑھے کے بھی بہت مواقع ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ نرسوں کی خدمات سے استفادے کے ساتھ ان کی خدمت گاری کو بھی کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ان کے خیال میں اس حوالے سے صرف مخصوص اداروں کی مثالیں لے کر منفی سوچ پال لینے کی سوچ بدلنی چاہیے، کیوں کہ بہت سی جگہوں پر نرسوں کی تربیت میں کمی کے مسائل بھی ہیں۔ اس لیے نرسوں کو بھی چاہیے کہ اپنے تاثر کو بہتر کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں خدمت کے ذریعے ایک اعتماد اور اطمینان حاصل ہوا، ہر طرح کے حالات موافق ہیں، اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ دوسری نرسیں بھی اسی کو اپنا مشن بنائیں۔
آج کی نرسنگ کا ماضی سے موازنہ کرتے ہوئے انیلا بتاتی ہیں کہ اب روایتی طور طریقے جدید چیزوں سے تبدیل ہو چکے ہیں۔ جدید مشینیں اور آلات کا استعمال بڑھنے کے باعث اب نرسوں کی صلاحیتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اسی بنا پر بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اس شعبے میں آنے والی لڑکیوں اور آگے بڑھنے والی نرسوں کے لیے پیغام ہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی تعلیمی مہارت بڑھائیں اور اس حوالے سے تخصیصیت (اسپیشلائزیشن) کی طرف آئیں۔ اس شعبے کا رخ کرنے والی لڑکیوں کو صرف محنت نہیں، بلکہ سخت محنت کی ضرورت ہے۔ نرسنگ کی اہمیت ڈاکٹر اور انجیئنر سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ اس کے ساتھ اس میں آگے بڑھنے کے بہت مواقع ہیں۔ اب تو مردوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس شعبے کا حصہ ہے۔ یقیناً یہ امر معاشرے کی فرسودہ ذہنیت میں تبدیلی کی غمازی ہے۔ عموماً ہمارے ہاں ڈاکٹر بننے کی خواہش زیادہ کی جاتی ہے، نرس کی نہیں۔ بعض لوگ نرسوں کو بالکل ملازم سمجھتے ہیں اور ان کی خدمت کو کم تر سمجھا جاتا ہے، جب کہ اگر دیکھا جائے تو تیمارداری اور مریضوں کا خیال رکھنا اور ان کی خدمت کرنا صرف نوکری نہیں بلکہ بہت بڑا کام ہے۔
دوسری طرف اب نرسنگ میں صرف ڈپلومہ ہی نہیں بلکہ بیچلر، ماسٹرز، پی ایچ ڈی اور پوسٹ پی ایچ ڈی پروگرام آچکے ہیں، جب کہ پاکستان میں پہلی بار بیچلر سائنس ان مڈوائف بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ اگر نرسنگ میں پی ایچ ڈی کی جائے تو عام ڈاکٹروں جتنی تنخواہیں بھی مل سکتی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ڈاکٹریٹ کی حامل نرس شاذونادر ہی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کسی نرس نے پی ایچ ڈی نہیں کیا۔ انیلا کا کہنا ہے کہ ان کے شعبے کو نرسنگ میں تخصیصی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ نومولود بچوں کی بیماریاں اور پیچیدگیاں بہت نازک اور احتیاط طلب ہیں۔ ہمارے ملک کو اس شعبے میں بہت زیادہ ماہر خواتین درکار ہیں۔ ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کافی بڑے پیمانے پر نرسوں کی ضرورت ہے۔
ذاتی زندگی
انیلا علی کے پیشہ ورانہ زندگی میں عمومی سوچ کے برعکس اہل خانہ کا بھرپور ساتھ رہا اور وہ اپنے اس عالمی اعزاز کو بھی وہ اسی کا ثمرہ قرار دیتی ہیںکہ یہ اعزازصرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک بہت بڑی کام یابی ہے۔ ذاتی زندگی میں انیلا علی بردائی ایک مکمل طور پر گھریلو خاتون ہیں۔ جو گھر اور کام، دونوں محاذوں سے بھرپور انصاف کرتی ہیں۔ شادی کے بعد بیوی، بہو اور ماںمیں سے اپنا کوئی کردار نظرانداز نہیں ہونے دیتیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں، جن کی عمریں بالترتیب دس اور تیرہ سال ہیں۔ انیلا گھر کے تمام کام خود کرتی ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر بچوں کو اسکول اور شوہر کو دفتر بھیجنے اور گھر کے دیگر ضروری کام نبٹا کر آتی ہیں۔ صبح 7 سے سہ پہر 4 بجے تک ڈیوٹی کے بعدگھر واپسی پر باقی کام پورے کرتی ہیں۔ اپنی سماجی زندگی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یوں تو غیر پیشہ ورانہ زندگی میں اپنی سماجی زندگی میں وہ اسے خاصا کم سمجھتی ہیں، لیکن نرس تو بنیادی طور پرجڑی ہی دوسرے فرد سے ہے، لہٰذا یہ پیشہ سماجی زندگی کے ساتھ قربانی کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ہفتے میں دوچھٹیوں میں بچوں اور گھر کو پورا وقت دیتی ہیں، لیکن بعض اوقات کسی کام کی وجہ سے یہ بھی مصروفیت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ انیلا کا موقف ہے کہ ایک نرس مجموعی طور پر سماجی سوچ کے بغیر اپنا کام کر ہی نہیں سکتی۔ فرصت کے اوقات میں نرسنگ اور مذہبی کتب پڑھنا پسند ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پکانے اور اسٹچنگ کا بھی شوق ہے۔
ناقابل فراموش
انیلا علی کا شعبہ چوں کہ بچوں کی انتہائی نگہداشت کا ہے، لہٰذا انہیں بچوں کی تشویش ناک حد تک غیر تسلی بخش صورت حال سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے، جس میں ظاہر ہے قبل ازوقت پیدایش کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے اور اس میں بچوں کی جان بچانا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بچوں کا جاں بر نہ ہونا انہیں بھی بہت دکھی کرتا ہے، لیکن دوسری طرف ایک واقعہ ان کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ قبل ازوقت پیدا ہونے والے ایسے ہی ایک بچے کا پیدایش کے وقت وزن محض 500 گرام تھا۔ اس کے بعد یہ 3 ماہ مسلسل نگہداشت میں رہا۔ ان کی سر توڑ کوششوں کے بعد اللہ نے اس بچے کو زندگی دی اور آج یہ بچہ ماشااللہ مکمل طور پرصحت مند ہے۔ اس واقعے کو 14 برس بیت چکے، لیکن اسے جب بھی دیکھتی ہیں، تو انہیں دلی طور پر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس خدمت کے لیے چنا۔
ماں بننے کے تجربے کے بعد
انیلا علی بردائی کو بطور مڈوائف کام کرتے ہوئے 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ اس کام سے منسلک ہونے کے کچھ عرصے بعد ان کی شادی ہوئی اور وہ خود ماں جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوئیں۔ اس ضمن میں جب ان سے اس سے پہلے اور بعد کے احساسات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم یقیناً ماں بننے سے پہلے کسی ماں کی ممتا اور اس کے اس منفرد رشتے کے مقام اور نوعیت کا احساس نہیں کر سکتے۔ ماں بننے کے بعد جب ہم کسی نومولود بچے کو گود میں اٹھاتے ہیں، تو اپنے جگر گوشے سے جڑے کسی ماں کے احساسات ہمارے سامنے پوری طرح عیاں ہو جاتے ہیں، جب کہ اس سے پہلے ہم اس کا تصور تو کر سکتے ہیں، لیکن اس رشتے کی چاشنی اور لگن محسوس کرنا اس سے پہلے ممکن ہی نہیں۔
آزمایش۔۔۔
زندگی اور موت کے معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، لیکن انسان نے ظاہر ہے اپنی سی کوشش تو کرنی ہی ہوتی ہے، جس میں کام یابی بھی ہوتی ہے اور ناکامی بھی۔ ناکامی کی صورت میں پھر وہ اس کی کوئی نہ کوئی ذمہ دار یا وجہ بھی نکال لیتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی ولادت کے حوالے سے خدانخواستہ کسی بچے کی موت واقع ہوجائے تو ایسے میں بعض اوقات والدین یا دیگر لواحقین ظاہر ہے ایک صدمے اور غم کی کیفیت میں تو ہوتے ہی ہیں۔ انیلا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بعض اوقات لواحقین کے لیے اس حقیقت کو ماننا بہت مسئلہ ہوتا۔ دکھ تو ہمیں بھی ظاہر ہے بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن لواحقین کو اس غم وغصے کی سی کیفیت میں ہم ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر انہیں مطمئن کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا ردعمل بہت جذباتی نوعیت کا ہوتا ہے اوریقیناً یہ ایک مشکل وقت ہوتا ہے، البتہ ہم ایسی پیچیدگیوں کے حوالے سے انہیں پہلے سے مکمل طور پر آگاہ رکھتے ہیں، لیکن ظاہر ہے اس کے باوجود بھی کسی کو کھونا کوئی چھوٹا حادثہ تو نہیں ہوتا۔
