جمہوری انتقام ہیہات ہیہات
ڈپلومیٹک زبان میں لکھا ہوا پورا پیراگراف پڑھ ڈالیے، پلے کچھ نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اس میں کوئی بات دو...
ڈپلومیٹک زبان میں لکھا ہوا پورا پیراگراف پڑھ ڈالیے، پلے کچھ نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اس میں کوئی بات دو ٹوک انداز میں نہیں کہی جاتی۔ ہر سوال کے دو جواب ہوں گے اور ہر جواب کے دو مطالب۔ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ فیصلہ آپ کی صوابدید پر ہوگا۔ نتائج کے آپ ہی ذمے دار ہوں گے۔
فرانس کے مرحوم صدر جنرل ڈیگال کہتے ہیں سیاستدان حکمران بننے کے لیے خادموں کا بہروپ اختیار کرتے ہیں۔ سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے''۔ یہ نہیں کہتے کہ ''کس کے لیے؟'' لیکن یہ بہترین انتقام ہوتا کیا ہے؟ اگر انتقام بہترین ہوا تو پھر وہ انتقام کہاں رہتا ہے؟ ''لارا لپا'' ہوجاتا ہے۔
طاقتور لوگ فرماتے ہیں کہ ''سزا اور جزا سے آمریت کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔'' عوامی حمایت یافتہ جمہوری نظام سے ہی جمہوریت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بناسپتی جمہوریت جاریہ آمریت کے لیے بہترین انتقام ثابت ہوسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہی پاکستان کے جاگیرداروں نے اپنی آبائی نشستوں کے گفٹ پیک بغل میں دباکر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ پر قبضہ کرلیا۔ عوامی جمہوریت پاکستان بدر ہوگئی اور بناسپتی جمہوریت سکہ رائج الوقت ہوگئی۔ بھلا ایسے سیاستدان جس کے قدم زمین پر نہ ہوں ایسی جمہوریت جس کی جڑیں زمین میں نہ ہوں، بھلا وہ آمریت کے لیے کیسے بہترین انتقام ثابت ہوسکتی ہے؟ بلکہ 65 سال سے آمریت جمہوریت کے لیے بہترین ''لگام'' ثابت ہورہی ہے اور آمر کے لیے ''حبشی حلوہ'' یہی دکھ ہے کہ بار بار آرہی ہے اور مستقبل کی ضمانت نہیں کہ جانے کب آجائے۔
اگر قانون ساز اسمبلیوں میں جاگیرداروں کی اکثریت مستند ہے تو کیا پاکستان کی 18 کروڑ آبادی جاگیرداروں وڈیروں پر مشتمل ہے، دوسرا عجوبہ یہ ہے کہ یہ گن پوائنٹ پر نہیں بلکہ ووٹ لے کر آرہے ہیں، 66 سال سے آرہے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی خودمختاری، غیر جانبداری اور الیکشن کی شفافیت کے متعلق کیا فرمائیں گے سیاسی پنڈت؟ ان کو تو 66 سال آرٹیکل 63-62 ہی پتہ نہیں چلا۔ یہ نصف صدی کا دکھڑا ہے دو چار برس کا نہیں۔ بے شک آمر کے آگے نعرے لگانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے لیکن جمہوریت کی ناگن نعروں کی بین پر ہی جھومتی ہے۔ جب ملک میں جمہوری لپاڈکی، ڈیموکریٹک چھینا جھپٹی، غیر جانبدارانہ ٹارگٹ کلنگ، آزادانہ اغوا برائے تاوان، شفاف کرپشن وغیرہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو عوام کو بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔
لیفٹ رائٹ، لیفٹ رائٹ۔۔۔۔۔ جس کو سن کر کیا لیفٹسٹ کیا رائٹسٹ سب کے سب الرٹ ہوجاتے ہیں، اور اپنے لیڈر کا جو حوصلہ بڑھانے کے لیے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ ''قدم بڑھاؤ خادم قوم ہم تمہارے ساتھ ہیں'' اور خادم قوم نعروں کی بین پر لہراتے ہوئے سچ مچ قدم بڑھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ سرحد کے پار نکل جاتے۔ جب ہوش آتا ہے تو پتہ لگتا ہے کہ عوام سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، نئے آمر کی آمد کی خوشی میں مٹھائیاں کھا رہے ہیں۔ لیکن آمر مطلق اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک کہ جلدازجلد غریبوں کی جمہوریت گراس روٹ لیول کے خود مختار بلدیاتی انتخابات نہیں کرادیتی اور ترقیاتی فنڈز کے اجرا کو یقینی نہیں بنادیتا۔ اس کے بعد ٹھاٹ سے بغیر پارٹی بنائے، بغیر الیکشن مہم چلائے اور بغیر ہاتھ پیر چلائے دس سال حکومت کرنے کی گارنٹی حاصل کرکے چین کی بنسری بجاتا ہے اور سیاستدان بناسپتی جمہوریت اور اس کے بہترین انتقام کے سنہری خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ دس سال بعد بھی آمر کو زوال اس لیے آتا ہے کہ روز ایک ہی چہرہ دیکھ کر بور ہوجاتے ہیں۔
