مختلف اور کمزور بلدیاتی نظام کیوں

چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر سندھ حکومت نے مجبور ہوکر سندھ میں 23 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے...

چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر سندھ حکومت نے مجبور ہوکر سندھ میں 23 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کردیاہے۔ جب کہ 90 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کرنے والے عمران خان کی کے پی کے کی حکومت سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات تو کیا کراتی اس نے سب سے پہلے تاریخ تک نہیں دی اور سندھ کی پی پی حکومت بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دینے والی پہلی حکومت بن گئی ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ وعدہ پورا بھی ہوگا کہ نہیں۔ کیوںکہ سابق سندھ حکومت نے تو اپنے صدر آصف علی زرداری کے 6 ماہ میں بلدیاتی الیکشن کرانے کے اعلان پر عمل نہیں کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ جب کہ حکومت پنجاب اپنی اسمبلی سے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2013 منظور بھی کراچکی ہے اور چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ مسلسل ٹال مٹول کرنے پر پنجاب حکومت کی سرزنش بھی کرچکے ہیں۔

پنجاب حکومت کے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیاد کے فیصلے کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج بھی کررکھاہے جب کہ سندھ میں متحدہ بھی حکومت کے منظور کیے گئے سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013 کو مسترد کرچکی ہے اور سندھ کے علاوہ کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیاد پر کرانے کا پہلے ہی اعلان کررکھاہے مگر پنجاب حکومت اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر کرانے کے لیے نہ جانے کیوں بضد ہے۔ شاید وہ چاہتی ہے کہ عدالتوں میں چیلنج کیا گیا عدالتی فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دسمبر میں ہونے والی ریٹائرمنٹ تک نہ ہو کیوںکہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ نے ہی چاروں صوبوں کو پابند کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ آئینی طورپر بلدیاتی انتخابات کرائیں کیوںکہ ملک میں انتخابات نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ گزشتہ صوبائی حکومتوں نے ضلعی نظام کے خاتمے میں بھرپور دلچسپی لے کر بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا مگر جمہوریت کی دعویدار کسی ایک حکومت نے بھی بلدیاتی انتخابات کرانے میں معمولی دلچسپی بھی نہیں لی اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے ان بلدیاتی اداروں کو بے حال کردیا جنہوںنے دور آمریت کی ضلعی حکومتوں میں شاندار کار کردگی دکھائی تھی۔ سرکاری کنٹرول میں آنے کے بعد بلدیاتی ادارے تعمیری کام تو کیا کراتے وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں اور سندھ کے بلدیاتی اداروں کی صورتحال تو سب سے زیادہ خراب ہے۔


پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں اور اصل میں بلدیات کے انتخابات پنجاب ہی میں ہوںگے جہاں وفاقی وصوبائی وزرا، ارکان اسمبلی ودیگر سیاسی دھڑوں نے بلدیاتی سیاست میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے دیہی اور شہری کونسلوں کی سربراہی کے حصول کے لیے جوڑ توڑ بھی شروع کردیا ہے اور حکمران مسلم لیگ ن کے با اثر رہنمائوں نے نئے سیاسی دھڑے بنانے شروع کردیے ہیں اور پنجاب میں ن لیگی رہنما حلقہ بندیاں اپنی مرضی کے مطابق کرانے کے لیے سر گرم ہوگئے ہیں اور اپنے گھرانے کے افراد کی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ملک کے چاروں صوبوں کے ارکان کی اکثریت (خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ ن) بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہی نہیں چاہتے اور ان کا موقف ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد شہری مسائل کے حوالے سے ترقیاتی فنڈ اور اختیارات بلدیاتی عہدیداروں کو منتقل ہوجائیںگے جس سے ان کی انتخابی سیاست متاثر ہوگی اور لوگ اپنے کاموں کے لیے ارکان اسمبلی کے پاس آنے کے بجائے بلدیاتی عہدیداروں کے پاس جایا کریںگے جس کی وجہ سے ان کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں سے قبل ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہوا کرتا تھا، سابق فوجی صدور جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں میں تمام صوبوں میں ایک جیسے بلدیاتی قوانین بلدیاتی عہدیداروں کے انتخاب کا ایک ہی طریقہ کار ہوتا تھا مگر 2009 میں ضلعی نظام کے خاتمے کے بعد چاروں صوبوں نے 18 ویں ترمیم سے حاصل اختیارات کے تحت بلدیاتی اداروں کا حلیہ بگاڑدیا۔ تین صوبوں سے ضلعی حکومتیں ختم کرکے 1979 کا جنرل ضیاء کا بلدیاتی نظام قائم کردیاگیا۔ جب کہ پنجاب میں اب تک ضلعی حکومتیں قائم ہیں الیکشن کمیشن نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ چاروں صوبے یکساں بلدیاتی نظام کے بجائے اپنی اپنی مرضی کا نظام بنارہے ہیں جس کی وجہ سے ہر صوبے میں مختلف بلدیاتی نظام قائم ہوگا اور الیکشن کمیشن کو بھی مختلف بلدیاتی نظاموں کے باعث بلدیاتی انتخابات کرانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی معاملات چلانے کی صوبوں کو مکمل طورپر آزادی ملی ہوئی ہے اور وہ اپنا من مانا نظام لانے میں آزاد ہیں جس کی وجہ سے ضلعی نظام کے خاتمے کے بعد ملک بھر میں بلدیاتی ادارے تماشا بنے ہوئے ہیں اور کسی بھی صوبے نے با اختیار بلدیاتی نظام پر توجہ نہیں دی اور سندھ وپنجاب کی اسمبلیوں نے جو بلدیاتی بل منظور کیے ہیں ان میں بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات نہیں دیے گئے اور کم اختیارات کا حامل ایسا کمزور بلدیاتی نظام منظور کرایا گیا ہے جس میں بلدیاتی عہدیداروں کے اختیارات محدود ہوںگے اور وہ آزادی سے کام نہیں کرسکیںگے اور مکمل طورپر صوبائی حکومتوں اور بیوروکریسی کے محتاج اور ان ہی کے رحم وکرم پر ہوںگے۔

ضلعی نظام میں یوسی ناظم تک با اختیار تھا اور ضلع، تحصیل اور ٹائون ناظمین کو مالی وانتظامی اختیارات حاصل تھے جب کہ اعلیٰ افسران تک ان کے ماتحت ہونے کے باعث کسی کام میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے جہاں اچھے ناظم تھے انھوںنے کام کرکے دکھایا اور اب بلدیاتی عہدیداروں کے نہ صرف عہدوں کے نام مختلف ہوں گے بلکہ وہ اعلیٰ افسروں کو جوابدہ بھی ہوںگے اور سیاسی مخالفت پر انھیں ہٹایا بھی جاسکے گا۔ نئے بلدیاتی قوانین میں بلدیاتی عہدیداروں کو ارکان اسمبلی کو بھی خوش رکھنا پڑے گا اور ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈ بھی تقسیم ہوجائیںگے۔ کمزور اور مختلف بلدیاتی نظاموں کے باعث بلدیاتی نظام میں منتخب ہونے والے عوامی مسائل حل کرانے میں ناکام رہیںگے اور بلدیاتی انتخابات بے مقصد ہوکر رہ جائیں گے اور عوام ان سے پہلے جیسی توقعات وابستہ رکھیںگے اور موجودہ صورتحال میں مالی بحران مزید بڑھے گا اور سیاسی مداخلت بلدیاتی نظام میں جاری رہنے سے عوام کے بنیادی مسائل بری طرح متاثر ہوں گے۔
Load Next Story