فالو اپ وزٹ
بچوں کے انتہائی نگہداشت میں ذمہ داریوں کا وسیع تجربہ رکھنے والی انیلا علی بردائی کا کہنا ہے کہ پیدایشی طور پر مختلف پیچیدگیاں رکھنے والے بچوں کے والدین جب بچوں کو گھر لے جاتے ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ بس اب ان کا بچہ بھلا چنگا ہوگیا، لہٰذا وہ فالو اپ وزٹ کو غیر ضروری سمجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ جس سے بچے کی بعد کی زندگی بہت بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے۔ اس کے مختلف جسمانی اعضا کے ساتھ سنگین نوعیت کے مسائل ہونے لگتے ہیں اوریوں والدین کی اس غفلت کا خمیازہ بچے کو اپنی آیندہ زندگی میں بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ پیدایشی طور پر کسی بھی مسئلے کے شکار بچے کے فالو اپ کو نظرانداز نہ کریں، چاہے کسی دوسرے اچھے معالج سے کرائیں۔
مائوں اور نومولود بچوں کی صحت اور نگہداشت کے تعلق سے اس شعبے کی اہمیت اور حیثیت سے کس بھلے مانس کو انکار ہو سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ شعبہ روایتی سے نکل کر باقاعدہ ایک ماہر اور تربیت یافتہ نرسوں کے سپرد ہوچکا ہے۔ ایسے ہی ایک شعبے ''نیونیٹل آئی سی یو'' سے منسلک ایک نام انیلا علی بردائی کا بھی ہے، جنہوں نے بطور نرس اس شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے بچوں کی شرح اموات میں کمی کے حوالے سے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ''انٹرنیشنل نیونیٹل نرسنگ ایکسی لنس ایوارڈ'' حاصل کیا۔ انہیں یہ ایوارڈ ''سیو دی چلڈرن'' اور ''کونسل آف انٹرنیشنل نیونیٹل نرسز'' کی جانب سے دیا گیا۔ انیلا پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی نرس ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل گھانا اور بھارت کی نرسوں کو یہ اعزاز دیا جا چکا۔ اس سال یہ ایوارڈ انیلا بردائی اور کینیا سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کرسٹین سیمی کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
انیلا علی بردائی ایک معروف نجی اسپتال میں بچوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبے (نیونیٹل آئی سی یو) کی ہیڈ نرس ہیں اور اس اہم شعبے کے طبی اور انتظامی معاملات کی نگراں ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز میٹرک کے بعد 1991ء میں ایک کلینک سے بطور مڈوائف کے ہوا، پھر اسی دوران انہوں نے مزید تعلیمی مدارج طے کیے۔ انٹر اور گریجویشن کے ساتھ نرسنگ کا ڈپلومہ کیا۔ اب وہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ نرسنگ کی طرف رجحان ہونے کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ بچپن میں جب انہوں نے اپنی امی کو ضعیف دادی کی تیمارداری کرتے دیکھا تو انہیں بہت اچھا لگا۔ خاندان میں بھی پہلے بہت سی خواتین اس شعبے سے منسلک تھیں، یوں والدین نے بھی ان کی پذیرائی کی اور کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہوئی۔ شادی ہوئی تو سسرال میں بھی کچھ رشتہ دار اس شعبے سے جڑے ہوئے تھے۔ یوں حوصلہ افزائی کا سلسلہ سسرال میں بھی جاری رہا۔
