ایک مرتبہ پھر تھینک یو امریکا
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ کوئی گمان میں نہ رہے کہ دہشت گردوں کی شرائط مان لیں گے...
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ کوئی گمان میں نہ رہے کہ دہشت گردوں کی شرائط مان لیں گے اور ان کا ایجنڈا مسلط ہونے دیں گے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی عمل کے ذریعے امن کو موقع دینا چاہیے لیکن کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ فوج دہشت گردوں کو اپنی شرائط زبردستی قبول کرانے کی اجازت دے گی۔ دیکھا جائے تو سیاستدانوں کے مقابلے میں آرمی چیف کا موقف ہر قسم کے ابہام سے پاک ہے جو پاکستان کے محب الوطن عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنے اس موقف کو وہ اپر دیر حادثے سے پہلے بھی دہرا چکے ہیں کہ دہشت گردی کے سامنے جھکنا کوئی صحیح حل نہیں ہے۔
دہشت گردوں کی دہشت گردیوں کے سامنے سیاستدانوں کے مذاکراتی موقف سے ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان دہشت گردوں کے سامنے لیٹ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام پچھلے دس سالوں سے دہشت گردی کے شکار ہیں جب کہ حقیقت میں یہ عرصہ پچھلے بتیس سالوں پر مشتمل ہے جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں دہشت گردی کا آغاز کیا اور آج یہ عفریت پورے خطے کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ چکا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں اس وقت کے حکمران طبقوں نے امریکا کا اتحادی بننے کی پالیسی اختیار کی' اس کے خلاف کوئی نہ اٹھ سکا۔ پاکستانی عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ''ہتھوڑا گروپ'' کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کے سر کچل کر ہلاک کر دیا گیا۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے پیچھے کون تھا۔ آج کی طرح اس وقت بھی یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت بھی اس میں اپنے ہی ملوث تھے کہ عوام کو اتنا دہشت زدہ کر دیا جائے کہ وہ اس وقت کے فوجی حکمران (ضیاء الحق) کے خلاف نہ اٹھ سکیں۔
لاطینی امریکا ہو یا مڈل ایسٹ یا پاکستان سامراج اور ان کے گماشتہ حکمرانوں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جب خطے میں سامراجی مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی بڑا آپریشن کرنا مقصود ہو تو وہاں کے عوام کو اس قدر کنفیوز' تقسیم اور دہشت زدہ کر دیا جائے کہ وہ اصل حقیقت کو نہ پا سکیں جب تک کہ اس ٹارگٹ کو حاصل نہ کر لیا جائے۔ جب سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی تو امریکا نے اسلامی دنیا میں اپنی اتحادی مذہبی جماعتوں اور قوتوں کو آگے رکھتے ہوئے اس پروپیگنڈے کی کھلی اجازت دی کہ سوویت یونین کو صرف انھوں نے ہی اپنے زور بازو سے شکست دی ہے۔ جب کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ بنیاد پرستی امریکا کے ہاتھ میں ایک انتہائی مفید اور کار آمد ہتھیار رہی ہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنی حریف سپر پاور کا خاتمہ کیا' اس کے لیے طالبان ایک موثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ القاعدہ ہو یا طالبان دونوں کو امریکا نے اپنے طویل المیعاد مفادات کے لیے استعمال کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ افغانستان، عراق، پاکستان ہو یا شام ہر جگہ ان کو سامراج خطے میں عدم استحکام کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں پیدا ہونے والا عدم استحکام وہ خلا پیدا کرتا ہے جہاں سامراجی مفادات پھل پھول سکتے ہیں اور اس کا آغاز امریکی صدر آئزن ہاور کے دور میں ان کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس نے شروع کیا۔
امریکیوں نے برطانیہ کی مدد سے یہ راز پا لیا تھا کہ مسلمانوں میں مذہبی جنونیت پھیلا کر ان کے آپس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ہی ان کے قدرتی وسائل تیل گیس وغیرہ پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اسلامی دنیا میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی ایجاد کی گئی۔ اس پالیسی کے تحت اسلامی دنیا خاص طور پر پاکستان میں اسلامی جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں کی سرپرستی ایک پالیسی کے تحت کی گئی۔ یہ سامراجی امریکی پالیسی ہی تھی جس کے تحت وہ تمام مذہبی جماعتیں جو پاکستان بنانے کی شدید مخالف تھیں اور جنہوں نے اس کے قیام میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالیں اور فتوے بازی کی' قیام پاکستان کے بعد اچانک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ بن گئیں، بجائے اس کے انھیں سزا دی جاتی ان کے ماضی کو فراموش کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ یہ جماعتیںنظریہ پاکستان کی ٹھیکیدار بن گئیں۔ کیوں کہ انھیں سامراج نے سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میںاستعمال کرنا تھا۔ پاکستان میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ متشدد اور انتہا پسند نظریات کی آبیاری کی گئی۔فرقہ پرست نظریات کو پروان چڑھایا گیا۔سرد جنگ کے لیے نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی گئی ۔ طالبان پہلے بھی امریکا کے لیے کار آمد ثابت ہوئے کہ ان کی افرادی قوت کو استعمال کر کے سامراج نے اپنے سب سے بڑے حریف کا خاتمہ کر دیا تو دوسری طرف یہ آج بھی امریکا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیںکہ یہ پاکستانی فوج سے لڑ کر اس کو کمزور کر رہے ہیں تو دوسری طرف آخری نتیجے میں پاکستان کے ٹوٹنے کا باعث اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے قبضے کی وجہ بنیں گے۔
آج ہماری مذہبی جماعتیں جو ماضی میں امریکا کی اتحادی تھیں اور جو بہت دیر کی بات نہیں' امریکا پر تبرا بھیجنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جا رہی ہیں لیکن انھیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان بانی پاکستان محمد علی جناح کی خواہش کے مطابق آج اگر سیکولر جمہوری ملک کے بجائے ایک بنیاد پرست ملک ہے تو اس کی وجہ امریکا کی ذات با برکات ہے۔ یہ امریکی سامراجی پالیسی ہی تھی جس کے تحت مذہبی جماعتوں گروہوں اور تنظیموں کی ہر طرح کی مدد کی گئی ورنہ معاملہ دوسرا بھی ہو سکتا تھا جیسا کہ مصر اور شام وغیرہ میں ہوا۔یوں دیکھا جائے تو امریکا نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کو بچایا ہی ہے۔ سو اس کے لیے انھیں امریکا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ تھینک یو امریکا... امریکا کا ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی امداد میں جو کردار ہے، اس کا بھی اسے کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے امریکا کا شکریہ ادا کرنا ایک مرتبہ پھر ہم پر واجب بنتا ہے۔ سو ایک مرتبہ پھر تھینک یو امریکا...
دہشت گرد اور ان کی حمایتی قوتوں کے مقدر کا فیصلہ ہونے والا ہے جس کا آغاز اکتوبرکے آخر اور نومبر سے ہو جائے گا۔
''موسم'' میں تبدیلی کا عمل 2 سے 8 اکتوبر کے درمیان شروع ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
دہشت گردوں کی دہشت گردیوں کے سامنے سیاستدانوں کے مذاکراتی موقف سے ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان دہشت گردوں کے سامنے لیٹ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام پچھلے دس سالوں سے دہشت گردی کے شکار ہیں جب کہ حقیقت میں یہ عرصہ پچھلے بتیس سالوں پر مشتمل ہے جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں دہشت گردی کا آغاز کیا اور آج یہ عفریت پورے خطے کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ چکا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں اس وقت کے حکمران طبقوں نے امریکا کا اتحادی بننے کی پالیسی اختیار کی' اس کے خلاف کوئی نہ اٹھ سکا۔ پاکستانی عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ''ہتھوڑا گروپ'' کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کے سر کچل کر ہلاک کر دیا گیا۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے پیچھے کون تھا۔ آج کی طرح اس وقت بھی یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت بھی اس میں اپنے ہی ملوث تھے کہ عوام کو اتنا دہشت زدہ کر دیا جائے کہ وہ اس وقت کے فوجی حکمران (ضیاء الحق) کے خلاف نہ اٹھ سکیں۔
