پی آئی اے بہتری کےلیے چند گزارشات
پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ادارے کو ایک نجی کمپنی کے طور پر چلایا جائے
عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد جو اچھے کام کیے ہیں، ان میں ایک پی آئی اے میں پاکستان ایئر فورس کے گیارہ آفیسرز کو ایئر مارشل ارشد ملک کی قیادت میں پی آئی اے میں تعینات کرنا ہے۔ ارشد ملک کی قیادت میں ادارے کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کی کوشش جاری ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ آنے والے وقتوں میں ادارے کے حوالے سے بری خبروں کا خاتمہ ہوگا، کیونکہ اپنی تعیناتی کے بعد سے اب تک ارشد ملک پی آئی اے کو اس مقام تک لے آئے ہیں، جہاں پر ادارے کو باآسانی فروخت کیا جاسکتا ہے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ آج سے ایک سال پہلے تک پی آئی اے کو خریدار نہیں ملتا تھا۔ یہ وہی پی آئی اے ہے، جو ایک زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی، جو آج بھی ایک ملک کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے۔ جس نے دنیا کی کئی ایک بہترین ایئر لائنز کو کھڑا کیا، جن میں ورلڈ نمبر ون ایمریٹس ایئرلائن بھی شامل ہے۔ یہ شاندار ایئرلائن اقربا پروری، سیاسی مداخلت اور کرپشن کی بدولت اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ کوئی اسے خریدنے کو تیار نہ تھا، اور اس پر قیامت یہ کہ پی آئی اے کے بارے میں یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی تھیں کہ ''پائلٹ جعلی ڈگری ہولڈر ہیں''، ''نشہ کرتے ہیں''۔ ایئرہوسٹس منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائی جاتی تھیں۔
آج کم وبیش ایک سال کے بعد پی آئی اے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، انتظامی حالت بہتر ہوئی ہے، ٹکٹنگ کے نظام میں بہتری آئی ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میری عمران خان اور ارشد ملک کی خدمت میں پی آئی کی ترقی کےلیے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں:
1۔ پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ادارے کو ایک نجی کمپنی کے طور پر چلایا جائے اور اس کےلیے ضروری ہے کہ پی آئی اے یونینز سے مذاکرت کرکے ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام یونینز کا خاتمہ کردیا جائے۔ کیونکہ یونینز میں موجود شرپسند عناصر کی موجودگی میں پی آئی اے کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
2۔ اس وقت ایمریٹس ایئرلائن میں ایک جہاز کےلیے 120 اور پی آئی میں 507 کا عملہ ہے۔ کسی صاحب حیثیت شخص کی مدد سے ایک متوازی ایئرلائن کھڑی کرکے اضافی اہل افرادی قوت کا بوجھ اس پر منتقل کردیا جائے۔
3۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی آئی اے کے فضائی میزبان اور دفتری عملہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے مسافر حضرات سے بزرگوں کی مانند تلخی سے پیش آتا ہے۔ عملہ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ ہر مسافر سے وی آئی پی سلوک کرنے کی کوشش کی جائے۔
اور آخری بات کہ پی آئی اے میں طیاروں کی مجموعی تعداد 29 ہے، جن میں سے صرف 15 طیاروں کے ذریعے فضائی آپریشن چلایا جارہا ہے۔ قابلیت کا اس قدر فقدان ہے کہ لیز پر حاصل کیے گئے اکثر طیارے گراؤنڈ رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انتظامی اقدامات کرکے بیمار طیاروں سے جان چھڑا کر نئے طیاروں کو بیڑے میں شامل کیا جائے۔
چلتے چلتے میری عوام سے بھی گزارش ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کا سنہری دور دوبارہ لوٹ آئے، ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے کسی جعلی ڈگری ہولڈر، چرسی بھائی، بھتیجے کو لے کر اسے پی آئی اے میں بھرتی کروانے کےلیے اپنے علاقے کے کسی وزیر، مشیر کے گھر کا طواف نہیں کریں گے۔ بصورت دیگر پی آئی اے ترقی سے دوبارہ تنزلی کی طرف آجائے گی اور حکومت ادارے کو چلانے کےلیے خسارے کو گیس کے بلوں کی صورت میں عوام پر ڈالتی رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ آج سے ایک سال پہلے تک پی آئی اے کو خریدار نہیں ملتا تھا۔ یہ وہی پی آئی اے ہے، جو ایک زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی، جو آج بھی ایک ملک کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے۔ جس نے دنیا کی کئی ایک بہترین ایئر لائنز کو کھڑا کیا، جن میں ورلڈ نمبر ون ایمریٹس ایئرلائن بھی شامل ہے۔ یہ شاندار ایئرلائن اقربا پروری، سیاسی مداخلت اور کرپشن کی بدولت اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ کوئی اسے خریدنے کو تیار نہ تھا، اور اس پر قیامت یہ کہ پی آئی اے کے بارے میں یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی تھیں کہ ''پائلٹ جعلی ڈگری ہولڈر ہیں''، ''نشہ کرتے ہیں''۔ ایئرہوسٹس منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائی جاتی تھیں۔
آج کم وبیش ایک سال کے بعد پی آئی اے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، انتظامی حالت بہتر ہوئی ہے، ٹکٹنگ کے نظام میں بہتری آئی ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میری عمران خان اور ارشد ملک کی خدمت میں پی آئی کی ترقی کےلیے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں:
1۔ پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ادارے کو ایک نجی کمپنی کے طور پر چلایا جائے اور اس کےلیے ضروری ہے کہ پی آئی اے یونینز سے مذاکرت کرکے ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام یونینز کا خاتمہ کردیا جائے۔ کیونکہ یونینز میں موجود شرپسند عناصر کی موجودگی میں پی آئی اے کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
2۔ اس وقت ایمریٹس ایئرلائن میں ایک جہاز کےلیے 120 اور پی آئی میں 507 کا عملہ ہے۔ کسی صاحب حیثیت شخص کی مدد سے ایک متوازی ایئرلائن کھڑی کرکے اضافی اہل افرادی قوت کا بوجھ اس پر منتقل کردیا جائے۔
3۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی آئی اے کے فضائی میزبان اور دفتری عملہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے مسافر حضرات سے بزرگوں کی مانند تلخی سے پیش آتا ہے۔ عملہ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ ہر مسافر سے وی آئی پی سلوک کرنے کی کوشش کی جائے۔
اور آخری بات کہ پی آئی اے میں طیاروں کی مجموعی تعداد 29 ہے، جن میں سے صرف 15 طیاروں کے ذریعے فضائی آپریشن چلایا جارہا ہے۔ قابلیت کا اس قدر فقدان ہے کہ لیز پر حاصل کیے گئے اکثر طیارے گراؤنڈ رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انتظامی اقدامات کرکے بیمار طیاروں سے جان چھڑا کر نئے طیاروں کو بیڑے میں شامل کیا جائے۔
چلتے چلتے میری عوام سے بھی گزارش ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کا سنہری دور دوبارہ لوٹ آئے، ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے کسی جعلی ڈگری ہولڈر، چرسی بھائی، بھتیجے کو لے کر اسے پی آئی اے میں بھرتی کروانے کےلیے اپنے علاقے کے کسی وزیر، مشیر کے گھر کا طواف نہیں کریں گے۔ بصورت دیگر پی آئی اے ترقی سے دوبارہ تنزلی کی طرف آجائے گی اور حکومت ادارے کو چلانے کےلیے خسارے کو گیس کے بلوں کی صورت میں عوام پر ڈالتی رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