انیلا علی بردائی جس شعبے سے وابستہ ہیں، اس میں نہایت نازک اور شدید نوعیت کے مسائل میں بہت احتیاط سے نوزائیدہ بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ بہت سے بچوں کی پیدایش قبل ازوقت ہوتی ہے، ایسے میں انہیں کافی دن تک بہت زیادہ نگہداشت میں رکھا جاتا ہے، فطری طور پر موجود مختلف مسائل کو بھی اپنی سطح پر کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں تاخیر کی وجہ سے پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے یہاں غیر معمولی طور پر بہت زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے اور یقیناً وہ ایک ماہر نرس کی حیثیت سے اپنے کردار کو منوا نے میں کام یاب بھی رہی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات تشویش ناک ہے، جس کی وجہ پس ماندگی اور بچوں کی پیدایش کے وقت برتی جانے والی غفلت ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے شعبے میں خاطر خواہ کام کیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی کا جائزہ لیں تو معاشرے کی طرح یہاں بھی طبقاتی تفریق بڑی نمایاں نظر آتی ہے۔ اعلا سطح پر موجود لوگ اکثر اپنے متوسط اور نچلے طبقے کے ہم پیشہ افراد کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے، لیکن انیلا ایک طرف جہاں نرسنگ کی جدید تحقیقات سے آگاہ رہتی ہیں، وہیں ایک بڑے ادارے سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں اپنے سے نچلے طبقے کی نرسوں کے مسائل سے بھی واقفیت ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر وہ نرسوں کے مسائل کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ عدم تحفظ نرسوں کا بڑا مسئلہ ہے۔ انہیں اپنے اداروں کے اندر اور باہر مختلف نوعیت کے مسائل درپیش ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں بہتر تنخواہ اور آگے بڑھنے کے مواقع ملنا چاہئیں۔ نئی نرسوں کی اچھی ٹریننگ بھی ایک مسئلہ ہے۔ نرسنگ کے کورسز کی آگاہی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شعبہ صحت کو چاہیے کہ وہ نرسوں کی مہارت تعلیم اور تربیت میں اضافہ کرے۔
دوران طبی امداد شکایات کو وہ لوگوں کا حق قرار دیتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہم مسائل سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ بھی زندگی کا حصہ ہے، اگر لوگ شکایت کرتے ہیں، تو پذیرائی بھی کرتے ہیں۔ ہم انہیں مطمئن کرنے کا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں۔ انیلا چاہتی ہیں کہ لوگ نرسوں کے حوالے سے اپنے منفی تاثر کو ختم کریں۔ یہ معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے، جس کی بیرون ملک بھی بہت پذیرائی ہے۔ ملازمتیں، تنخواہیں سہولیات اور مراعات بھی حاصل ہیں۔ آگے بڑھے کے بھی بہت مواقع ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ نرسوں کی خدمات سے استفادے کے ساتھ ان کی خدمت گاری کو بھی کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ان کے خیال میں اس حوالے سے صرف مخصوص اداروں کی مثالیں لے کر منفی سوچ پال لینے کی سوچ بدلنی چاہیے، کیوں کہ بہت سی جگہوں پر نرسوں کی تربیت میں کمی کے مسائل بھی ہیں۔ اس لیے نرسوں کو بھی چاہیے کہ اپنے تاثر کو بہتر کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں خدمت کے ذریعے ایک اعتماد اور اطمینان حاصل ہوا، ہر طرح کے حالات موافق ہیں، اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ دوسری نرسیں بھی اسی کو اپنا مشن بنائیں۔