لاطینی امریکا ہو یا مڈل ایسٹ یا پاکستان سامراج اور ان کے گماشتہ حکمرانوں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جب خطے میں سامراجی مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی بڑا آپریشن کرنا مقصود ہو تو وہاں کے عوام کو اس قدر کنفیوز' تقسیم اور دہشت زدہ کر دیا جائے کہ وہ اصل حقیقت کو نہ پا سکیں جب تک کہ اس ٹارگٹ کو حاصل نہ کر لیا جائے۔ جب سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی تو امریکا نے اسلامی دنیا میں اپنی اتحادی مذہبی جماعتوں اور قوتوں کو آگے رکھتے ہوئے اس پروپیگنڈے کی کھلی اجازت دی کہ سوویت یونین کو صرف انھوں نے ہی اپنے زور بازو سے شکست دی ہے۔ جب کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ بنیاد پرستی امریکا کے ہاتھ میں ایک انتہائی مفید اور کار آمد ہتھیار رہی ہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنی حریف سپر پاور کا خاتمہ کیا' اس کے لیے طالبان ایک موثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ القاعدہ ہو یا طالبان دونوں کو امریکا نے اپنے طویل المیعاد مفادات کے لیے استعمال کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ افغانستان، عراق، پاکستان ہو یا شام ہر جگہ ان کو سامراج خطے میں عدم استحکام کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں پیدا ہونے والا عدم استحکام وہ خلا پیدا کرتا ہے جہاں سامراجی مفادات پھل پھول سکتے ہیں اور اس کا آغاز امریکی صدر آئزن ہاور کے دور میں ان کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس نے شروع کیا۔
امریکیوں نے برطانیہ کی مدد سے یہ راز پا لیا تھا کہ مسلمانوں میں مذہبی جنونیت پھیلا کر ان کے آپس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ہی ان کے قدرتی وسائل تیل گیس وغیرہ پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اسلامی دنیا میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی ایجاد کی گئی۔ اس پالیسی کے تحت اسلامی دنیا خاص طور پر پاکستان میں اسلامی جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں کی سرپرستی ایک پالیسی کے تحت کی گئی۔ یہ سامراجی امریکی پالیسی ہی تھی جس کے تحت وہ تمام مذہبی جماعتیں جو پاکستان بنانے کی شدید مخالف تھیں اور جنہوں نے اس کے قیام میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالیں اور فتوے بازی کی' قیام پاکستان کے بعد اچانک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ بن گئیں، بجائے اس کے انھیں سزا دی جاتی ان کے ماضی کو فراموش کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ یہ جماعتیںنظریہ پاکستان کی ٹھیکیدار بن گئیں۔ کیوں کہ انھیں سامراج نے سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میںاستعمال کرنا تھا۔ پاکستان میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ متشدد اور انتہا پسند نظریات کی آبیاری کی گئی۔فرقہ پرست نظریات کو پروان چڑھایا گیا۔سرد جنگ کے لیے نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی گئی ۔ طالبان پہلے بھی امریکا کے لیے کار آمد ثابت ہوئے کہ ان کی افرادی قوت کو استعمال کر کے سامراج نے اپنے سب سے بڑے حریف کا خاتمہ کر دیا تو دوسری طرف یہ آج بھی امریکا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیںکہ یہ پاکستانی فوج سے لڑ کر اس کو کمزور کر رہے ہیں تو دوسری طرف آخری نتیجے میں پاکستان کے ٹوٹنے کا باعث اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے قبضے کی وجہ بنیں گے۔
آج ہماری مذہبی جماعتیں جو ماضی میں امریکا کی اتحادی تھیں اور جو بہت دیر کی بات نہیں' امریکا پر تبرا بھیجنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جا رہی ہیں لیکن انھیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان بانی پاکستان محمد علی جناح کی خواہش کے مطابق آج اگر سیکولر جمہوری ملک کے بجائے ایک بنیاد پرست ملک ہے تو اس کی وجہ امریکا کی ذات با برکات ہے۔ یہ امریکی سامراجی پالیسی ہی تھی جس کے تحت مذہبی جماعتوں گروہوں اور تنظیموں کی ہر طرح کی مدد کی گئی ورنہ معاملہ دوسرا بھی ہو سکتا تھا جیسا کہ مصر اور شام وغیرہ میں ہوا۔یوں دیکھا جائے تو امریکا نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کو بچایا ہی ہے۔ سو اس کے لیے انھیں امریکا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ تھینک یو امریکا... امریکا کا ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی امداد میں جو کردار ہے، اس کا بھی اسے کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے امریکا کا شکریہ ادا کرنا ایک مرتبہ پھر ہم پر واجب بنتا ہے۔ سو ایک مرتبہ پھر تھینک یو امریکا...
دہشت گرد اور ان کی حمایتی قوتوں کے مقدر کا فیصلہ ہونے والا ہے جس کا آغاز اکتوبرکے آخر اور نومبر سے ہو جائے گا۔
''موسم'' میں تبدیلی کا عمل 2 سے 8 اکتوبر کے درمیان شروع ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997