امید اور خوف

مذاکرات ہونے چاہئیں۔<br /> <br /> نہیں ہونے چاہئیں<br /> <br /> تو پھرکیا کریں؟<br /> <br /> دہشت گردوں سے لڑائی کریں۔

03332257239@hotmail.com

مذاکرات ہونے چاہئیں۔

نہیں ہونے چاہئیں

تو پھرکیا کریں؟

دہشت گردوں سے لڑائی کریں۔

اے پی سی میں تو مذاکرات کی بات ہوئی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مار دھاڑ جاری رکھی جائے۔

ابھی جنگ بندی تو ہوئی نہیں۔

اس کا مطلب کیا ہے کہ ہمارے فوجیوں پر حملے کیے جائیں؟

تھوڑا صبر کریں اور مذاکرات تو ہونے دیں، جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔

چرچ پر حملہ کیا گیا، اب کتنا صبر کریں۔

نو سال سے تو لڑرہے ہیں۔ اس کے خاتمے کو نو ہفتے تو دیں۔

دہشتگردوں نے ہمارے پچاس ہزار لوگوں کو مارا ہے۔

دونوں طرف سے لوگ مرے ہیں۔

ان ظالموں نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑا۔

دونوں طرف سے معصوم لوگ شہید ہوئے ہیں۔

مذاکرات پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔

آپ کیا پھر خون کی ندیاں بہانا چاہتے ہیں، فوج کو آگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

خون تو ویسے بھی بہہ رہا ہے۔

مذاکرات کامیاب ہوجائیں تو بہتری کی امید ہے ورنہ آپ فوج کو کہاں کہاں بھیجیںگے۔

کس سے بات چیت کریںگے؟ درجنوں گروہ ہیں جو آئین کو نہیں مانتے۔

کیا واضح ہوجائے گا؟

پتہ چل جائے گا کہ کون امن چاہتاہے اور کون جنگ۔

پھر کیا ہوگا؟

امن والوں سے بات کرینگے اور لڑنے والوں سے لڑیںگے۔

جب لڑنا ہی ہے تو لڑلیں۔

ستر سے لڑنے کے بجائے سات سے لڑنا بہتر ہوگا۔

طالبان کو اے پی سی کے بعد اچھے رویے کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ ابھی بات دو طرفہ ہونی چاہیے۔ حکومت بھی تو کچھ کرے۔

حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

حکومت کو جنگ بندی میں پہل کرنی چاہیے۔

اب تو طالبان کا دفتر کھولنے کی بات ہورہی ہے۔

اچھا ہے بے چہرہ دشمن کا چہرہ سامنے آجائے گا۔

دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا۔

چلیں اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو قوم ایک ہوجائیگی۔

کیا مطلب؟

کچھ لوگ لڑنے اور کچھ بات چیت کا کہہ رہے ہیں۔

تو مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا ہوگا؟

پوری قوم طے کرلے گی کہ چلو اب لڑو لیکن...

لیکن کیا؟

مذاکرات پوری نیک نیتی سے ہونے چاہئیں۔


پہلے انھیں معافی مانگنی چاہیے۔

معافی دو طرفہ ہونی چاہیے۔

ریاست کیوں معافی مانگے؟

ریاست نے اپنے شہریوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا ہے۔

آپ ہر بات میں امریکا کو بیچ میں لے آتے ہیں۔

آپ سپر پاور سے مرعوب جو ہیں۔

حالات ہی ایسے تھے۔

ہم نے پرائی آگ میں کود کر اپنے چمن کو آتش کدہ بنادیاہے۔

کیا یہ لڑائی ہماری نہ تھی؟

9/11میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ ہمارا کیا تعلق تھا۔

طالبان اور ملا عمر کو تو ہم نے تسلیم کیا تھا۔

وہ ہمارے دوست تھے جنھیں امریکا کے کہنے پر ہم نے اپنا دشمن بنالیا۔

پاکستان کے معصوم لوگوں نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟

امریکا کے ڈرون سے وہ مرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم ڈالر لے کر سپر پاور کی مدد کررہے ہیں۔

تو امریکا جاکر ان سے لڑیں۔

وہ تو دس ہزار میل دور ہے۔ ہم قریب ہیں تو ہم زد میں آتے ہیں۔

یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔

یہ امریکی ڈرون کا رد عمل ہے۔ آپ عمل ختم نہیں کریںگے تو رد عمل کیسے ختم ہوگا؟ افغانستان میں امریکی بھی مررہے ہیں۔

امریکا ہمارے کنٹرول میں نہیں۔

ہم دوسروں کی جنگ سے نکل کر جہاد کے جواز کو ختم کر سکتے ہیں۔

اب بھی آپ کو امید ہے؟

ہمیں اچھی امید رکھنی چاہیے اور برے کے لیے تیار بھی رہناچاہیے۔

ان لوگوں سے جو آئین کو نہیں مانتے۔

آئین کو تو حبیب جالب بھی نہیں مانتے تھے لیکن آپ ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو'' مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔

وہ آمریت کا دور تھا اور یہ شاعر کی تلخی تھی۔ آپ کہاں کی بات کو کہاں ملارہے ہیں۔

یہاں طالبان بھی تلخی ہے۔ جب ہم اپنے فیصلے اپنے ملک میں کریںگے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ مذاکرات آئینی حکومت ہی سے کریںگے۔

کیا ٹھیک ہوگا۔ سب خوش فہمی ہے۔

آئین کو تو بلوچستان میں بھی کچھ لوگ نہیں مانتے لیکن آپ ان سے بات کرنے کو تیار ہیں۔

وہ ہمارے اپنے شہری ہیں جن سے زیادتی کو ہم مانتے ہیں۔ ہم معافی و تلافی کے لیے تیار ہیں۔

یہی جذبہ دوسری طرف بھی ہونا چاہیے۔

انھوںنے اسکول، مدرسے، مسجدیں تباہ کی ہیں۔ فوجی تنصیبات اور مارکیٹوں پر حملے کیے ہیں۔

انھوںنے پاکستان کا جھنڈا نہیں جلایا اور نہ قائد اعظم کی رہائش گاہ پر حملہ کیا ہے۔

آپ کو امید ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوںگے۔

نیک نیتی دونوں طرف سے ہوئی تو ضرور کامیاب ہونگے۔

ڈپلومیٹک جواب نہ دیں صاف صاف بتائیں۔

نظر نہ آنے والی اور ان دیکھی چیز میں دو جذبے کار فرما ہوتے ہیں۔

وہ کیا؟

اچھے کی امید اور برے کا خوف۔

آپ کا مطلب ہے کہ آس اور یاس۔

مجھے مشکل اردو نہیں آتی۔ میں تو بس کہتا ہوں امید اور خوف۔
Load Next Story