آج کی نرسنگ کا ماضی سے موازنہ کرتے ہوئے انیلا بتاتی ہیں کہ اب روایتی طور طریقے جدید چیزوں سے تبدیل ہو چکے ہیں۔ جدید مشینیں اور آلات کا استعمال بڑھنے کے باعث اب نرسوں کی صلاحیتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اسی بنا پر بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات پر قابو پانے میں مدد ملی۔ اس شعبے میں آنے والی لڑکیوں اور آگے بڑھنے والی نرسوں کے لیے پیغام ہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی تعلیمی مہارت بڑھائیں اور اس حوالے سے تخصیصیت (اسپیشلائزیشن) کی طرف آئیں۔ اس شعبے کا رخ کرنے والی لڑکیوں کو صرف محنت نہیں، بلکہ سخت محنت کی ضرورت ہے۔ نرسنگ کی اہمیت ڈاکٹر اور انجیئنر سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ اس کے ساتھ اس میں آگے بڑھنے کے بہت مواقع ہیں۔ اب تو مردوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس شعبے کا حصہ ہے۔ یقیناً یہ امر معاشرے کی فرسودہ ذہنیت میں تبدیلی کی غمازی ہے۔ عموماً ہمارے ہاں ڈاکٹر بننے کی خواہش زیادہ کی جاتی ہے، نرس کی نہیں۔ بعض لوگ نرسوں کو بالکل ملازم سمجھتے ہیں اور ان کی خدمت کو کم تر سمجھا جاتا ہے، جب کہ اگر دیکھا جائے تو تیمارداری اور مریضوں کا خیال رکھنا اور ان کی خدمت کرنا صرف نوکری نہیں بلکہ بہت بڑا کام ہے۔
دوسری طرف اب نرسنگ میں صرف ڈپلومہ ہی نہیں بلکہ بیچلر، ماسٹرز، پی ایچ ڈی اور پوسٹ پی ایچ ڈی پروگرام آچکے ہیں، جب کہ پاکستان میں پہلی بار بیچلر سائنس ان مڈوائف بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ اگر نرسنگ میں پی ایچ ڈی کی جائے تو عام ڈاکٹروں جتنی تنخواہیں بھی مل سکتی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ڈاکٹریٹ کی حامل نرس شاذونادر ہی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کسی نرس نے پی ایچ ڈی نہیں کیا۔ انیلا کا کہنا ہے کہ ان کے شعبے کو نرسنگ میں تخصیصی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ نومولود بچوں کی بیماریاں اور پیچیدگیاں بہت نازک اور احتیاط طلب ہیں۔ ہمارے ملک کو اس شعبے میں بہت زیادہ ماہر خواتین درکار ہیں۔ ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کافی بڑے پیمانے پر نرسوں کی ضرورت ہے۔
ذاتی زندگی
انیلا علی کے پیشہ ورانہ زندگی میں عمومی سوچ کے برعکس اہل خانہ کا بھرپور ساتھ رہا اور وہ اپنے اس عالمی اعزاز کو بھی وہ اسی کا ثمرہ قرار دیتی ہیںکہ یہ اعزازصرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک بہت بڑی کام یابی ہے۔ ذاتی زندگی میں انیلا علی بردائی ایک مکمل طور پر گھریلو خاتون ہیں۔ جو گھر اور کام، دونوں محاذوں سے بھرپور انصاف کرتی ہیں۔ شادی کے بعد بیوی، بہو اور ماںمیں سے اپنا کوئی کردار نظرانداز نہیں ہونے دیتیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں، جن کی عمریں بالترتیب دس اور تیرہ سال ہیں۔ انیلا گھر کے تمام کام خود کرتی ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر بچوں کو اسکول اور شوہر کو دفتر بھیجنے اور گھر کے دیگر ضروری کام نبٹا کر آتی ہیں۔ صبح 7 سے سہ پہر 4 بجے تک ڈیوٹی کے بعدگھر واپسی پر باقی کام پورے کرتی ہیں۔ اپنی سماجی زندگی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یوں تو غیر پیشہ ورانہ زندگی میں اپنی سماجی زندگی میں وہ اسے خاصا کم سمجھتی ہیں، لیکن نرس تو بنیادی طور پرجڑی ہی دوسرے فرد سے ہے، لہٰذا یہ پیشہ سماجی زندگی کے ساتھ قربانی کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ہفتے میں دوچھٹیوں میں بچوں اور گھر کو پورا وقت دیتی ہیں، لیکن بعض اوقات کسی کام کی وجہ سے یہ بھی مصروفیت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ انیلا کا موقف ہے کہ ایک نرس مجموعی طور پر سماجی سوچ کے بغیر اپنا کام کر ہی نہیں سکتی۔ فرصت کے اوقات میں نرسنگ اور مذہبی کتب پڑھنا پسند ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پکانے اور اسٹچنگ کا بھی شوق ہے۔
ناقابل فراموش