ضیاء الحق کے دور میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا جس کا تذکرہ موصوف نے ہی کیا تھا اور PTV کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان کی کوریج TV پر کم کردے۔ کیونکہ لوگوں نے PTV سے شکایت کی تھی کہ ان کے نشریاتی سسٹم میں خرابی پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ایک وردی پوش شخص TV میں پھنس گیا ہے۔ جب بھی TV کھولتے ہیں وہی نظر آتا ہے۔ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ گواہ ہے جب بھی بناسپتی جمہوریت آئی غریبوں کی جمہوریت خودمختار بلدیاتی نظام کے گراس روٹ لیول کے انتخابات کو ہونے نہیں دیا۔ اس میں چمک ہی چمک ہوتی ہے جو سیاستدان ترقیاتی کاموں میں ضایع کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے برخلاف جب آمریت آئی سب سے پہلے خود مختار بلدیاتی نظام ہی بحال ہوا۔ چنانچہ ثابت ہوا بناسپتی جمہوریت ہی غریبوں کی جمہوریت کے لیے بہترین انتقام ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ A: عوام ان پارٹیوں کو ووٹ دیں جن کے منشور میں پہلے نمبر پر گراس روٹ لیول کے خودمختار بلدیاتی نظام کی گارنٹی ہو۔ B: جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ، جاگیرداروں کو انگریزوں نے ان کی جن جلی اور خفی خدمات کے صلے میں جاگیریں عطا کی تھیں وہ انگریزوں کی ملکیت نہیں تھیں بلکہ انھوں نے ناجائز قبضہ کیا ہوا تھا۔جب وہ قبضہ چھوڑ کر ہندوستان سے چلے گئے تو تمام ایسی زمینیں خودبخود سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ بھارت نے آزادی کے بعد پہلا کام ہی یہی کیا کہ ان کو اپنی تحویل میں لے لیا جو پاکستان نے نہیں کیا۔ پاکستان کے جاگیرداروں نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ میں شامل ہوکر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ آج ان سے نجات حاصل کرنا آج کے عوام کے بس کا روگ نہیں ہے۔ جاگیردار کا طرز حکمرانی یہ ہے کہ وہ ہاری کو بدترین محتاجی میں مبتلا رکھتا ہے۔
مثلاً (1)اس کو اپنی زمین پر کہیں آباد ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک طرف وہ وڈیرے کا محتاج ہوگیا، دوسری طرف احسان مند بھی ہوگیا۔ تیسری طرف 24 گھنٹے وہ اس کی نگرانی میں آگیا۔ (2) اس کے بعد اس کو قرضوں سے لاد دیتا ہے جس سے وہ مرتے دم تک نہیں نکل سکتا۔ (3) کاشت کاری میں جاگیردار ہاری پارٹنر ہوتے ہیں۔ ایک پارٹنر کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دوسرے پارٹنر کے بچوں کے سرکاری پرائمری اسکول میں جاگیردار بھینسیں باندھتا ہے وغیرہ۔ جب یہ جاگیردار اپنی جاگیر سے نکل کر ملک کا حکمران بنتا ہے تو وہی طرز حکمرانی اختیار کرتا ہے جو اس کو آتی ہے۔ ملک کی آبادی کو روٹی روٹی کا محتاج کرتا ہے۔ جب کہ ملک میں گندم میں خودکفالت کی خوشخبریاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ گندم کی نئی فصل اٹھانے کے لیے بار دانے کی قلت کا واویلا بھی سنائی دیتا ہے۔ سیلاب میں لاکھوں ٹن گندم کے تلف ہونے پر افسوس بھی کیا جاتا ہے۔ روس سے بھی گندم درآمد کی گئی ہے لیکن ''روٹی'' کی قیمت میں اضافے کی رفتار پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ ایوب دور میں چینی ایک روپے سیر (کلو) کی جگہ سوا روپیہ ہوگئی تھی۔ عوام نے ایوب خان کو گھر بھیج دیا تھا۔ آج چینی 55 کلو ہے کسی کے منہ سے آواز ہی نہیں نکلتی۔ آواز تو جب نکلے جب پیٹ میں روٹی ہو۔ اگر پیٹ خالی ہے تو ہوا ہی نکل سکتی ہے اور وہ نکل رہی ہے، مگر فائدہ؟
آخر میں سندھ کے سینئر وزیر کا اس ریمارکس پر ''دکھ'' ملاحظہ کیجیے۔
''مجھے اس ریمارکس پر دکھ ہوا۔ جس میں کہا گیا ہے ''جمہوریت سے مارشل لاء بہتر ہے۔ کم ازکم مارشل لاء حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات تو ہوتے ہیں۔''