انیلا علی کا شعبہ چوں کہ بچوں کی انتہائی نگہداشت کا ہے، لہٰذا انہیں بچوں کی تشویش ناک حد تک غیر تسلی بخش صورت حال سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے، جس میں ظاہر ہے قبل ازوقت پیدایش کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے اور اس میں بچوں کی جان بچانا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بچوں کا جاں بر نہ ہونا انہیں بھی بہت دکھی کرتا ہے، لیکن دوسری طرف ایک واقعہ ان کے لیے ناقابل فراموش ہے۔ قبل ازوقت پیدا ہونے والے ایسے ہی ایک بچے کا پیدایش کے وقت وزن محض 500 گرام تھا۔ اس کے بعد یہ 3 ماہ مسلسل نگہداشت میں رہا۔ ان کی سر توڑ کوششوں کے بعد اللہ نے اس بچے کو زندگی دی اور آج یہ بچہ ماشااللہ مکمل طور پرصحت مند ہے۔ اس واقعے کو 14 برس بیت چکے، لیکن اسے جب بھی دیکھتی ہیں، تو انہیں دلی طور پر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس خدمت کے لیے چنا۔
ماں بننے کے تجربے کے بعد
انیلا علی بردائی کو بطور مڈوائف کام کرتے ہوئے 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ اس کام سے منسلک ہونے کے کچھ عرصے بعد ان کی شادی ہوئی اور وہ خود ماں جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوئیں۔ اس ضمن میں جب ان سے اس سے پہلے اور بعد کے احساسات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم یقیناً ماں بننے سے پہلے کسی ماں کی ممتا اور اس کے اس منفرد رشتے کے مقام اور نوعیت کا احساس نہیں کر سکتے۔ ماں بننے کے بعد جب ہم کسی نومولود بچے کو گود میں اٹھاتے ہیں، تو اپنے جگر گوشے سے جڑے کسی ماں کے احساسات ہمارے سامنے پوری طرح عیاں ہو جاتے ہیں، جب کہ اس سے پہلے ہم اس کا تصور تو کر سکتے ہیں، لیکن اس رشتے کی چاشنی اور لگن محسوس کرنا اس سے پہلے ممکن ہی نہیں۔
آزمایش۔۔۔
زندگی اور موت کے معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، لیکن انسان نے ظاہر ہے اپنی سی کوشش تو کرنی ہی ہوتی ہے، جس میں کام یابی بھی ہوتی ہے اور ناکامی بھی۔ ناکامی کی صورت میں پھر وہ اس کی کوئی نہ کوئی ذمہ دار یا وجہ بھی نکال لیتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی ولادت کے حوالے سے خدانخواستہ کسی بچے کی موت واقع ہوجائے تو ایسے میں بعض اوقات والدین یا دیگر لواحقین ظاہر ہے ایک صدمے اور غم کی کیفیت میں تو ہوتے ہی ہیں۔ انیلا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بعض اوقات لواحقین کے لیے اس حقیقت کو ماننا بہت مسئلہ ہوتا۔ دکھ تو ہمیں بھی ظاہر ہے بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن لواحقین کو اس غم وغصے کی سی کیفیت میں ہم ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر انہیں مطمئن کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا ردعمل بہت جذباتی نوعیت کا ہوتا ہے اوریقیناً یہ ایک مشکل وقت ہوتا ہے، البتہ ہم ایسی پیچیدگیوں کے حوالے سے انہیں پہلے سے مکمل طور پر آگاہ رکھتے ہیں، لیکن ظاہر ہے اس کے باوجود بھی کسی کو کھونا کوئی چھوٹا حادثہ تو نہیں ہوتا۔
فالو اپ وزٹ
بچوں کے انتہائی نگہداشت میں ذمہ داریوں کا وسیع تجربہ رکھنے والی انیلا علی بردائی کا کہنا ہے کہ پیدایشی طور پر مختلف پیچیدگیاں رکھنے والے بچوں کے والدین جب بچوں کو گھر لے جاتے ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ بس اب ان کا بچہ بھلا چنگا ہوگیا، لہٰذا وہ فالو اپ وزٹ کو غیر ضروری سمجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ جس سے بچے کی بعد کی زندگی بہت بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے۔ اس کے مختلف جسمانی اعضا کے ساتھ سنگین نوعیت کے مسائل ہونے لگتے ہیں اوریوں والدین کی اس غفلت کا خمیازہ بچے کو اپنی آیندہ زندگی میں بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ پیدایشی طور پر کسی بھی مسئلے کے شکار بچے کے فالو اپ کو نظرانداز نہ کریں، چاہے کسی دوسرے اچھے معالج سے کرائیں۔